حق آنے اور باطل مٹنے کے لیے ہے

فرح ناز  اتوار 29 نومبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

اگست 1973 میں پاکستان کا آئین منظور کیا گیا تھا، اس کے تحت ایک پارلیمانی نظام وجود میں آیا، برطانوی بادشاہت کی طرز پر صدر کو سربراہ مملکت کا اعزازی منصب حاصل ہوا۔ دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ تشکیل دی گئی اور بنیادی اختیارات عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو مل گئے، ایک خودمختار عدلیہ قائم ہوئی، اس نظام کے ذریعے چار سال کے لیے ملک میں معاشی اور سیاسی راہیں کھلتی ہیں۔

مگر اب ہمیں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ارکان کی اپنی قسمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ملک میں کچھ ایسی اعلیٰ سے اعلیٰ تر کرپشن کی کہانیاں پیدا ہوتی ہیں جو یقیناً تاریخ کا حصہ بنیں گی، لگتا ایسا ہے کہ قلم کی سیاہی ختم ہوسکتی ہے مگر کرپشن نہیں۔ ہمارے اردگرد ہر شعبے میں، ہر ادارے میں چھوٹے یا بڑے ’’مافیا‘‘ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ہم اس کو مانیں یا نہ مانیں مگر پریکٹیکلی ہر فرد اس کا شکار نظر آتا ہے۔

اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب قانون کی گرفت کمزور یا پھر انصاف عدالتوں کی لونڈی بن جائے۔ وقت بڑے سے بڑے زخموں کو بھرنے کی طاقت رکھتا ہے مگر بے انصافی اور ظلم ایسے ناسور بن جاتے ہیں جہاں صرف اور صرف بے بسی رہ جاتی ہے۔ پچھلے کئی ایسے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرے ہیں جن میں پروپیگنڈا انصاف کا بہت مگر رزلٹ صفر۔

یہ جو ’’صفر‘‘ ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اسی زیرو کے اضافے نے سادہ مکانوں کو محلوں میں تبدیل کردیا ہے۔ کہنے کو ’’زیرو‘‘ ہے، عقل و فہم سے ’’زیرو‘‘ افراد بڑے بڑے عہدوں پر جمادیے گئے، ڈوریاں فٹ کردی گئیں، جب چاہا اپنی مرضی سے ہلا جلا لیا، کیونکہ تعلیم اس درجے پر نہیں آئی ہے کہ عوام کا شعور جاگے بلکہ تعلیم کے بجٹ کو وہ اہمیت ہی نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر عوام پڑھ لکھ گئے تو پھر یہ لوگ بے وقوف کس کو بنائیں گے؟ کس طرح یہ رات کو دن، اور دن کو رات کہیں گے اور کس طرح یہ قانون کو اپنے لیے ڈھال بنالیں گے؟ ابھی تک تو ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ صبح جس کے انتظار میں جاگتی آنکھوں سے اندھیرے برداشت کیے وہ آئی تو کالے بادلوں کے ساتھ۔

جارج برنارڈ شا کے الفاظ ہیں ’’کچھ لوگ ہوتے ہیں جو چیزوں کو ان کی ظاہری شکل میں دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں، کیوں؟ میں ان چیزوں کے خواب دیکھتا ہوں جو کبھی موجود نہیں رہیں اور پوچھتا ہوں، کیوں نہیں؟‘‘

میرے ملک کے لوگ بھی خواب دیکھنا چاہتے ہیں اور مواقع اور تبدیلی کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں، جلد یا دیر ’’کیوں نہیں‘‘ سے آگے ہم جائیں گے اور ہمیں جانا ہوگا، زندگی اور موت و رزق تو صرف اور صرف اللہ عالی شان کے ہاتھ میں ہے، جو نصیب میں لکھا ہے وہ کوئی چھین سکتا نہیں اور نصیب سے زیادہ مل سکتا نہیں۔ مگر جدوجہد اور اللہ عالی شان سے لگن بڑے سے بڑے زنگ آلود تالے کھول سکتی ہے۔

تاریک سے تاریک راستے میں بھی امید کی روشنی ہوتی ہے اور مشکل راستے بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ مشکل ترین حالات میں ثابت قدمی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ اور ملک میں امن کی فضا برقرار رکھنا موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری نظر آتی ہے۔ جمہوریت اور مفاہمت آخر کب تک ساتھ ساتھ چلے گی۔ترقی یافتہ دنیا کی باتیں کی جاتی ہیں تو ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے بھی دیکھنے ہوں گے۔ حقوق اور انصاف کو Base بنانا ہوگا، باتیں بڑی بڑی اور حال یہ ہے کہ ابھی تک بچوں اور خواتین کو زندہ درگور کیا جاتا ہے، لاہور کی ترقی ایسی کہ پیرس اور فرانس بن جاتیں، اور عورتوں پہ ظلم ایسے کہ پچھلی صدیوں کی کہانیاں ہیں۔

