قومی کھیل موت کے منہ میں
اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا ہاکی کا میدان عالمی سطح کے کھلاڑیوں سے خالی ہو گیا ہے دراصل ہم اس قدر خود غرض ..
ہاکی کی گود میں پلا ہوا عزیزم اختر رسول نے جب اپنے دل پر جبر کر کے ٹی وی پر یہ اطلاع دی کہ ہاکی کے کھیل کو جاری رکھنے کے لیے چونکہ فنڈز بالکل ختم ہو گئے ہیں اس لیے ہاکی کا کھیل بند کیا جا رہا ہے۔
اس حیران کن خبر کی مزید تصدیق کی ضرورت نہیں تھی کہ ہاکی کے بارے میں اختر سے زیادہ مستند اور کون ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی اس انتہائی ناپسندیدہ خبر کو قبول کرنا آسان نہ تھا مگر اس کی تصدیق بھارت کی ہاکی فیڈریشن نے یہ کہہ کر کر دی کہ پاکستان ہاکی کو فنڈز کی کمی ہے تو ہم مالی خدمت کے لیے تیار ہیں، ہاکی کے رقیب کی طرف سے یہ زناٹے کی چپت کھانے کے بعد اختر کی بات پر شک و شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اور نہ یہ کہ صرف کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا بلکہ عزت و وقار کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہا۔ ہم اسی ہاکی کے کھیل کے ورلڈ چیمپیئن بھی رہے اور یہ کھیل ہمارا قومی کھیل بھی رہا ہے۔
کرکٹ فٹ بال وغیرہ ہمارے صرف مشغلے تھے، ان میں سے کوئی قومی کھیل کے مقام پر فائز نہیں تھا ہمارا قومی کھیل صرف ہاکی کو ہی سمجھا جاتا رہا اور اس کھیل کو ہم نے جو عروج دیا اور جس طرح اس کا حق ادا کیا، اس پر ہمیں فخر ہے لیکن ہمارے محدود قومی احساس اور عقل رکھنے والے حکمرانوں نے ہم سے یہ قومی اعزاز بھی چھیننے کی کوشش کی ہے اور ان کے کروڑوں کے بے سود اور شوقیہ غیر ملکی دوروں میں سے اتنی رقم بھی نہ بچ سکی کہ ہم اپنا قومی کھیل ہی جاری رکھ سکتے۔
بھارت نے ہم پر بروقت طنز کر کے ہمارا سر اپنے سامنے جھکا دیا ہے۔ ہمیں اپنے اس چالاک اور چاک و چوبند دشمن کی داد دینی چاہیے کہ اس نے ہماری ذلت و رسوائی کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
اگر اس بھارتی طنز سے ہماری غیرت جاگ اٹھے تو بڑی بات ہے لیکن اس سانحے کو کئی دن گزر چکے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے اس پر معمولی سا ردعمل بھی ظاہر نہیں کیا۔ ویسے اس طرح کے غریب اور غیر نفع بخش کھیلوں کا فائدہ ہی کیا ہے کہ ان پر خرچ بھی کیا جائے اور پھر ان کی دیکھ بھال بھی کی جائے۔ ایسے کسی کھیل پر کچھ خرچ کرنے سے کہیں بہتر تو کوئی چھوٹی موٹی فیکٹری بھی ہو سکتی ہے جس سے کچھ ملے گا تو سہی صرف رقیب اور دشمن کے کچوکے ہی نہیں ملیں گے۔
ہاکی کے کھیل میں ہم نے کئی ایسے کھلاڑی پیدا کیے جن کو زمانہ یاد رکھے گا۔ ان پاکستانی کھلاڑیوں نے ہاکی کے کھیل کو عروج تک پہنچا دیا۔ اختر کے علاوہ بھی اگر کوئی کلاسیکی کھلاڑی زندہ سلامت ہے تو آج اس کے ٹوٹے ہوئے دل کی کیا حالت ہو گی اسے کوئی دوسرا کھلاڑی ہی سمجھ سکتا ہے جس کے دل کو چوٹ لگی ہو اور وہ اپنے کھیل کے اس حال پر ماتم کر رہا ہو۔
