اعلیٰ تعلیم پر بھی ٹیکس

ہمارے اچھے ڈاکٹر اچھے پروفیسر اور دوسرے شعبوں میں اونچے مرتبے کے لوگ وہ ہیں جو بیرون ملک پڑھنے گئے تھے


Abdul Qadir Hassan July 11, 2015
[email protected]

LOS ANGELES: میں ایک دیہاتی ہوں اور جانتا ہوں کہ دیہات کی مائیں اپنے بچوں کی بیرون شہر تعلیم کے لیے اپنی عزیز ترین متاع یعنی زیور تک بیچ دیتی ہیں اور باپ جب کوئی دوسرا راستہ سامنے نہ ہو تو زمین بیچ دیتا ہے جو دیہی زندگی میں بہت بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن جب مسئلہ بچے کی تعلیم کا ہو تو پھر ہر روایت بھول جاتی ہے صرف زیر تعلیم بچہ یاد رہتا ہے۔ شاعروں نے اس کیفیت پر بڑے پُر درد تبصرے کیے ہیں کہ ماؤں نے کس طرح اپنے زیور تک بیچ دیے۔

مجھے یاد ہے کہ بہاول پور کا رہنے والا ایک مشہور ڈاکٹر لاہور کے بڑے اسپتال میں کام کرتا تھا ایک بار اسے ایک غریب عورت نے کہا کہ ڈاکٹر میرا علاج مفت کر دو۔ اس نے جواب دیا کہ میری ماں نے اپنا زیور مجھے خیرات کرنے کے لیے نہیں بیچا تھا۔ تعلیم میں اتنی کشش ہے کہ دیہات کی ان پڑھ مائیں اور باپ بھی اس کے لیے بہت کچھ قربان کر دیتے ہیں لیکن حیرت ہے پھر حیرت ہے کہ ہماری ٹیکس لگانے کی شوقین حکومت نے بیرون ملک تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ پر ٹیکس لگا دیا ہے۔

یہ کسی طالب علم پر نہیں قوم پر ظلم اور کھلی زیادتی ہے۔ بیرون ملک والے ہمارے لائق طلبہ کو وظیفے دیتے ہیں اور مفت پڑھاتے ہیں لیکن ہم ایسے بے شرم ہیں کہ اپنے لائق طلبہ کو بیرون ملک تعلیم کے لیے نہیں جانے دیتے۔ اگر بیرون ملک تعلیم میسر نہ ہوتی تو آج پاکستان ایک ایٹمی ملک نہ ہوتا۔ ایٹمی تعلیم ایک پاکستانی نے بیرون ملک جا کر حاصل کی تھی اور قوم کے ازلی دشمن کو خاموش کر دیا تھا۔

ہمارے اچھے ڈاکٹر اچھے پروفیسر اور دوسرے شعبوں میں اونچے مرتبے کے لوگ وہ ہیں جو بیرون ملک پڑھنے گئے تھے اور کوئی بڑی ڈگری لے کر واپس آئے اور پاکستانیوں کی خدمت شروع کر دی۔ ٹیکس لگانے والے بے رحم افسران بالا اور سیاستدان کس کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ پاکستانی اداروں میں گھوم پھر کر جائزہ لے کہ ان میں کتنے غیر ملکی تعلیم والے کام کر رہے ہیں۔

جن لوگوں کے بچے بیرون ملک زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے اکثر وہ ہیں جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر بیرون ملک کسی تعلیمی ادارے کی اسکالر شپ لینے میں کامیاب ہو گئے جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی وہ والدین نے پوری کر دی جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ میں بالکل سچ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو اپنا فالتو پیسہ مستحق طلبہ کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ ہمارے دیہی اشرافیہ کلچر میں تعلیم کو کس قدر خطر ناک سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے گاؤں کے لوگ جمع ہو کر میرے ایک بااثر بزرگ کے پاس گئے کہ ہمارا لوئر مڈل اسکول آپ چاہیں تو مڈل اسکول بن سکتا ہے۔ میں چھوٹا سا تھا جب مسئلہ پیش تھا میرے بزرگ نے کہا کہ میں پہلے سے موجود اسکول کو بھی ختم کرنا چاہتا ہوں آپ نئی بات لے کر آ گئے۔ سب لوگ چپ چاپ چلے گئے۔ پتہ نہیں مجھے یہ منظر اور الفاظ کیوں یاد ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب تک ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے ہم ہرگز ترقی نہیں کر سکیں گے اور میاں اور ملک صاحبان کے محتاج بلکہ غلام رہیں گے۔ اس سلسلے میں مجھے ایک خط موصول ہوا ہے جو کسی ماں کا خط لگتا ہے۔ اس نے نام پتہ نہیں لکھا لیکن وہ آپ ضرور پڑھیں۔

محترم!