تمام جدوجہد اور تمام راستے اگر صحیح منزل کو پانے کے لیے کیے جائیں تو منزل مل ہی جاتی ہے، پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد، ہزاروں، لاکھوں کا خون اس میں شامل ہے، تمام تر لوگ صرف ایک زبان کے پیچھے پیچھے تھے کہ ہمیں ایک آزاد ملک چاہیے، تمام شعبے مختلف سوچ اور فکر کو ساتھ لے کر چلا گیا، شاعری، فلسفہ، اخبارات، تحریریں، سب کا مرکز ایک آزاد ملک کا حصول تھا اور شدید ترین جدوجہد نے غلامی کی زنجیروں سے نجات دی اور ایک خودمختار آزاد ملک معرض وجود میں آگیا۔

تب سے آج تک تجربات کی فیکٹری میں ہی تمام کام انجام ہورہے ہیں، صرف چند سو لوگوں یا چند ہزاروں کے سوا بنیادی مسائل ویسے کے ویسے نظر آتے ہیں، ابھی حال ہی میں پیپلزپارٹی کے بنیادی ارکان میں سے ایک مخدوم امین فہیم صاحب کا انتقال ہوا۔ مخدوم صاحب کافی عرصے سے کینسر جیسے مرض سے لڑ رہے تھے اور ان کی اس شدید بیماری کے باوجود ہماری عدالت نے ان کے وارنٹ بھی جاری کیے۔

مخدوم صاحب تو چلے گئے بس اپنی کہانیاں پیچھے چھوڑ گئے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ ’’خالی ہاتھ‘‘ ہی اس دنیا سے گئے اور اسی قبر میں دفن ہوئے جس میں ہم سب کو جانا ہے، ان کے اعمال ہی ان کی جزا و سزا کے لیے ہیں، باقی محل و دولت سب کچھ یہیں کا یہیں رہ گیا، غور کریں تو ابھی بھی ارد گرد اﷲ عالیشان عقل دینے کے لیے بہت کچھ ہمیں دکھاتا ہے، سکھاتا ہے، مگر گمراہی اگر سر چڑھ کر بول رہی ہیں تو کیا کیجیے!

خاندان غلاماں کی تاریخ دیکھیے کہ وہ کس طرح اپنے آپ پر اترایا کرتے تھے، اور مزے کی بات ہے کہ ان کے ارد گرد بھی جو لوگ تھے وہ بھی ان کا طرز زندگی اپنانے کی کوشش کرتے تھے، کچھ اسی طرح کی کیفیات میں اپنے ہی ملک میں اجنبی بنے ہوئے یہ لوگ آخر کب تک غیر ممالک میں اپنے کاروبار اور جائیدادوں کے انبار لگائیں گے اور کب تک یہ غلامانہ ذہن اور رویوں کے ساتھ عوام کو بھی غلامانہ طرز زندگی کی طرف دھکیلیںگے۔

اﷲ فرماتا ہے جس نے سود کا لین دین کیا اس نے میرے ساتھ اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کی، بات ہی ختم ہوگئی، پھر اس پر فتویٰ لینا یا سچ کا راستہ ڈھونڈنا، ایک اسلامی جمہوری ملک میں کیا معنی رکھتا ہے؟ شفاف معاملات کو بھی الجھاکر انتہاپسندی کی آگ کو ہوا نہ دیجیے تو بہتر ہے۔

مرد تنہا کے فیصلے کبھی ایسے ہوتے ہیں جیسے جہنم کی آگ، عہدوں پر براجمان افراد وزیراعظم سے لے کر چپڑاسی تک سب کے سب اﷲ کو ہی جوابدہ ہوںگے مگر جو لوگ بڑے عہدے رکھتے ہیں عوام نے فیصلہ کرنے کا اختیار ان کو دیا ہو تو پھر یقیناً بے انتہا حساس اور بھاری ذمے داریاں ان کے کاندھوں پر ہیں۔

گاڑی تو چل ہی رہی ہے اور انشا اﷲ چلتی رہے گی مگر اس گاڑی کے انجن کے پہیوں کو کمزور کرنے والے کبھی نہیں بخشے جائیںگے، آج نہیں تو کل اﷲ کی مدد پہنچے گی اور پھر احتساب  کا عمل کوئی روک نہیں سکے گا۔

حکمران قسمیں کھا کھاکر کہہ رہے ہیں کہ ان کے دل میں عوام کا درد ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ایک پل بھی ان کو چین نہیں کہ جب تک سکھ و چین عوام کے لیے نہ ہوگا تو ان کو بھی نہ ہوگا اور ان کے قول و فعل صاف صاف نظر آرہے ہیں۔

قرآن پاک ہمیں سکھاتا ہے کہ حق آنے کے لیے اور باطل مٹنے کے لیے ہے اور درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔ پورا قرآن پاک ہمیں بار بار سمجھتا ہے کہ اگر اس راستے پر جاؤ گے تو یہ ملے گا اور اس راستے پر جاؤ گے تو انجام یہ ہوگا۔ تمام جزا اور سزا کھول کھول کر بیان کردی گئی ہیں اور فاتح ہوںگے وہی لوگ جو ہدایت حاصل کریںگے اور مٹ جائیںگے وہ لوگ جو باطل ہوںگے۔ کیوں کہ یہی اﷲ کا فیصلہ ہے کہ حق آنے کے لیے اور باطل مٹنے کے لیے ہیں۔ باقی سب تو کھیل تماشے ہیں جو ہورہے ہیں اور ہوتے رہیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