پاکستان بچ کر رہے

مغربی سامراج جس کی خارجہ پالیسی اب مسلمان ملکوں کے اندر امن کی جگہ جنگ کو عام کرنا ہے


Abdul Qadir Hassan April 09, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: مغربی سامراج جس کی خارجہ پالیسی اب مسلمان ملکوں کے اندر امن کی جگہ جنگ کو عام کرنا ہے اور یہ جنگ بھی خالص اندرونی یعنی فرقہ وارانہ جنگ ہے۔ اس کو شروع کرنے اور اسے جاری رکھنے کے لیے اسلحہ اور جنگجو طبقوں کو مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے جو مغربی دنیا میں اس نیک کام کے لیے وافر ہے۔

مسلمانوں کو آپس میں لڑانا سب سے مفید اور نیکی کا کام ہے اور سب سے سستا بھی بس صرف گھسا پٹا اسلحہ اور چند ڈالر اسے دیں باقی کام وہ خود کر لیتے ہیں۔ مغربی سامراج اس میں کامیاب چلا آ رہا ہے۔ نو برس تک تو عراق اور ایران کو لڑایا جاتا رہا۔ اتنی طویل جنگ نے دونوں مسلمان ملکوں کو ادھ موا کر دیا۔

پھر عراق، شام اور لبنان جیسے تاریخی اور جمے جمائے ممالک کو تباہ کر دیا گیا اب ایک عام سے مگر اہم ملک یمن میں مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ قاتل بھی مسلمان اور مقتول بھی مسلمان البتہ تماشائی مغربی دنیا۔ یمن سعودی عرب کی سرحد پر ایک کلیدی ملک ہے جو فرقہ وارانہ جنگ میں تباہ ہو رہا ہے۔ یہ ملک قریباً 28 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کے شمال میں سعودی عرب واقعہ ہے۔ ڈھائی کروڑ آبادی کا یہ ملک ایک غریب ملک ہے لیکن جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم ملک۔ سعودی عرب سے اس کی ملحقہ سرحد کوئی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر ہے چنانچہ سعودی عرب کا جنوب اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ بحراحمر کی مشہور گزر گاہ باب المندب خود یمنی ساحل ہے۔ آبادی زیادہ تر قبائلی ہے اور ہر شخص مسلح ہے۔

آبادی کا ستر فی صد امام شافعی کی فقہ سے تعلق رکھتا ہے جو اہل سنت ہیں۔ باقی کی آبادی زیدی شیعہ ہے اگرچہ ایرانی انھیں پوری طرح شیعہ تسلیم نہیں کرتے مگر وہ اپنے آپ کو شیعہ ہی سمجھتے ہیں۔ آمریت کے خلاف عربوں کی حالیہ تحریک سے یہ ملک بھی متاثر ہوا اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی مگر انصار اللہ کی تحریک عرف حوثی جنگجو نے حالات بدل دیے۔ حوثی قبائل زیدی شیعہ ہیں اور یمن کے شمال میں آباد ہیں۔ حوثی تحریک کے بانی حسین بدر الدین الحوثی تھے۔

اپنے حقوق کے لیے یہ حوثی چھ سات جنگیں یمن حکومت سے اور ایک جنگ سعودی عرب سے بھی لڑ چکے ہیں۔ حوثی قبائل کو ایران کی مدد حاصل ہے۔ دارالحکومت صنعا پر قبضہ کے بعد ایک ایرانی رکن اسمبلی علی رضا زاکانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔

بغداد' دمشق بیروت اور اب صنعاء۔ عرب ممالک بھی اب اپنی متحدہ فوج کی باتیں کرنے لگے ہیں لیکن مسلمانوں کے دونوں فرقے اب حالت جنگ میں ہیں اسلام اور مسلمان دشمن مغربی دنیا کامیاب ہے اور مسلمانوں کو آپس میں قتال کرتے دیکھ رہی ہے اور اپنی کامیاب پالیسی پر مطمئن ہے۔

