کیا ماضی‘ کیا حال‘ کیا مستقبل؟

فرح ناز  منگل 29 ستمبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

گزرے زمانے میں ایسا ہوتا تھا مگر اب وہ دورکہاں؟ ، بس جیسے تیسے وقت گزار رہے ہیں، بزرگوں کی زبانی سنے یہ وہ  جملے ہیں جوکبھی کبھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا ہم دور جدید میں  زیادہ جاہل اور زیادہ جانور نما انسان بن چکے ہیں حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری بھی کی امید ہوتی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ اپنے اوپر خود فاتحہ پڑھیں یا وصیت کریں کہ تمام آنے والے لوگ ہم زندہ اور مردہ دونوں لوگوں پر فاتحہ پڑھ کر نیکیاں کمائیں۔

بات دکھ کی بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ ایک مکمل دین رکھتے ہوئے ہم زمانہ جاہلیت کے بتوں کو توڑ کرآگے بڑھنے والے پھر سے زمانہ جاہلیت میں زندگی گزاریں۔ گویا ہم بہت کچھ پاکر سب کچھ کھونے کو تیار ہیں اور اس کھونے پر فخر کرنے کو بھی تیار ہیں۔ایک مثال ہے کہ جس معاشرے کو تباہ وبرباد کرنا ہو تو اس معاشرے کی یوتھ کو نوجوان نسل کو آزادی بے حساب کی طرف راغب کیا جائے اور آہستہ آہستہ اس کے دل و دماغ میں اس آزادی بے حساب کو اس طرح fix کیا جائے کہ گویا ’’میری زندگی اور میرا طریقہ زندگی ‘‘ یا جیسے چاہو جیو وغیرہ وغیرہ۔ آہستہ آہستہ یہ آزادی ’’بے حساب‘‘ ماڈرن رنگ پکڑتی ہوئی معاشرے کا حصہ بن جائے اور پھر معاشرے کا بگاڑ اور غیر متوازن ضابطہ حیات، پوری حیات کے لیے وبال جان بن جائے۔

اگر ہم موجودہ ترقی یافتہ دور میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو حقیقتیں اتنی تلخ نظر آتی ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانے سے بات نہیں بن سکتی، بلکہ انفرادی طور پر تمام کے تمام معاشرے کے افراد کو اپنی اپنی جگہ جہاد کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے، جہاد خالی جنگ اور فساد کا نام نہیں جیساکہ آج کل ہے بلکہ جہاد ہر اس برائی کو روکنے کی کوشش کا نام ہے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے یا آپ کو اور آپ کے اردگرد کے لوگوں کو نقصان ہونے کا خدشہ ہو۔

جہاد انسان اپنے آپ سے ہی شروع کرے کہ سب سے بڑی ضرورت ہی اپنے آپ سے جہاد کرنا ہے۔ اپنے آپ کو درست سمت میں رکھنا اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنا، اپنے نفس سے لے کر اپنی عقل تک کی تمام کھڑکیوں اور دروازوں کو درست حالت میں رکھنا ضروری ہے۔ گویا آپ کی عمارت درست حالت میں ہوگی تو مکین بھی اچھے بسیں گے اور اگر مکین اچھے بسے ہوتے ہوں تو ماحول خود بخود اچھا ہوجائے گااور اچھی بات ہوتی ہے کہ اگر اچھی چیزکی شروعات ہم اپنے آپ سے کریں گوکہ ذرا مشکل کام ہے۔

ہمارے اور آپ کے بزرگ اپنے اپنے زندگی کے ادوار کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے ہیں کہ آٹھ آنے میں خوب مزے اڑائے، 5 روپے پالیے تو خوب خوب دوستوں یاروں پر بھی خرچ ہوئے اور آج کل بات لاکھوں سے نکل کرکروڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ پیٹ زنبیل ہوگئے ہیں بھرتے ہی نہیں اور بس نہیں چلتا کہ سب کچھ ہضم کرجائیں اور ڈکار بھی نہ لیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ گزرے زمانے اچھے تھے یا موجودہ یا آنے والے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ زمانہ جاہلیت کبھی اچھا نہ ہوگا، طور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے ہی بہتر ہوجاتے ہیں جیسے زندگی کے تجربات انسان کو بہتر بنادیتے ہیں۔

جیسے جیسے انسان کی عمر اور تجربہ بڑھتا ہے ویسے ویسے عقل و شعور کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان پہلے سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے، زمانے کے حاکم، زمانے کے پڑھے لکھے لوگ، ادب، لٹریچرگوکہ ہر بات اور ہر زاویہ، ہر انداز اس زمانے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں رہا جا رہا ہوتا ہے، اگرچہ موجودہ دور میں بہت بہتر ٹیکنالوجی اور سائنس میں ہم سانس لے رہے ہیں اور موجودہ وقت کی بہترین سہولیات حاصل بھی کر رہے ہیں مگر اندر کے اجالے نہ جانے کیوں اندھیروں میں بدل رہے ہیں نہ شاعری میں غالب ہے اور نہ حساب میں الخوارزمی، نہ سائنس میں ابن خلدون۔بس جناب! اب تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب تو صرف پرانی اچھائیوں کو یاد کرنے کا موسم ہے ان انسانوں کو یاد کرنے کا موسم ہے جو بے لوث ہوتے تھے۔ محبت، خلوص اور سچے جذبے ان کی پہچان ہوتے تھے، بے لوث خدمت، کام کا جنون، لگن اور آنکھوں میں سچائیوں کی چمک۔

