مارشل لاء سے پہلے پہلے

فوج جیسے خاموش محتاط اور قوت برداشت والے ادارے کے ضبط کے بند بھی بالآخر ٹوٹ گئے ہیں


Abdul Qadir Hassan May 19, 2015
[email protected]

TANGDHE SAYEDAN: فوج جیسے خاموش محتاط اور قوت برداشت والے ادارے کے ضبط کے بند بھی بالآخر ٹوٹ گئے ہیں اور فوج کے کور کمانڈر بھی پکار اٹھے ہیں کہ کراچی جیسے مرکزی شہر میں بھی سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے درمیان فرق ختم ہو گیا ہے۔ فوج کے متعلقہ جرنیل کے الفاظ کے معنوں میں حکومت کی انتظامی ناکامی اور ناکارہ سیاست نے حالات خراب کر دیے ہیں۔ کراچی میں فوج کا آپریشن غیر سیاسی ہے جس میں کئی بت توڑ دیے گئے ہیں اور غلطیاں درست کرنے کے لیے اب صحیح وقت آ گیا ہے لیکن خرابی اس قدر بڑی اور وسیع ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ فوج کے اعلیٰ ادارے کے نمایندے لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران یہ درد دل بیان کیا ہے جس کے الفاظ اور مفہوم کو نقل کیا ہے۔

ملک میں اس وقت تک جتنے مارشل لاء بھی لگے ہیں ان کا سبب بننے والے حالات موجودہ حالات کے برابر خطرناک تھے۔ یہاں ان مارشل لاؤں کا ذکر نہیں جو شوقیہ لگائے گئے اور ایک مارشل لائی فوجی کے مطابق مارشل لاء وہ مسائل حل نہ کر سکے بلکہ نئے مسائل پیدا کر گئے لیکن اس وقت تو ایک عام آدمی بھی دیکھ رہا ہے کہ حالات بے حد دگرگوں، پیچیدہ اور خطرناک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات پہلے کرتے ہیں کہ ہمارا دشمن پہلی بار کھل کر دہشت گردی کر رہا ہے اور اسے پاکستان سے کوئی ڈر محسوس نہیں ہو رہا کیونکہ پاکستان کی جس حکومت نے بسم اللہ ہی اس اعلان سے کی ہو کہ قوم نے اسے اس قدر بھاری تعداد میں ووٹ اس لیے دیے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ سکے تو پھر بھارت جیسا دشمن ایسی حکومت سے کیوں ڈرے اور کیوں اس کی دلجوئی کرے۔ بھارت میں جو حکومت برسراقتدار ہے وہ ہندو مت کو زندہ اور بلند رکھنے والی حکومت ہے۔

ہندوتوا کے اس دور میں پاکستان کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ خبریں یہانتک موصول ہو رہی ہیں کہ بھارت کی سرزمین دراصل صرف اور صرف ہندوؤں کی زمین تھی مسلمان ہوں یا عیسائی یہ سب باہر سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کے سلسلے میں اورنگ زیب عالمگیر کا نام لیا جاتا ہے لیکن جس حکمران نے پچاس برس تک پرامن حکومت کی ہو اس پر کوئی الزام کیسے لگا سکتا ہے بہر کیف موجودہ حالات میں بھارت غیر ہندوؤں کے لیے ایک ساز گار ملک نہیں ہے اور ایسے بھارت کے ساتھ کسی بڑی دوستی کا سوال کس طرح پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ بھارت نے اپنی جاسوس ایجنسی کے شعبے کو متحرک کر دیا ہے جو 'را' کہلاتا ہے اور پہلی بار ہمارے حکمران 'را' کی سرگرمیوں اور سازشوں کا ذکر کر رہے ہیں ورنہ اس سے قبل تو ہمارے وزیر داخلہ بھارتی مداخلت کو ہمیشہ ایک غیر ملکی ہاتھ کہا کرتے تھے اور را کا نام لینے سے مکمل انکار کرتے تھے۔ اب صورت حال بہت بدل چکی ہے اور ہماری فوج برملا الزام لگا رہی ہے کہ بھارت کھل کر ہمارے اندر تخریب کاری کررہا ہے اور دہشت پھیلا رہا ہے۔ فوج بھارت کی اس خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی بھی شروع کر چکی ہے اور ہماری حکومت کا ردعمل محض الفاظ تک محدود نہیں ہے۔

ہماری بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے بھارت کے خلاف کبھی سخت کارروائی نہیں کی بلکہ اسے ڈھیل دی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے نے پاکستان میں دور دور تک تخریب کاری شروع کر دی ہے اور ہمارا کام مشکل بنا دیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی ہمارے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے اور وہاں سے جو خبریں موصول ہوئی ہیں وہ کسی میدان جنگ کی خبریں ہیں جن میں فی الحال ہمارے رینجرز مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں حالات کو واضح کرنے کے لیے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن بوجوہ اسے فی الوقت رہنے دیں اور یہی بہت ہے کہ فوج اگر کسی جگہ باقاعدہ کوئی کارروائی کر رہی ہے تو یہ بے سبب نہیں ہے۔