اسکولوں کالجوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ اسلام اور آپ جیسے ''دائیں بازو'' سے وابستہ کالم نگاروں کے توسط سے ذہن نشین ہوا کہ اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے جہاں شیر خوار بچے اور بھوکے پیاسے جانور تک حکومت کی ذمے داری ٹھہرتے ہیں جہاں سیاست کے معنی شہریوں کی فلاح کا بہترین انتظام ہوتے ہیں انسانیت کے ارفع اصولوں پر مبنی وہ نظام جس نے صحرائی مزاج کے اکھڑ پن کو تسخیر کر لیا تھا۔

وہ نظام جس میں اللہ کا پہلا حکم نہ تو نماز' روزہ' حج تھا نہ زکوٰۃ۔ بلکہ پہلا حکم ''پڑھ'' ٹھہرا۔ وہ نظام جس کے عظیم پیامبرؐ نے اپنے آپ کو معلم کہلوانا پسند فرمایا۔ جنہوں نے کافر جنگی قیدیوں کا ''ہرجانہ'' مسلمانوں کو تعلیم دینا قرار فرمایا۔ جنہوں نے اپنی امت کو ہدایت کی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑے۔

ان ''رجعت پسندانہ'' نظریات کو رشد و ہدایت سمجھنے والے علم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کو علم حاصل کروانے کو اپنی زندگی کی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ مگر لگتا ہے یہ نظریات زیادہ سے زیادہ آپ جیسے کالم نگاروں کے کالموں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں یا سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں برکت کا تڑکا لگانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہماری موجودہ حکومت کی سیاست کا پسندیدہ ترین جزو ٹیکس لگانا ہے۔ ایک خصوصی ٹیکس جو عمال حکومت میں سے کسی کے زریں دماغ میں آیا وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر ٹیکس کہا گیا کہ یہ ٹیکس تو اعلیٰ طبقہ اور امیر ترین شہریوں سے متعلق ہے۔

ٹیکس لگانے سے پہلے جو ہوم ورک ضروری ہوتا ہے وہ تو اب چنداں غیر ضروری قرار پایا ہے۔ محترم! اعلیٰ طبقہ فیکٹریاں لگاتا ہے' مربعے خریدتا ہے' ہاؤسنگ اسکیمیں کھڑی کرتا ہے' بیرون ملک بینک اکاؤنٹ کے حجم میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ آپ کا متوسط طبقہ ہے جو اپنی زندگی کی ساری کمائی بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دلانے کی کوشش میں صرف کرتا ہے ''خواہ اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے''۔

یہ وہ طبقہ ہے جو سیاست اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔ جس کے بچے علم حاصل کر کے ملک کی گاڑی چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں' زرمبادلہ کا ذریعہ بنتے ہیں یا ملک واپس آ کر ''سروس سیکٹر'' کا حصہ بنتے ہیں' ملک کی خدمت کرتے ہیں اگر کوئی کرنے دے تو۔ ہم بیرون ملک ان بچوں کی لیاقت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں (خیر ہم اشرافیہ کی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی جانے تو جاتے ہیں...) علم کی سعی کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس راہ کو مشکل تر بنانے کی ٹھانی گئی ہے۔ برا نہ مانیے گا اپنوں سے تو وہ یہود و نصاریٰ اچھے جو ہمارے بچوں کو وظائف دے کر پڑھاتے ہیں۔ عمر فاروقؓ نے قحط کے دنوں میں چوری کی سزا منسوخ کر دی تھی۔ جب ملک میں علم کا قحط پڑا ہوا اور اصل اور نقل ڈگری کی تمیز ختم ہو چلی ہو' تعلیم پر اخراجات پر تو حلال و حرام کی پرسش بھی ختم کر دینی چاہیے۔ اب تو کوئی فیضؔ بھی نہیں کہ مزدور طبقہ کے ساتھ اس ملک کے متوسط طبقے کا نوحہ لکھیں ع

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

مقبول خبریں