مصنوعی انداز زندگی نے ہمارا سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے نہ آنکھوں میں چمک ہے اور نہ لبوں پر مسکراہٹ ہے۔ بوٹوکس نے جلد میں چمک بھردی ہے، بڑھاپے کو ذرا دور کردیا ہے، مگر اندر سے اصل پہچانے جانے کا خوف رچ بس گیا ہے اور اصل کو چھپاتے چھپاتے اصل کو پہچانے جانے کے خوف نے بڑھاپے کو دور کردیا مگر ایسا بڑھاپا بھر دیا ہے کہ نہ جوان رہے اور نہ بوڑھے، کمر کو ٹیڑھا کرتے کبھی ناچتے ہوئے اچھل کود کرتے ہوئے بڑھاپے کی طرف جانے والے آخر کب تک جوان رہ سکیں گے؟

اور کیا یہی ضروری ہے کہ گوروں کی طرح جئیں اور گوروں کے رسم و رواج اپنائیں اور اگر اپنائیں تو خود کہاں جائیں۔ سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ انگریزی سیکھیے تاکہ آپ علم کے میدان میں گوروں کا مقابلہ کرسکیں مگر ہم نے سرسید احمد خان کو سنا اور پڑھا ضرور، انگریزی بھی سیکھنی شروع کردی مگر علم کے میدان کو ’’گول‘‘ کرگئے۔

گول گول شیشے والے دھوپ کے چشمے، چست جینز، موسیقی، اداکاری، ریاکاری اور بھی بہت ساری فنکاریاں ہم نے گوروں سے دیکھ لیں بلکہ کہیں تو ان کو مات کردیا چت کردیا اور ان سے کہیں آگے نکل گئے، اپنا آپ بھی بھول گئے اب نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم تو عزت اور محبت کے ساتھ اپنے بزرگوں کو ان کی باتوں کو یاد کرتے ہیں، پر سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں کون یاد کرے گا، اور اگر یاد کرے گا تو عزت و محبت کہاں سے لائے گا؟اب تو یہ حال ہے کہ سب کا ذکر ایک ہی انداز سے ہوتا ہے کسی کو چور اور کسی کو ڈاکو پکارا جاتا ہے۔ جھوٹ کی لت ایسی پڑگئی ہے کہ اب سچ بھی سنتے ہیں تو جھوٹ ہی لگتا ہے۔

مخلص اور بے لوث، بے وقوف سے لگتے ہیں، ہماری باتوں پر سر ہلانے والے جانوروں کو بھی مات دینے والے بن گئے بس فرق طریقہ کار کا رہ گیا ہے نہ اجڑے مکان ڈراتے ہیں اور نہ ہی آسمانی بجلی کا خوف رہتا ہے۔ بس ’’ایک موقع کی تلاش میں‘‘ زمانہ گردش کر رہا ہے کہ داؤ پیچ تو آہی جائیں گے اور شکلوں کا کیا ہے ایک دو انجکشن جھریاں دور کردیں گے اور بوڑھا آدمی بھی جھوم جھوم کے گانے کو تیار۔ خوش نصیبی مکاری کا لبادہ پہنے تیار کھڑی ہے، ’’تم مجھے یاد آتے ہو‘‘ کا جملہ اور ایک مصنوعی مسکراہٹ آدھی نہیں تو کوارٹر زندگی بہتر بناسکتی ہے۔ مالک، مکان اور زمانہ زوال، کب یہ سب گم گشتہ بن جائیں اور گردن ہلانے والے ساکت ہوجائیں۔

وقت تو گزرنے کے لیے ہی ہے ہر پل ٹک ٹک کرتی سوئیاں انجانے راستوں کی طرف گامزن، گھنٹے، دن اور دن مہینے، مہینے سال بن کر حال سے ماضی بن جائیں اور کوئی سنہرا حروف میرے نام کا نہ ہو۔ صرف رفتار ہو۔ کوئی سلجھن نہ ہو، کوئی ہم راز نہ ہو، کوئی نیکی نہ ہو۔چہرے پر لکیر نہ ہو، آنکھوں میں رت جگے نہ ہوں، ہاتھوں میں ہم نہ ہوں تو پھر کیا ماضی کیا حال اور کیا مستقبل؟

اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ ساتھ اگر جدوجہد اور صحیح سمت یکجا ہوجائیں تو آسمانوں تک کی اڑان مشکل نہیں، قرآن کہتا ہے مسخر کرو وہ کچھ جو آسمانوں اور زمینوں میں چھپا ہے، ’’پر ہوتے تو اڑ جاتی میں‘‘ سو موجودہ زمانے میں پر لگانے بھی آسان اور اڑنا بھی آسان۔مگر مشکل ہے زمانے کو سمجھنا اور اس کو نبھانا کوئی سنہرا کام ، کوئی سنہری نیکی، کوئی سنہرا حرف۔ اس لیے کہ میرا ذکر بھی اچھے زمانے میں، مجھے بھی اچھی یاد کی طرح یاد کیا جائے نیکی کی طرح محسوس کیا جائے۔ کسی اچھے زمانے کی اچھائیوں کی طرح جو انسان کے بعد بھی رہ جاتی ہیں، ماضی، حال اور مستقبل میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