کراچی ہمارا مرکز اور چھوٹا پاکستان ہے اور جب تک ہم کراچی کو محفوظ نہیں کر لیتے تب تک ہم پاکستان کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے چنانچہ فوج اب ملک کے اس حصے میں بھی جہاد پر مجبور ہے۔ شمالی علاقوں میں ضرب عضب کے نام سے ہم ایک جنگ میں مصروف ہیں اور جان تک کی قربانیاں دے رہے ہیں ہمارے لیے بہت مشکل ہو گا اگر ہم چار و ناچار ایک اور محاذ بھی کھول لیں۔ اس صورت حال میں جب تک ہماری سول حکومت فوج کے ساتھ مل کر میدان میں نہیں اترتی تب تک کراچی کے اس شہری محاذ پر کامیابی بہت مشکل ہے اور اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے جس سے فوج ظاہر ہے کہ بچنا چاہتی ہے کیونکہ جنگ سے سب سے زیادہ خوفزدہ جرنیل ہوا کرتے ہیں کیونکہ انھیں ہی جنگ لڑنی ہوتی ہے۔

حالات کی جو تصویر ہمارے سامنے آ رہی ہے فوج ملک میں مارشل لاء لگانا نہیں چاہتی حالانکہ اگر قوم سے رائے طلب کی جائے تو وہ مارشل لاء کے حق میں ہو گی وجہ یہ ہے کہ عوام حالات سے گھبرائے ہوئے ہیں اور وہ اس پریشانی میں گھبرا کر مارشل لاء کا ذکرکرتے ہیں حالانکہ یہ قوم کئی مارشل لاء دیکھ چکی ہے اور اسے اس طرز حکومت کا کوئی شوق نہیں ہے مگر حالات اس قدر الجھ گئے ہیں اور ہمارے سیاستدانوں نے عام بگاڑ اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ اس کے خلاف کسی سخت ترین کارروائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں ٹی وی پر کسی لیڈر کی بیرون ملک جائداد کی فلم دیکھ رہا تھا جو یقیناً جائز نہیں تھی اور یہ بتاتی تھی کہ اس کی قیمت کہاں سے آئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نوعیت کی بدعنوانیاں ہمارے حالات کی خرابی کا سبب بن گئی ہیں۔

اس سلسلے کو روکنے کے لیے فوج معلوم ہوتا ہے کچھ کرنا چاہتی ہے اور ان دنوں فوجی قائدین کی طرف سے جو بیان اور اعلان آ رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ فوج خاموش نہیں رہنا چاہتی۔ اگر خالص ذاتی مفاد کی بات بھی کریں تو اس ملک کے ساتھ میرا آپ کا تو محدود سا تعلق ہے کیونکہ ہم اس ملک سے کچھ لیتے نہیں ہیں مزدوری اور نوکری کی صورت میں کچھ دیا ہی کرتے ہیں لیکن فوج جو کسی بھی قوم کی ایک مجبوری ہے اسے باقی رکھنا پڑتا ہے اور جنگ دنیا کا سب سے مہنگا کام ہے۔ پاکستان نے خوش قسمتی سے ایٹم بم بنا کر اپنے لیے حفاظت کا ایک ذریعہ تلاش کر لیا ہے اورہم اس کے پیچھے چھپ کر اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں لیکن کسی پاگل دشمن سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔

جیسے ہمارا دشمن جو اپنی آبادی اور رقبے وغیرہ کی کثرت اور وسعت سے کسی غلط فہمی میں پڑ سکتا ہے ایسے دشمن سے بچ کر رہنا بھی ہماری مجبوری ہے اور ہماری ایک مجبوری وہ عالمی طاقتیں ہیں جو کسی اسلامی ملک کو پاکستان کی طرح قائم و دائم رہتا دیکھنا نہیں چاہتیں۔ ہمارے ایٹم بم کی اطلاع پا کر امریکا کے ایک نائب وزیر نے فوراً کہا تھا کہ ہم اس ایٹم بم کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ میں پہلے بھی ایک سے زیادہ بار آپ کی یاد دہانی کے لیے لکھ چکا ہوں چنانچہ ہمیں دشمنوں کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا ہے اور بھٹو کی طرح عبرت کا سامان بننے سے بچنا بھی ہے امریکا ہم کو تو قتل نہ کر سکا البتہ بھٹو کو ختم کر گیا۔ ہم ایک مشکل حالت سے گزر رہے ہیں یہ تو ہماری فوج کی ہمت جرات اور شجاعت ہے کہ وہ گھبراتی نہیں ہے لیکن اسے اس وقت سویلین کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ ہم مارشل لاء سے بچ کر کچھ کرنے کے خواہشمند ہیں۔

مقبول خبریں