کسی کھیل کی ٹیم قسمت سے بنتی ہے۔ ہاکی کے سرپرست ائر مارشل نور خان کے زمانے میں یہ کھیل عروج پر تھا اس نے کھلاڑیوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی اور ایک ایک کھلاڑی کو اس کی انتہائی صلاحیتیں استعمال کرنے کا جذبہ دیا۔ دنیا بھر میں ہاکی کے میدانوں کو ہم اپنے پاؤں اور ہاکیوں سے روندتے رہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ہاکی اسٹیڈیم پاکستان میں ہی ہے جس کے سبزہ زار اپنے دوستوں کو یاد کر کے خاموش ہو گئے ہوں گے کہ نہ جانے اب پھر کب ان کے سبزہ زاروں پر بہار آئے گی اور ان قدموں کی دھمک سے ان کی قسمت جاگے گی۔ سمیع اللہ جیسے برق رفتار کھلاڑی گیند سے بھی آگے نکل جاتے تھے اور ایسا ہی حال دوسرے کھلاڑیوں کا بھی تھا جو اس کھیل کے عشاق میں سے تھے اور جنہوں نے اسے بنایا سنوارا تھا حسن سردار اپنی ہاکی اور گیند سے میدان میں نقش و نگار بناتا ہوا گیند کو گول کی طرف لے جاتا تھا ایک آدھ کا نام ذہن میں آ گیا ورنہ دوسرے کتنے تھے جو چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے خود یہی اختر رسول اور ان کے مرحوم والد چوہدری غلام رسول ورلڈ چیمپیئن۔
اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا ہاکی کا میدان عالمی سطح کے کھلاڑیوں سے خالی ہو گیا ہے دراصل ہم اس قدر خود غرض اور قومی وقار سے بے فکر اور لاتعلق ہو گئے ہیں کہ چند ٹکے بچا کر دشمن کی طنز کا نشانہ بن گئے ہیں۔ ایسے موقعوں پر نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا۔ عزت بے عزتی کا سوال ہو تو کون بے غیرت ہے جو کسی کنجوسی کا سوچ بھی سکے۔
ایسے ہی موقع ہوتے ہیں جب سب کچھ داؤ پر لگا دیا جاتا ہے اور نفع نقصان کی پروا نہیں کی جاتی اور جب قومی عزت کا سوال ہو تو اس پر کسی نقصان کی کیا پروا۔ ہمارے حکمران ان دنوں بہت مصروف ہیں ان سے تو ماڈل ایان علی کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو رہا ہاکی کا مسئلہ کیا حل کریں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ہمارے لیڈروں میں کون ہاکی کا شائق یا کھلاڑی تھا ورنہ میں اس کی خدمت عرض کرتا کہ وہ اس قومی مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اٹھائے اور بھارت کے حوالے سے ہمارے بڑوں کو غیرت دلائے۔
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ہاکی کو کھیل کی تربیت جاری رکھنے کے لیے کتنی رقم درکار ہے لیکن جتنی بھی ہے ہم اپنے اللے تللے ذرا سے کم کر کے اس کھیل کو زندہ رکھ سکتے ہیں تا کہ ہمارے نوجوان مقابلے کی فضا میں زندہ رہیں اور اپنی توانیاں بھی اپنی طرح جوان رکھیں۔ ہم پہلے ہی اپنے نوجوان طبقے کو کیا دے رہے ہیں۔ ان کی تفریح کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے اس گلی ڈنڈا کے جو وہ گلیوں میں مفت کھیلا کرتے ہیں۔
ہم اپنی اس نسل سے لاپروائی برت رہے ہیں جس پر قومی زندگی کا دارومدار ہے اور جس نے قوم کو آگے لے کر چلنا ہے ہمارے ہاں یا تو وہ نوجوان ہیں جو گولیاں چلاتے ہیں اور غریب گھروں کے چراغ گل کرتے ہیں یا پھر وہ ہیں جو اپنی اور گھر کی روزی روٹی کے لیے چوری چکاری کرتے ہیں اور معاشرے کے لیے ایک مسئلہ بنے رہتے ہیں۔ ایسے بے کار جوانوں کا وجود ہی ایک قومی مسئلہ ہے۔ نوجوانوں کو کھیلوں میں مصروف کریں اور دوسرے زندگی بخش کاموں میں بھی۔ ان کو بے سہارا نہ چھوڑیں اور ہاکی جیسے ایک چلتے چلاتے کھیل کو چند ٹکوں کے لیے تباہ نہ کریں۔