کیا حلال اور کیا حرام!

فرح ناز  ہفتہ 19 ستمبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

آج کل چاروں طرف بڑی دھوم مچی ہوئی ہے وہ صحت اور مذہب دونوں سے تعلق رکھتی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اس بارے میں بھی سوچنا شروع کیا ہے اور اب نوٹس ہی سہی مگر نوٹس لینا شروع کیا ہے کہ ہم اور آپ آج کے دور میں کیا کچھ کھا رہے ہیں اور آیا جو کچھ ہم کھا رہے ہیں وہ حلال بھی ہے یا نہیں اور جو کچھ بڑے بڑے نام کھانے پینے کے حوالے سے لیے گئے، آیا وہ ہمیں صحیح طریقے سے صفائی و ستھرائی کے ساتھ اشیا فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔

خاص طور پر پنجاب کی عائشہ ممتاز آئے دن بڑی بڑی جگہوں پر چھاپہ مار رہی ہیں اور ان کی تصاویر میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر دونوں پر جاری بھی کر رہی ہیں۔ کہیں گدھے کا گوشت کھانوں میں اور گدھے کی کھال کاسمیٹکس میں استعمال ہونے کے اشارات بھی مل رہے ہیں۔ شکر اللہ کا یہ ہے کہ کم ازکم ایک عام آدمی کو یہ تو پتہ چلا کہ وہ کھا کیا رہا ہے، ملاوٹ کا بازار تو سالوں سے گرم ہے اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی عوام اشیا خریدنے پر مجبور ہیں، بہت سے ان ملاوٹ کی وجہ سے اس دنیا سے بھی رخصت ہوگئے مگر کوئی نوٹس نہیں۔

اب اگر اتنی دھوم دھام سے حرام اور حلال گوشت، صفائی و ستھرائی، حفظان صحت کے اصول اور وہ تمام بنیادی معلومات عوام کو فراہم کی جا رہی ہیں جوکہ ان کی صحت کے حوالے سے بہت ضروری ہیں تو ان لوگوں کو بھی سزائیں دی جائیں جوکہ یہ جرم ببانگ دہل کر رہے ہیں کیونکہ خالی معلومات یا تصاویر اس کرپشن کو روکنے کے لیے ناکام ہیں جب تک سرکردہ عناصر کو سزائیں نہ دی جائیں اور اس میں کسی بھی طرح کے اثر و رسوخ کا استعمال نہ ہو اور ان سزاؤں کو Implement بھی کیا جائے جو لوگ اس طرف آرہے ہیں ان کو روکا جاسکے۔

ہمارے یہاں عموماً ایک ’’خاص مقصد‘‘ کو بلکہ کمپین چلائی جاتی ہے اور جب وہ ’’خاص مقصد‘‘ حاصل کرلیا جاتا ہے تو پھر سب کچھ ویسے ہی ہوجاتا ہے جیسے کہ چل رہا ہوتا ہے۔ اگر اس دھوم دھام کے پیچھے بھی کوئی ’’خاص مقصد‘‘ کارفرما ہے تو وہ ان تمام کارروائیوں کا فائدہ اسی مقصد کو ہوگا نہ کہ عوام کو، بلکہ عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ ہی ہوگا کہ پھر ان کو جانتے بوجھتے اس آگ میں جلنا پڑے گا، بڑے نام اور چھوٹے نام دونوں کو ہی پنجاب میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور یہ اچھی روایات ہے۔

عائشہ ممتاز بہادری سے اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی شاباشی سے آگے بڑھتی جا رہی ہیں اور اپنی ٹیم کے ہمراہ مختلف جگہوں پہ چھاپے مارتی نظر آتی ہیں۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے سے وہ بے شک بہت بہادری کا مظاہرہ کر رہی ہیں مگر ان کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گائے بکروں کے گوشت کے علاوہ کیا مرغی کے گوشت میں یا مرغی کی فیڈ میں کوئی ملاوٹ نہیں، کیا صرف مرغی کا گوشت ہی ہم اعتماد سے آنکھ بند کرکے کھا سکتے ہیں اور اس کو Pure حلال کہہ سکتے ہیں؟

دیکھیے نا عوام میں تمام جماعتوں کے نمایندے موجود ہوتے ہیں اور اپنے اپنے سرکل میں اپنے اپنے عوام کو وہ سچ بات بتانے کا حق رکھتے ہیں کہ کہیں ’’ان‘‘ کے عوام کا اعتماد ان پر سے نہ اٹھ جائے اور کوئی دوسرا زیادہ معتبر نہ ہوجائے۔ بہرحال جناب ایک نیک کام جاری ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے بلکہ پاکستان بھر کے تمام صوبوں میں صحت اور تمام کھانے پینے کی اشیا کے مضر اثرات اور ناقص صفائی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور دیانت داری سے اس کام کو انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔

یوں تو ملاوٹ سبزیوں اور فروٹ کی پیداوار میں بھی کم نہیں ، کیمیکل والی کھاد سے زیادہ فصلیں اگائی جاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔

آج کل آڑو، انار اور مختلف فروٹ مارکیٹ میں ہیں اور ان کے سائز دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک کلو میں اگر صرف 3 یا 4 آڑو تُلیں یا پھر 3 سے 2 انار آپ گھر لے آئیں تو یقیناً یہ بھی تو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں کہ سبزیوں کا بھی یہی حال ہے۔

پچھلے دنوں گٹر کے زہریلے پانی سے ملیر کے علاقے میں سبزیاں اگائی جا رہی تھیں اور اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا تھا، ٹی وی پروگرامز کھول کھول کر تمام پروڈکشن دکھا رہے تھے اور یہ سبزیاں بازاروں میں بکنے کے لیے بھی موجود تھیں۔ کیمیکل کھاد کے بے حد نقصانات سے بھی عوام کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے، نہ صرف یہ ہے جن جن جگہوں پہ چھاپہ مارا جا رہا ہے اور ان کو سیل کیا جا رہا ہے وہاں کی پروڈکٹ کی قیمتیں بھی چیک کی جانی چاہئیں کہ آیا جس قیمت میں وہ یہ اشیا فروخت کر رہے ہیں آیا وہ قیمتیں مناسب بھی ہیں یا نہیں؟

بہتر ہے کہ اس نیک کام کو چاروں طرف سے دیکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ آیندہ کے لیے یہ گندا کام نہ ہو، عوام کی صحت یقینا بہت ضروری ہے۔ پنجاب میں یکدم سے ہی یہ کام شروع ہوا ہے اور چاروں طرف سے آوازیں بھی آرہی ہیں، بے تحاشا کرپشن پکڑی جا رہی ہے یہاں تک کہ سور کے گوشت کو بھی پکڑا گیا۔

اللہ کی امان! دولت کی لوٹ کھسوٹ میں کیا کچھ جائز ہو رہا ہے کہ ہر شخص کو اللہ کو جواب دینا کہ کیا ہم سب یہ بھول گئے ہیں حرام چکنائیاں، بیکری کی پروڈکٹ میں استعمال ہونے کے اشارے ملے ہیں اب اگر عوام یہ حرام، حلال ملا جلا کھا کھا کر جانوروں کی طرح Behave کرنے لگے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور، ہم سب معاشرے کی بے حسی کا رونا رونے لگے ہیں کہ جب خون میں حرام بہے گا تو بے حسی تو آئے گی کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حرام کھانے پینے کی اشیا ہوں یا …حکومت کو سنجیدگی سے تمام معاملات کو عوام کی رائے سے حل کرنا چاہیے کہ کہیں یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی بھی کام اگر زور و شور سے ہو رہا ہو تو کسی ایک کو فائدے کے لیے ہو ۔

اب دیکھئے اس کے اثرات کیا ہوں گے کیونکہ میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی بات زیادہ دیر تک نہیں چھپی رہ سکتی۔ اور اچھے کام کرکے نیک نامی اگر کمائی ہے تو اس کا برقرار رہنا بھی ضروری ہے۔

یہاں پر ہمیں خصوصی توجہ دلانا چاہیے کہ حکومت اور اس کے ادارے کی دواؤں میں بھی جو ملاوٹ اور جعلی دواؤں کا کاروبار ہے اسے بھی فوری نوٹس کی ضرورت ہے کہ جو دوائیں انسانی جان کے لیے ضروری ہیں وہ انسانوں کی جان نہ لے سکیں اور ان دواؤں کے کاروبار کو اسی طرح کے فوری ایکشن کی شدید ضرورت ہے جہاں جہاں جعلی دوائیں بن رہی ہیں۔ان جگہوں کو فوری طور پر سیل کیا جائے ان سرکردہ لوگوں کو حوالات کا حصہ بنایا جائے جوکہ انسانوں کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ تمام بڑے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے دیہات اور گاؤں میں بھی اصلی ادویات کی فراہمی کو مستقل بنایا جائے۔ کم ازکم صحت پر تو سب کا حق ہو اگر اللہ نے زندگی عطا کی ہے تو ہماری ریاست اس کی حفاظت کا انتظام کرے۔

صفائی نصف ایمان ہے، گاؤں اور دیہاتوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ان کی گرومنگ کی جائے۔ ان کو صفائی کے بارے میں ان کی تربیت کی جائے، انفرادی اور اجتماعی صفائی کے فوائد بتائے جائیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا شوق اور تعلیم کا حصول تقریباً پاکستان کے ہر شہر کے نوجوانوں میں روز بروز زیادہ ہو رہا ہے۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر ان کی کونسلنگ کے انتظامات ہوجائیں ان کی تربیت کے انتظامات ہوجائیں تو بہترین ہوگا، انشا اللہ امید رکھتے ہیں کہ جس طرح پنجاب بھر میں حرام اور حلال، صفائی، صحت کے اصولوں پر پکوان کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں ان تمام اداروں کی چھان بین بھی ایسے ہی ہو جوکہ انسانی جان اور صحت کے لیے ضروری ہیں اور جن کو سالہا سال سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایک صحت مند پاکستان ہی ایک ترقی یافتہ پاکستان کی پہچان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