نہ زعم نہ تکبر

فرح ناز  ہفتہ 18 اپريل 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

فرعون بہت ظلم اور اپنی تمام تر فرعونیت کے ساتھ تمام دنیا کے لیے عبرت تا قیامت۔ یہانتک اس کا نام ہی ظلم کرنے والے ظالم کے طور ہمیشہ استعمال ہوتا رہے گا جن جن گردنوں میں عہدے آنے کے بعد سریا لگ جاتا ہے ان کو بھی فرعونیت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

اﷲ سے پناہ مانگی جاتی ہے کہ اﷲ ہمیں اس فرعون کی فرعونیت سے نجات دلائے مگر کیا کیجیے کہ اب تو لگتا ہے کہ برساتی مینڈکوں کی طرح فرعونوں کی بھی بھرمار ہو گئی ہے، ہمارے ملک کے وہ کون سے ادارے ہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرعون نہ ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ہر شکل میں موجود ہیں وہ ٹوپی اور داڑھی کے ساتھ بھی ہیں وہ کوٹ اور ٹائی کے ساتھ بھی موجود ہیں۔

فرعون کو جب نجومیوں نے بتایا کہ اسی کے گھر میں پرورش پانے والا ہی اس کو عبرت ناک انجام تک پہنچائے گا تو فرعون نے اس وقت تمام نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا مگر اﷲ تو ہر چیز پر قادر ہے تمام طاقتوں کا سرچشمہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہی فرعون کی فرعونیت کو انجام تک پہنچایا، اﷲ کے حکم سے!

تو جہاں فرعون ہو گا وہاں موسیٰ بھی ہو گا۔ جہاں ظلم ہو گا وہاں ظلم کو مٹانے والا بھی ہو گا۔ مگر آنکھوں پر بندھی پٹیوں کو ہم ہٹائیں گے، ذہن کے دریچے کھولیں، کھلی آنکھوں سے دیکھیں اپنے ارد گرد کے تمام لوگ، اپنے ارد گرد کے تمام معاملات، اپنی ’’میں‘‘ سے نکلیں اپنے نبیوں کی زندگیوں کو دیکھیں ان کا رہنا سہنا، ان کا پہننا اوڑھنا، ان کی محبتوں کے طریقے، ان کی جان نثاری ان کی انسانیت کی خدمت اور بہت کچھ۔

یہی نہیں بلکہ اس دنیا میں موجود تمام مذاہب کا اگر مطالعہ کریں تو کچھ چیزیں تمام مذاہب میں موجود ہیں، انسانیت کی بھلائی، کوئی ان دیکھا وجود، سادگی، جھوٹ نہ بولنا، سچ کی طاقت، محبت اور اسی طرح کے احساسات مگر تمام مذاہب کے پیروکار من و عن کبھی بھی اپنے مذاہب پر عمل در آمد نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگیوں کو زیادہ سہولتیں دینے کے لیے ہمیشہ اپنی من مانیاں کرتے رہے ہیں، فرعون اور موسیٰ کا کردار دونوں موجود، پسند سب کی اپنی اپنی، کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ڈر اور خوف ہمیں کیا سے کیا بنا دیتا ہے ہم اپنی خواہشات کو مار دیتے ہیں۔

عجیب عجیب کردار بن جاتے ہیں، غلامی اور جی حضوری میں ساری زندگی گزارنے کو تیار ہو جاتے ہیں، مگر اپنے اندر ہمت نہیں پیدا کر سکتے کہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہہ سکیں تمام خوبیاں کو مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ پر کاٹ لینے میں اور مقدر سمجھ کر اپنے آپ کو دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، کتنی قابل رحم ہوتی ہیں اس طرح کی زندگیاں۔ مگر سوچوں کے دروازے بند ہیں کھلی آنکھیں مگر ذہن بند ایک لا حاصل دوڑ جس میں سب دوڑے ہی جا رہے ہیں سب نے اپنی اپنی منزل فکس کی ہوئی ہے۔

اکتاہٹ بھی ہوتی ہے یہ سب دیکھ کر اوسط درجے کی سوچ، منافق اور ڈھیٹ قسم کے لوگ ہمارے ارد گرد وجہ شرح خواندگی کم اور جہالت ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، فیوڈل ازم بھی اپنی کل کے ساتھ موجود ہے اور پھر نالائقوں کا ایک ٹولہ جو لوٹ مار میں سرگرم ہمارے سروں پر مسلط بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ جو سول سروس کے امتحانات پاس کر کے آتے ہیں کچھ کرنے کا جذبہ لے کر آتے ہیں ان کو ’’ڈرٹی پولیٹیکس‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے جو کسی لائق نہیں ہوتے ہیں وہ ہمارے لیڈر نہ جانے کیسے بن جاتے ہیں۔ کہیں عقیدت ان کو لیڈر بنا دیتی ہے کہیں جوش و خروش سے بھرا ہوا انسان ہمارا لیڈر بن جاتا ہے جو بات بات پر غم و غصہ کا اظہار کرتے رہتا ہے، یہ خالی خولی، دماغوں سے عاری لوگ بڑے بڑے فیصلے کر جاتے ہیں کہ اپنے دوست و احباب کو خوش بھی تو کرنا ہوتا ہے اسی طرح کے معاملات جو کہ بہت حساسیت رکھتے ہیں آج کل بہت گرم ہے۔

