کراچی والوں کے ساتھ

یہ کسی انسانی کوششوں سے نہیں اللہ کی معافی سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔


Abdul Qadir Hassan June 25, 2015
[email protected]

KARACHI: یوں تو ہم پاکستانیوں پر قدرت کا ہر ستم روا ہے لیکن بعض اوقات پاکستان کے دکھی لوگوں کو دیکھ کر ترس آ جاتا ہے کہ یا اللہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے کیونکہ ان کے گناہوں کا بڑا سبب ان کے حکمران ہیں جن کی حاکمیت ان سے کتنے ہی گناہ کراتی رہتی ہے۔

بری ہی نہیں بدترین حکومت میں سانس لینے والے یہ پاکستانی اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ حکومتی ناروا پالیسیوں سے بچ کر زندگی بسر کر سکیں اس لیے کہ ان کی زندگی ان کے بس میں نہیں اور وہ بعض اوقات وسائل رکھنے کے باوجود زندگی کی آفات کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ فی الحال پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی قدرت کی برہمی اور حکمرانوں کی غفلت کا نمونہ بنا ہوا ہے، اس شہر میں کوئی بارہ سو سے زائد پاکستانی پانی کی قلت اور حبس سے مر گئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ کسی انسانی کوششوں سے نہیں اللہ کی معافی سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔

اس شہر پرایک عذاب نازل ہو چکا ہے اور بری حکومتوں اور بے رحم حکمرانوں کے بارے میں ہمیں بتایا جا چکا ہے کہ یہ ہمارے اعمال کی سزا ہوتے ہیں۔ برے اعمال کی سزائوں کے کئی طریقے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کلام پاک میں بھی کیا گیا ہے کہ کم تولنے ،کاروبار میں فریب کرنے، معاشرتی زندگی میں برے اعمال کرنے اور حد سے زیادہ اخلاقی برائیوں کو برملا اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی آبادیوں کو برباد کر دیا گیا اور وہ اپنے مکانوں کے ملبے تلے دب گئے۔ یہ ان کی سزا تھی جو بار بار کی تنبیہہ کے بعد ان پر عائد کی گئی اور اس سے بچنے کی کوئی صورت موجود نہیں تھی۔ اب ذرا اپنی حالت دیکھ لیجیے۔

ہماری برائیوں میں سرفہرست بدعنوانی اور کرپشن ہے۔ کوئی بھی واقعہ سامنے آتا ہے تو اس کے پیچھے سے کروڑوں اربوں روپوں کی کرپشن نکل آتی ہے۔ یہ سارا مال عوام کا ہوتا ہے جو حیلوں بہانوں سے ان کی جیبوں سے نکال لیا جاتا ہے اور ایان جیسی خوبصورت لڑکیاں اس سرمائے کو بیرون ملک لے جاتی ہیں جہاں لوگ جائیدادیں خریدتے ہیں۔ کرپشن عوام کا مال کھانے کا ایک طریقہ ہے اور اب تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہے ہمارے دو سابق وزرائے اعظم جو صحیح و سلامت ہیں کھلی کرپشن میں ملوث ہیں۔

ان میں سے ایک کی بے شرمی اس انتہا تک جا پہنچی ہے کہ وہ اپنے پاس موجود چوری کے ایک ہار کو پیش کرنے پر بحث بھی کرتا ہے۔ یہ ہار محض ایک ہار نہیں ہے دو قوموں کی محبت اور قربانی کا نمونہ ہے اس پر میں اپنا درد دل جلد ہی بیان کروں گا۔ فی الحال ایک اور دکھ درد کراچی میں ہمارے اعمال کے نتیجے میں بے گناہ عوام جس موت کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ تمامتر ان کے حکمرانوں کی لائی ہوئی ہے۔ انھوں نے عوام کو بجلی جیسی جدید نعمت سے محروم کر دیا اور خطرناک موسم میں بجلی نے کئی پاکستانیوں کو زندگی سے محروم کر دیا۔

دل کو غم و اندوہ میں ڈبو دینے والی صورت حال معلوم کرنے کا حوصلہ بھی نہیں پڑتا۔ میتیں اتنی زیادہ ہیں کہ مردہ خانے کم پڑ گئے ہیں اور لاشوں کو فرش پر ایک دوسرے کے ساتھ لٹا دیا جاتا ہے یا اللہ ہمیں معاف کر کہ ہم اپنے مرحومین کی عزت و احترام کرنے سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ اگر میتوں کے وارث کسی مرحوم کو دفن کے لیے لے جاتے ہیں تو تدفین سے پہلے کی شرائط پوری کرنے کے لیے اس کام کو جاننے والے نہیں ملتے۔ اگر ملتے ہیں تو انتظار کا کہتے ہیں۔

جب وہ فارغ ہوں گے تو باری آنے پر غسل وغیرہ دے دیں گے۔ اس کے بعد کفن ذرا آسان ہے لیکن اصل مشکل قبرستان میں جگہ ملنا ہے۔ قبرستان بھر چکے ہیں اور خبر یہ ملی ہے کہ پرانی قبروں میں میتوں کو دفن کیا جا رہا ہے۔ ہاں ان تمام کاموں سے پہلے جنازہ ہے اور جناز گاہوں کے باہر کفن پوش میتیں کسی جنازے خواں کی منتظر رہتی ہیں یعنی ہر قدم پر انتظار ہے اور باری آنے پر کسی کو قدرت کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔

عملاً ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین اپنی میتوں پر بھی تنگ پڑ گئی ہے اور وفات کے بعد سے تدفین تک کا پورا سلسلہ انسانی اختیار سے باہر نکل گیا ہے۔ ایک شاعر غالب یاد آتا ہے جس نے یہ سب کچھ چشم تصور سے شاید دیکھ لیا تھا اور دعا مانگی تھی کہ غرق دریا کیوں نہیں ہوئے کہ نہ جنازہ اٹھا نہ مزار بنتا۔ کراچی میں آباد عوام کی زندگیاں ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں اور جب کوئی عزیز شدید گرمی اور حبس سے چل اٹھتا ہے تو اہل خانہ کے سامنے اس کی وفات کے بعد کے مرحلے آ جاتے ہیں۔

کہاں ہیں کراچی کے ارب پتی سیٹھ اور کہاں ہیں اقتدار کے نشے میں مست الست حکمران۔ کیا کسی کو اپنے ایسے وقت کا خوف نہیں آیا جب اس کی حکمرانی اور مال و دولت دھری کی دھری رہ جائے گی اور وہ کسی عام شہری کی طرح چند گز زمین میں گم ہو چکا ہو گا۔ کیا وہ اپنے سامنے قبرستان نہیں دیکھتے جنازوں کے جلوس نہیں دیکھتے اور زندگی کو ایک چارپائی پر پڑا ہوا نہیں دیکھتے۔

ایک بے بس بے جان انسان۔ کراچی جیسے خوشحال شہر میں کسی کا بے بسی کی حالت میں مر جانا اور پھر اس سے زیادہ بے بسی کی حالت میں قبر تک جانا کراچی والوں کو عبرت نہیں دلاتا لیکن دنیا نے تسلیم کر رکھا ہے کہ ایسے تمام کام اور فرائض حکومت کے ذمے ہوتے ہیں۔ہم اسی لیے حکمرانوں کو مائی باپ کہا کرتے ہیں مگر ہماری قسمت کہ ہمارے حکمران اپنی حکمرانی میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہیں۔

مقبول خبریں