یمن پاکستان سے دور ایک عرب ملک ہے جس کا پاکستان کے ساتھ سوائے مسلمان ہونے کے کوئی سیاسی تعلق نہیں ہے۔ پاکستانی اس مسلمان ملک کی صورت حال پر رنجیدہ ہیں لیکن کسی بھی اعتبار سے پاکستان اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ یہ ملک سعودی عرب کے لیے اہم ہے اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے جو رشتے ہیں ان میں سرفہرست تو حرمین الشریفین کا رشتہ ہے اور سعودی بادشاہ بھی اب خود کو حرمین الشریفین کا خادم کہلانے لگے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ایک سعودی بادشاہ نے یہ لقب اختیار کیا تھا جو بعد میں سرکاری لقب بن گیا۔ بہر کیف حرمین کا خادم پورا عالم اسلام ہے جس میں ہم پاکستانی بھی شامل ہیں اور حرمین شریفین کے تقدس پر ہر پاکستانی اپنی جان دیتا ہے لیکن اس وقت سعودی عرب کی حکومت کو کوئی خطرہ ہو یا نہ ہو حرمین شریفین محفوظ ہیں اور ہم پاکستانی مطمئن ہیں لیکن سعودی عرب کے ساتھ ہمارے آج کے حکمرانوں کے خصوصی تعلقات ہیں اور اس پورے خاندان نے اپنی طویل جلا وطنی کا عرصہ سعودی پناہ میں بسر کیا ہے اور سعودی حکمران خاندان کی ممنونیت لازم ہے یہ ایک سماجی اخلاقی اور اسلامی فرض اور روایت کا احترام ہے اگر میاں صاحبان کا خاندان سعودی عرب کا ممنون ہے تو یہ ایک بہت اچھی اور شریفانہ بات ہے لیکن سعودی مہمان نوازی کی قیمت پاکستان کس کھاتے میں ادا کرے۔ میاں صاحبان ماشاء اللہ کسی شاہی خاندان سے کم رئیس نہیں ہیں۔

یونہی سا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ امریکا کے صدر کینیڈی جب صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے تو ان کے والد نے ان سے کہا کہ بیٹے شکست کی فکر مت کرنا میں تمہارے لیے ایک ملک خرید لوں گا۔ ہمارے میاں صاحبان بھی کوئی ملک خرید سکتے ہیں لیکن سرمائے کی نہیں سیاسی مدد کی ضرورت تھی جو سعودی عرب کے حکمرانوں نے پوری کر دی اور اس پر میاں صاحبان ان کے جتنے بھی ممنون ہوں کم ہے مگر کوئی بھی سیاسی خاندان ہو یا فرد وہ بہر حال 'پاکستان' نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی شکریہ بھی پاکستان ادا کرے۔

پاکستان کے سیاستدانوں کو شبہ تھا کہ چونکہ سعودی عرب یمن کی جنگ میں ایک فریق بنا ہوا ہے اور اس ملک کے باغیوں پر بمباری بھی کر رہا ہے اس لیے سعودی حکمران پاکستان سے امداد طلب کریں گے جو ان کا برادرانہ حق ہے مگر شبہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ممنونیت کے جوش میں کہیں حد سے نہ گزر جائیں اور اس دُور کے ملک میں پاکستان کو بھی ملوث نہ کر دیں اس لیے تمام سیاستدان یہ مطالبہ کر رہے تھے جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کھل کر سامنے آیا کہ ہم اپنی فوج نہ بھجوائیں یہ کوئی کرائے کے فوجی نہیں ہیں بلکہ سیاسی طور پر ممکن ہو تو ثالث بن کر یمن میں امن کی کوشش کریں۔

پاکستان اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقت ور ایک مسلمان ملک ہے اور کوئی دوسرا مسلمان ملک اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اس لیے پاکستان کو وقار کے ساتھ اپنی منفرد حیثیت قائم رکھتے ہوئے یمن کے بارے میں کوئی پالیسی مرتب کرنی چاہیے اور اپنی فوج کا مقام و مرتبہ بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ ہماری فوج ایک بڑی بہادر اور جان باز فوج ہے وہ یونہی کہیں نہیں بھجوائی جا سکتی۔ اگر سعودی عرب حرمین الشریفین کی حفاظت نہیں کر سکتے تو یہ سعادت اور نعمت ہم لینے پر تیار ہیں۔ اللہ کے گھر اور روضہ رسولؐ کی حفاظت سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔

آنحضرتﷺ کی قبر مبارک کو خطرہ ہوا تو حضور پاک نے ایک مسلمان بادشاہ کو خواب میں اس طرف متنبہ کیا۔ بادشاہ کی سمجھ میں وہ حیرت انگیز بات نہ آئی تاآنکہ خواب میں پھر اس بات کو دہرایا گیا۔ طویل واقعہ ہے بالآخر نور الدین زنگی نے نہ صرف ان گستاخوں کو پکڑ لیا اور قبر مبارک کو سکے کی دیواروں سے محفوظ کر دیا گیا۔

میں نے خوش قسمتی سے ان دیواروں کو بوسے دیے ہیں اور ان کے ساتھ سینہ لگایا ہے۔ اب بھی اگر کوئی ایسی بات اور خطرہ ہو تو مسلمان اپنے آقا کی تقدیس پر قربان ہوں گے اس لیے ہمیں حرمین کی فکر نہیں ان کے خادم اگر ضرورت سمجھیں تو ان کی سیاسی مدد کے لیے حاضر ہیں مگر یمن کے تنازعے میں اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور میاں صاحب نے درست اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی رائے پر ہی عمل کریں گے۔ مسلمان ملکوں پر کفر کی یلغار جاری ہے اور ہمیں خبردار رہنا چاہیے۔

مقبول خبریں