’’ہم کھلونے ہی تو ہیں‘‘

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 4 نومبر 2012
دوسروں کو کچھ لمحے ہی سہی ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کر دینا، نیکی اور کِسے کہتے ہیں بھلا، ہاں ’’جوکر‘‘ جسے ہم اور آپ ’’مسخرہ‘‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دوسروں کو کچھ لمحے ہی سہی ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کر دینا، نیکی اور کِسے کہتے ہیں بھلا، ہاں ’’جوکر‘‘ جسے ہم اور آپ ’’مسخرہ‘‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دکھوں سے بھری ہوئی، افلاس و غربت سے اَٹی ہوئی، مایوسی و ناامیدی کی دلدل میں دھنسی ہوئی بے یارومددگار خلق خدا ۔

جی، جی! اس میں آسودہ و خوش حال، ہنستے، مسکراتے، قہقہے برساتے ہوئے لوگ بھی ہیں، لیکن کتنے ہیں ایسے۔ کم، بہت ہی کم ، نہ جانے کیسے کیسے سینہ خراشی کے کاموں پر مامور ہیں لوگ، صرف اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے، خود دکھوں میں گھرے، اپنے ہی آنسوؤں میں نہائے ہوئے ۔ لیکن کام کرتے ہیں دوسروں کو ہنسانے کا۔ مشکل، کٹھن اور محنت طلب کام تو یہ ہے ہی، لیکن خود کو مار کر، خود کو فراموش کرکے دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا کتنا بھلا کام ہے یہ۔ ہاں دوسروں کو کچھ لمحے ہی سہی ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کر دینا، نیکی اور کِسے کہتے ہیں بھلا، ہاں ’’جوکر‘‘ جسے ہم اور آپ ’’مسخرہ‘‘ کہتے ہیں۔

وہ یہی کام کرتا ہے۔ میں اس سے ملا تو میرے سامنے ایک شعر رقص کر رہا تھا؎

سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ جو ہنسی کی کرن
نجانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں

ریستوراں میں آنے والے لوگ اپنی گاڑی سے اترتے توان کے بچے اس سے ہاتھ ملاتے اور وہ انھیں اپنی حرکتوں سے ہنسا رہا تھا۔ کچھ بچے اس کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اسے ذرا فرصت ملی تو میں نے اپنا تعارف کرایا،’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر‘‘

ہاں مجھے بھی۔ میں تم سے تمھاری بپتا سننا چاہتا ہوں۔
’’مجھ سے کیا سنیں گے آپ سر‘‘

وہی جو تم پر بیت رہی ہے۔

وہ ہنسنے لگا، ’’مجھ پر جو بیت رہی ہے، وہ آپ سن کر کیا کریں گے؟‘‘

ہاں سوال تو اس کا بالکل بجا تھا۔ بہت مشکل سے وہ آمادۂ گفتگو ہوا۔ اس نے مجھے اپنا رابطہ نمبر دیا۔ اور دوسرے دن آنے کو کہا۔ دفتر سے نکلتے ہوئے میں نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے ہنستے ہوئے مجھے سمجھایا کہ میں کس جگہ پہنچ کر اس سے رابطہ کروں اور پھر میں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر موجود تھا۔ میں نے اس سے رابطہ کیا تو وہ حیرت سے بولا، ’’سر! آپ تو واقعی پہنچ گئے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہاں وعدہ جو کیا تھا تم سے ملنے کا…! آئیے! افتخار کی کتھا کہانی سنتے ہیں۔

’’ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں ۔ سب مجھ سے چھوٹے، والد صاحب ایک ٹیکسٹائل مل میں سینئر سپروائزر تھے۔ اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ میں میٹرک کا امتحان دے چکا تھا کہ والد صاحب بیمار ہوگئے۔ پہلے تو انھیں بخار ہوا ہم سمجھے کہ کوئی مرض نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا دوائیں لیں معلوم ہوا کہ انھیں نمونیہ ہوگیا ہے اور پھر ایک دن وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ جمع پونجی تو ہمارے پاس کچھ تھی نہیں، بس سفید پوشی کی زندگی تھی لیکن اب تو اچانک ہی اتنا بڑا مسئلہ ہوگیا تھا۔ پریشان تو میں بہت ہوا کہ گھر میں بڑا تھا، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں خود کام کروں گا اور ان حالات کو بدل دوں گا، لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی اتنی مشکل بھی ہوسکتی ہے۔

