تبدیلی واقعی آ رہی ہے؟

فرح ناز  منگل 14 اپريل 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

سیاست بھی کیا خوب شے ہے، بڑے بڑے کھلاڑی بھی لمحوں میں بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں، کبھی بے سروپا گفتگو بھی ہیرو بنا دیتی ہے تو کبھی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے، بالکل ایسا ایک منظر ہم سب نے 6اپریل کو قومی اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں دیکھا جب PTI نے سات ماہ کی غیر حاضری کے بعد بلکہ مستعفی ہونے کے بعد (یہ الگ بات ہے کہ آپ کے استعفے منظور نہ ہوسکے) دوبارہ پہلی دفعہ اجلاس میں شرکت کی، بہت ہی اہم موضوع پر بلایاگیا جوائنٹ سیشن ، یمن کی صورت حال اور سعودی عرب کی مدد کے لیے تمام پارٹیز اکٹھا ہوئیں ، عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ اس سیشن کا حصہ بنے۔

الیکٹرونک میڈیا نے سب کو ہیرو بنادیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب کے سب زیادہ سے زیادہ ٹی وی اسکرین کی زینت بنے رہنا چاہتے ہیں، عمران خان بھی ٹی وی اسکرین پر زیادہ سے زیادہ نظر آنا چاہتے ہیں۔ ان کا 126 دن کا دھرنا ہو، شادی ہو یا پریس کانفرنس عموماً ٹی وی اسکرین کی زینت بنے رہنے کے باوجود اگر ہم رزلٹ کی طرف دیکھیں تو معاملات کچھ اور ہی نظر آتے ہیں۔

126 دنوں کے دھرنوں میں کتنی جانیں ضایع ہوئی، کئی گھرانوں کے چشم و چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے، پوری قوم شش و پنج میں مبتلا رہی، بڑے بڑے دعوے، بڑی بڑی باتیں اور رزلٹ کچھ پتہ نہیں۔

بے شک عزت اور ذلت اﷲ کے ہی اختیار میں ہے جس کو چاہے نواز دے، جس سے چاہے واپس لے لے، وہی علم ودانش دینے والا اور وہی تمام تر خوبیوں سے نوازنے والا ہے۔

نواز شریف حکومت تمام تر چیلنجز کے ساتھ ساتھ ابھی تک رواں دواں ہے اور 6 اپریل کے سیشن میں خلاف توقع خواجہ آصف کی باتوں نے ہنگامہ برپا کردیا، عمران خان اور ان کی ٹیم حیران رہ گئی۔

کچھ کا کہنا ہے کہ حکومتی ارکان نے عمران اور ان کی ٹیم کو ٹریپ کیا اور ایک منصوبہ کے تحت وزیراعظم کی موجودگی میں بے انتہا کڑوی کسیلی باتیں بہ زبان خواجہ آصف کھلوائی گئیں۔

مگر بات سوچنے کی یہ ہے کہ جو پارٹی اور اس کا سربراہ بار بار (شکوہ تو یہی کرتے ہیں کہ ہم کو ٹریپ کیا گیا )اپنے ہی لوگوں کی سیاست کو نہ سمجھ پائیں اور ٹریپ ہوجائیں وہ برسر اقتدار آکر انٹرنیشنل سیاست کو کیسے سمجھ پائیں گے اور اپنے ساتھ ساتھ سب کو ہی لے ڈوبیں گے۔

آصف زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ بلاول بھٹو کی ابھی تربیت کررہے ہیں ان کی جوانی اور سیاست میں ناپختگی ہے ابھی بلاول بھٹو ہے تو پارٹی کے چیئرمین مگر زیر اثر تربیت ہے، کرلیں بات اب کیا کیجیے! مختلف لوگوں کی رائے میں تحریک انصاف ایونٹ بڑے زبردست پلان کرتی ہے صبح سے شام تک ہلا گلا پارٹی پھر وہی نا سمجھی۔

9اپریل کی کراچی میں تحریک انصاف کی بھرپور ریلی نکالنے کی کوشش، نکالی بھی گئی مگر عمران خان کراچی کے لوگوں کو خوف سے نکالنے کے چکر میں خود خوفزدہ نظر آئے، وجہ سکیورٹی بتائی گئی مگر جب زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے تو ڈر کیسا؟ بیانات میں تضاد اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی وجہ سے عوام میں شعور بڑھا مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ بد تمیزیوں کا سلسلہ بھی بڑھا کہ جو آپ کرسکتے ہیں وہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔

سیاست میں سنجیدگی، ایک دوسرے کو سمجھنا، باتوں کو نظر انداز کرنا، بھائی چارگی بڑھانا، ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام عوام کی فلاح و بہبود، شعور اور آگاہی، دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں اور بہت کچھ۔ مگر کیوں کہ ہم کسی نہ کسی فوبیا میں مبتلا رہتے ہیں تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد خود بنالیتے ہیں، خود ہی عالم، خود ہی جج اور خود ہی سزائیں بھی منتخب کرلیتے ہیں۔

جب کسی کے پاس بھرپور طاقت ہوتی ہے تو سب کی زبانیں بند رہتی ہیں اور جب خود کوئی اپنی موت مر رہا ہو تو سب کے سب اسے مارنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

الیکٹرنک میڈیا نے ہیرو بننے کے راستے آسان کردیے ہیں اب مزے کی بات یہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو بلیک میل میڈیا کے ذریعے کررہے ہوتے ہیں۔ بات بات پر پریس کانفرنس، یہ بھی ایک مزاج بن گیا ہے، ٹی وی اسکرین پر زیادہ سے زیادہ رہنے کا مطلب ہے زیادہ سے زیادہIn رہنا۔

الیکشن کے دنوں میں کروڑوں، اربوں روپے کی ٹی وی ایڈورٹائزنگ کی گئی، جلسے جلوسوں پر اربوں خرچ، چارٹرڈ جہاز پر اربوں خرچ، اتنے اربوں کھربوں خرچ کے تو شاید ایک تھر کے لوگوں کے لیے ایک ماڈرن شہر بسایا جاسکتا تھا، حالانکہ تھر کے لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے سب کے سب مگرمچھ کے آنسو بہانے کو تیار ہیں، اتنے شور شرابے ہونے پر بھی تھر کے علاقے میں زندگی و موت کا کھیل جاری ہے۔

عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہی طرح کی سوچ، ایک ہی طرح کا رویہ، بس چہرے الگ الگ اور طریقہ کار الگ الگ، ادائیں کسی کی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایک دوسرے کو گالیاں بکتے ہیں، چور، بدمعاش کہتے ہیں، کالی کرتوتوں کے راز فاش کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مطلب کے لیے گلے مل جاتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں کہ ’’عوام کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

عوام تو بے چاری ویسی کی ویسی ہی اپنے دکھوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہے، مہنگائی، ملاوٹ، صحت و صفائی ناپید، بے روزگاری، دھوکہ و فریب جرائم سب کچھ ویسے کا ویسا۔

ہاں بدل رہے ہوتے ہیں ہمارے سیاست دانوں کے اسٹائل، ان کی زندگیاں اور ان کے لائف اسٹائل، یہ لوگ جو خود چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھے ہوتے ہیں یہ کیا عوام کے لیے کچھ کرسکیں گے؟

گندی سیاست نے ہمارے چھوٹے بڑے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے بہت ٹیلنٹڈ لوگ بھی اس سیاست کی نذر ہوتے جارہے ہیں، ایک صاف ستھرا انسان اپنا راستہ ہی بدل لیتا ہے، پتہ نہیں کیوں ایدھی کو ہیرو بننے کا شوق نہیں ہوتا۔

انڈین ڈراموں نے انڈین فلمز نے جہاں ہماری خواتین پر اثر ڈالا وہاں ہمارے مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں، اب وہ وقت دور نہیں جب ہمارے سیاست دان ماڈلز کے روپ میں اہمیت پر واک کرتے نظر آئیں گے۔ ایان علی کی پکڑ سے یہ بات تو واضح ہو ہی گئی ہے کہ فیشن انڈسٹری اور سیاست دانوں کے تعلقات کتنے مضبوط ہورہے ہیں۔

کس سمت میں جارہے ہیں ہم لوگ؟ کوئی پتہ نہیں بس ماڈرن ہونے کا خبط ایسا سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اﷲ کی پناہ! منہ میں زبان سب کے لیے، کالے چشمے با آسانی دستیاب ! اب تو جگہ جگہ مرد حضرات کے لیے سیلون بھی بنائے جارہے ہیں کہ خوبصورت نظر آنا آپ کا پہلا حق ہے۔ لو جی بن گیا پاکستان پیرس، اﷲ اﷲ خیر صلا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