ہمیں سعودی عرب، ایران، دبئی ہم کہتے ہیں کہ حرم شریف پر، مدینہ شریف کی حفاظت پر ہمارا بچہ بچہ قربان کچھ کا فرمان ہے کہ حرم شریف کی حفاظت کا وعدہ تو اﷲ پاک کا ہے وہ خود ہی اپنے معاملات نمٹا لے گا ہمیں چاہیے کہ جنگ سے بچنے اور مذاکرات کی طرف آنے کی بات کریں پاکستانی فوج بہترین فوج، پاکستانی لڑاکا طیارے اور بحری جہاز عملاً سعودی عرب ان سب کا خواستگار ہے۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کہتے ہیں کہ ’’حرمین شریفین‘‘ کا فیصلہ ’’شریفین‘‘ کریں مگر کیا یہ ان ’’شریفین‘‘ کی بس کی بات ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قتل و غارت گری میں کبھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے کیا پاکستان ثالث بن پائے گا؟

بہت زیادہ ہلچل 23 اپریل کا ضمنی کراچی الیکشن، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی آمنے سامنے جلسے جلوس، ریلیاں اور ہنگامہ خیزیاں، کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟

ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپہ اور گرفتاریاں، ہماری سیاست کا پردہ چاک! مصلحت پسندی اور منافقت اور قتل وغارت گری کیا یہی سب عوام کا نصیب ہے۔

نبیل گبول نے ٹی وی پر آ کر اپنی الیکشن کی فتح کا سارا ماجرا کہہ سنایا، پی ٹی آئی بضد ہے کہ فتح ان کا مقدر ہو گی ایم کیو ایم اسے اپنے گھر کی سیٹ قرار دے رہی ہے، جماعت اسلامی بھی اپنا حق جتا رہی ہے اب دیکھیے کہ کون جیتے اور کون ہارے۔

پے در پے کوئی نہ کوئی قصہ ایم کیو ایم کی طرف سے ٹی وی کی زینت بن رہا ہے ، مشکل وقت ہے کہ عوام کو کس طرح ایم کیو ایم مطمئن کرے گی۔ سالہا سال سے کراچی کے عوام پر حکومت کرنے والے کس طرح اپنی گرفت مضبوط رکھ پاتے ہیں۔

مگر ایک سوال جو چاروں طرف سے اٹھ رہا ہے کہ کراچی سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے کسی ایک گروہ کو ہدف نہیں ہونا چاہیے امن کمیٹی ہو یا حکومت سندھ معاملات سب کے ساتھ برابری پر ہو تو اچھا ہے، صوبائی حکومت نا اہل، کرپٹ اور ناکارہ ہے۔ بار بار یہی الفاظ سننے کو مل رہے ہیں مگر بدستور ’’چمن کا کاروبار‘‘ چل رہا ہے۔ درست اقدامات برابری کی بنیاد پر اٹھائے جائے تو معاشرے سے مایوسی بھی ختم ہو گی اور خوف پھیلانے والوں کی دل شکنی بھی ہو گی۔

پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے تمام تر لوگوں پر یہ ذمے داری ہے کہ اب اقتصادی طور پر پاکستان کو بہت مضبوط کیا جائے، کنفیوژن پھیلانے والوں کو ہلچل برپا کرنے والے گروہوں سے نمٹنے کے لیے بہتر لائحہ عمل اپنایا جائے۔

کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی دنیا چالاک لوگوں کی چراگاہ نہیں، پائیدار کامیابی عیار کو نہیں بلکہ صاحب حکمت کو ہی ملا کرتی ہے ایمانداری اور سچائی اور بے لوث خدمت ہی خوبیاں ہے جو ایک لیڈر کو لیڈر بنانے میں کام آتی ہے اور ایک لیڈر ہی یہ حق رکھتا ہے وہ عوام کو گمراہی سے بچائے اور ثابت قدمی سے منزل کی طرف رواں دواں رہے، سونے، ہیرے، جواہرات اور محلات یہ تو اب ہاتھوں کا میل بن کر رہ گیا ہے۔

ترقی و کامیابی تو بہت عالی مقاصد ہیں جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے راہ متعین کرتے ہیں۔ قانون کا احترام سب پر لازمی ہو، من مانی کی خواہش کو بے قابو ہونے سے روکا جائے حکومت کا وجود نظر آئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طاقت بدعنوانی پیدا کرتی ہے انتقام جذبوں میں شدت پیدا کرتا ہے اور مخالفین کو طاقت کے زور پر دبانا مکمل نا انصافی ہے، زعم اور تکبر نے بڑے بڑوں کو دھول چٹا دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