حالات اتنی آسانی سے نہیں بدل سکتے۔ والد صاحب کے چہلم کے بعد کام کی تلاش شروع کی۔ سنا تو میں نے یہ تھا کہ کرنے والا ہو کوئی، تو کام کی کمی نہیں ہے، لیکن صاحب ایسا ہے نہیں، میرا تجربہ تو یہی ہے۔ کس، کس جگہ نہیں گیا میں کام کے لیے، فیکٹریوں میں، دکانوں میں اور تو اور میں بلڈنگ بنانے والوں کے پاس بھی گیا۔ بس وہی رونا کام نہیں ہے۔ صبح سے رات گئے تک میں مختلف جگہوں پر دھکے کھاتا اور گھر آکر بہنوں بھائی اور ماں کا سوچتا۔ رشتے دار تو بس رشتے کے ہوتے ہیں، اور ان سے کیا گلہ کروں ہر ایک پریشان ہے یہاں۔ ایک دن سپُراسٹور پر کام کی تلاش میں گیا، کام نہیں ملا۔

باہر نکل رہا تھا کہ پریشان دیکھ کر ایک صاحب نے پوچھا، کام کی تلاش میں ہو، کام کروگے؟ اندھا کیا چاہتا ہے، بس دو آنکھیں ناں صاحب، میں نے کہا ضرور کروں گا۔ مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ میں نے ان سے کہا کام کروں گا اور پوری محنت اور لگن سے کروں گا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے،’’ہاں کام تو بہت محنت کا ہے اور خود کو مارنے کا بھی ۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیا کام ہے کہ جس میں خود کو مارا جائے۔

آخر کام کیا ہے بتائیے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا۔ وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے ’’جوکر‘‘ بنو گے؟ میں ان سے زیادہ ہنسا اور کہا کہ جوکر تو میں بنا ہوا ہوں، میں تو سمجھا تھا کہ وہ مذاق میں مجھے جوکر بننے کا کہہ رہے ہیں، لیکن جب وہ سنجیدہ ہو کر بولے کہ تمھیں جوکر بننا ہوگا، تب مجھے جھٹکا لگا کہ واقعی،۔۔۔۔۔ کہانی بہت طویل ہے ، دو دن میں سوچتا رہا اور بالآخر ان سے مل کر ہامی بھرلی۔ وہ پروگرام آرگنائزر تھے، شادی بیاہ میں، اسکولوں کی تقاریب اور مختلف ہوٹلوں میں اپنے لوگوں کو جوکر بنا کر کھڑا کر دیتے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور دیگر لڑکوں سے ملایا کہ اب یہ بھی کام کرے گا۔ اسے کام سکھاؤ۔’’چل بھائی! ایک اور پنچھی شکار ہوگیا‘‘ یہ پہلا جملہ تھا جو میں نے سنا۔

میں اپنا پہلا دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب انھوں نے میرا میک اپ شروع کیا۔ گرمی کے دن اور ایک اسکول کی تقریب اور پھر جو کر کا لباس۔ پہلے تو میں بہت رنجیدہ ہو ا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا، لیکن میک اپ کے بعد جب میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو خود ہی کو پہچان نہیں سکا۔ (اسی لیے اس نے اپنا نام اور تصویر شایع کرنے سے منع کردیا)میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بھائی اور بہنوں کو میرے اس کام کا پتا چلے۔ مجھے وہ لے کر اسکول پہنچے اور صدر دروازے پر کھڑا کر دیا۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے بچے آرہے تھے اور میں ان سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ سب میری ناک پر چپکی ہوئی ٹیبل ٹینس کی گیند کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ مت پوچھیے بہت مشکل ہے، زندگی، اتنی آسان نہیں ہے۔

پہلے تو اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور پھر وہ رو پڑا۔ بہت مشکل ہوئی مجھے اسے دلاسا دیتے ہوئے، تم تو فن کار بن گئے ۔ لوگوں کو ہنسانا بھی تو نیکی ہے تم کوئی بھیک نہیں مانگ رہے۔ محنت سے کما رہے ہو۔ اس میں اتنا رنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے۔

’’ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ میں نے کہا ضرور پوچھو،’’کیا آپ یہ کام کر سکتے ہیں؟‘‘ اس کا جواب واقعی میرے پاس نہیں تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بولا،’’دلاسے، اچھے الفاظ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتے صاحب!‘‘ ہاں ، تم بالکل درست کہہ رہے ہو۔

ہاں، تو پہلا دن پانچ گھنٹے کام کے مجھے سو روپے ملے۔ یہ میری پہلی کمائی تھی۔ میں نے ان سے کہا یہ تو بہت کم ہیں، تو انھوں نے کہا تمھیں ابھی کام نہیں آیا، جب سیکھ جاؤ گے تو پیسے بھی بڑھ جائیں گے۔ شروع تو میں اتنے ہی ملتے ہیں، خیر گاڑی چلنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ میں بھی اس رنگ میں رنگ گیا۔ ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لیکن مجھ پر دُہری مشکل آن پڑی تھی خود کو چھپانا بھی تھا، گھر میں گفتگو کرنی تھی بہت مہذب لہجے میں۔ لیکن کام کے دوران وہی بازاری زبان۔ لیکن میں نے یہ کر دکھایا۔ پانچ سال تک تو میں نے ان صاحب کے ہاں کام کیا اور پھر اپنا گروپ بنا لیا ۔ اب ہم پانچ لوگ ہیں۔

اپنا پروگرام خود کرتے ہیں میرا بھائی اب ’’بی کام‘‘ میں ہے ۔ دو بہنوں کی جیسے تیسے شادی بھی کر دی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ بھائی آپ اب شادی کریں، لیکن میں ٹال دیتا ہوں۔ وہ اب بھی یہ نہیں جانتے کہ میں کام کیا کرتا ہوں، بس اتنا بتایا ہے کہ ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ جب رات کو دیر سے آتا ہوں اور اکثر آتا ہوں تو یہ کہہ دیتا ہوں صاحب لوگوں کی پارٹی تھی تو مجھے رکنا پڑتا ہے۔ اب تو مجھ سے کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ بس خوشی یہ ہے کہ میں نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور میں کسی حد تک اس میں کام یاب بھی ہوگیا ہوں۔ لیکن میں خود تباہ ہوگیا ہوں۔

خود کیوں تباہ ہوئے تم، محنت کی تم نے۔ کوئی بھیک نہیں مانگی کسی کی جیب نہیں کاٹی۔ کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ تم تو بہت عظیم ہو یار! اس کی آنکھیں پھر برس پڑیں۔ چھوڑیں صاحب کیا عظیم، میں نے اسی ماحول میں رہ کر چرس پینا شروع کر دی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے چھوڑی ہے۔ اکثر پیتے ہیں یہ لوگ، ورنہ تو کام ہی نہیں کر سکتے۔ ہاں اس کام میں خود کو مارنا پڑتا ہے۔ لیکن میں خوش بھی ہوں کہ اپنا فرض پورا کیا میرے سامنے پھر ایک شعر محو رقص تھا؎

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

تمہارے ساتھ تو بہت عجیب سے واقعات ہوتے ہوں گے ناں۔ ہاں ہر روز ہوتے ہیں، صاحب میرے ساتھ تو پہلے دن سے یہ ہوا کہ ایک بچہ ضد کرکے بیٹھ گیا کہ ممّا مجھے یہ چاہیے مجھے خرید کر دیں۔ وہ مجھے کھلونا سمجھ رہا تھا اور سچ ہے وہ صحیح سمجھ رہا تھا۔ ہم کھلونے ہی تو ہیں، بہت مشکل سے وہ مانا اس کی ماں کہہ رہی تھی یہ پیسوں کا نہیں ملتا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ کہوں مجھے خرید لیں، میں برائے فروخت ہوں، لیکن میں خاموش رہا۔ ایک دفعہ ہم پروگرام کرکے واپس آرہے تھے رات ہوگئی تھی کہ پولیس موبائل نے ہمیں روک لیا۔ پہلے تو پوچھ گچھ کرتے رہے پھر فرمائش کر دی کہ ہمیں ناچ کر دکھائو۔ کیا کرتے ہم نے ناچ کر دکھایا۔

ایک دن ایک تقریب میں ڈاکو بھی آگئے تھے عجیب بات ہوئی کہ انھوں نے ہمیں کچھ نہیں کہا بس کچھ لوگوں سے موبائل فون اور پیسے لوٹ کر لے گئے۔ کچھ لوگوں نے ہم پر بھی شک کیا۔ لیکن کچھ لوگ بہت بھلے ہوتے ہیں انھوں نے کہا ان غریبوں پر کیوں کر رہے ہو شک۔ اس طرح ہماری جاں بخشی ہوئی۔ چھوڑیں نجانے کیا کیا واقعات ہوتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں، زندگی اسی کا نام ہے۔

تم نے کپور صاحب کی فلم ’’جوکر‘‘ تو دیکھی ہوگی کیا شان دار اور جاں دار فلم ہے ناں۔ میں نے پوچھا۔

ہاں دیکھی ہے۔ ہر ہفتے دو چار دیکھ ہی لیتے ہیں اور کوئی تفریح تو ہے نہیں ہمارے پاس۔ بس فلمیں دیکھنا اور خود فلم بننا ہی رہ گیا ہے ہمارے پاس۔

کسی ڈرامے میں فلم میں کام کرنے کا نہیں سوچا۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا آپ بھی کسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں۔ صحافی تو آپ کہیں سے نہیں لگتے، میں نے پوچھا کیوں؟

’’یہ سماج کام کو نہیں پرچی کو دیکھتا ہے۔ آپ کے پاس اگر پیسہ ہے تو بن جائے گا کام اور اگر پیسہ نہیں تو پرچی ہونی چاہیے اور پرچی بھی تگڑی، جس کی بات کوئی نہیں ٹال سکے۔ ‘‘
مستقبل میں کیا کرو گے؟ بس یہی یا کچھ اور سوچا ہے؟

’’مستقبل یعنی کل یار کل کس نے دیکھی ہے، ہر طرف تو خون بہہ رہا ہے گھر سے نکلو تو سوچ کے نکلو کہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔ خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہتر زندگی سب کا خواب ہوتا ہے میرا بھی ہے۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ بھائی کسی لائق ہوجائے، چھوٹی بہن کی شادی ہوجائے تو کچھ سوچوں گا۔ انسان تو ہر وقت اپنے لیے سہولتوں اور آسائشوں کے خواب دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے، میں بھی دیکھتا ہوں اب میں خواب دیکھنا تو نہیں چھوڑ سکتا ناں۔

وہ بہت پیار سے مجھ سے ملا اور بہت خلوص سے رخصت کرتے ہوئے بولا۔ ’’بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، جی کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اس دور میں یہ بھی نعمت ہے کہ کوئی کسی کی بات سن لے اور دھیان سے سن لے یہاں تو کوئی کسی بات ہی نہیں سنتا۔‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ یہ کتنا بھلا انسان ہے۔ میں تو اپنی اخباری ضرورت کے لیے اس سے ملا تھا۔ میری تو غرض تھی اس سے بات کرنا، لیکن وہ اسے بھی تحسین کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ کتنا بھلا انسان ہے وہ اور ہم …!؎

پاگل تو ہوں کہ خود ہوں تماشا بنا ہوا
اور خود پہ ہنس رہا ہوں تماشائیوں کے ساتھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