کیا یہ پاکستان وہی ہے

سردیوں کے یہ دن یعنی سال کے یہ دن بجلی کی کم از کم کھپت کے دن ہوتے ہیں


Abdul Qadir Hassan January 24, 2016
[email protected]

سردیوں کے یہ دن یعنی سال کے یہ دن بجلی کی کم از کم کھپت کے دن ہوتے ہیں چنانچہ بجلی پیدا کرنے والی مشینوں پر کم از کم بوجھ ہوتا ہے اور بجلی زیادہ تر روشنی کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔

بجلی سے ہیٹر چلانے کی ہمت نہیں پڑتی کہ اس سے بجلی کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور بجلی کا بل کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے اور بجلی کا بل ہر حال میں بروقت ادا کرنا ہوتا ہے ورنہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے واپڈا والے میٹر کاٹ دیتے ہیں اور پھر بل بمعہ جرمانے دے کر۔ مزید سزا یہ کہ واپڈا دفتر کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض اوقات ایک اور کام بھی کرنا پڑ جاتا ہے جس کا ان دنوں بہت ذکر ہو رہا ہے اور وہ ہے کرپشن۔ کچھ مال دے کر اور واپڈا کے لائن مین کو خوش کر کے میٹر دوبارہ لگ جاتا ہے اور آپ کا گھر روشن ہو جاتا ہے لیکن صرف ایک گھنٹے کے لیے کیونکہ بجلی ان دنوں ہر ایک گھنٹے کے بعد بند ہو جاتی ہے اور پھر ایک گھنٹہ گزرنے پر بحال ہوتی ہے۔

بجلی کی وہ قومی بندش الگ ہے جو پورے ملک میں یا ملک کے کسی بڑے حصے میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے اور حیران کر جاتی ہے کہ ہم ایٹمی طاقت والا ملک ہو کر بھی باقاعدگی سے بجلی بحال نہیں رکھ سکتے اور ہماری مہارت ایسی ختم ہوتی ہے کہ پورا ملک اس کا مزا چکھتا ہے۔ یہ ہماری تکنیکی نالائقی نہیں شرمندگی کا مقام ہے۔ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی طعنے دیتے ہیں کہ ہم اپنے وطن میں کیسے جائیں جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی ہے نہ گیس ہے۔

میں ایسے کئی پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو ملک کے حالات سدھارنے کے لیے بیرون ملک تعلیم کے لیے گئے اور جب پڑھ لکھ کر واپس لوٹے تو پہلے تو انھیں نوکری بڑی مشکل سے ملی وہ بھی اس عزم کا یقین دلانے پر کہ وہ ملک میں واپس ایک مشن لے کر آئے ہیں پھر جب وہ ملازم ہو گئے تو حالات ایسے پراگندہ اور پریشان کن تھے کہ ان کی مشنری اسپرٹ منہ کی کھا کر واپس لوٹ گئی اور وہ اپنا ماتم کرتے ہوئے چلے گئے۔ میرا ایک نواسہ ملک سے باہر پڑھتا ہے اور وہ جب چھٹی پر آتا ہے اور یہاں کی مشکلات دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ بابا مجھے پڑھ کر آنے دیں، یہ سب ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

اس کی یہ بات سن کر ہم پاکستانی خاموش رہتے ہیں کہ واپسی پر اس کے ساتھ جو گزرنی ہے اس کا ذکر کر کے اس کو بددل نہ کر دیں البتہ موقع پا کر اسے مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنے تعلیمی تجربے کو پختہ کرنے کے لیے وہاں جاب بھی کر لے تا کہ تعلیم کے ساتھ تجربہ بھی حاصل ہو جائے۔ اپنا گھر تو ہے ہی جب بھی جی چاہے چلا آئے۔ اس مشورے میں ہماری یہ بے ایمانی ہوتی ہے کہ اپنے وطن عزیز میں اس کے ساتھ جو سلوک ہونا ہے وہ تو اس سے بچ جائے۔

جب کسی ملک کے حکمران اپنے ملک کو کھانے میں لگے ہوئے ہوں تو وہاں ایک پڑھا لکھا نیک نیت، سادہ مزاج نوجوان کیا کر سکتا ہے۔ ان دنوں اخباروں میں ہر روز ہمارے بڑے لیڈروں کے اربوں کی رشوت کے قصے چھپ رہے ہیں اور ہم انھیں اپنی نئی نسل سے چھپا بھی نہیں سکتے۔ یوں ہم بڑی مشکل میں ہیں کہ خود اپنے آپ سے اپنی جوان نسل سے جس پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہے کیا چھپائیں اور اسے کیا بتائیں۔ ایسا مشکل وقت خدا کسی قوم پر نہ لائے جب وہ اپنے آپ سے چھپتی پھرے۔

اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کرنے کی ہمت نہیں پڑتی سوائے اس دعا کے کہ اللہ ہم پر ایسے وقت میں رحم کرے اور اپنے اور اپنے رسولؐ کے نام پر بننے والے اس ملک کو بچا لے۔ جن لوگوں کو قیام پاکستان کا زمانہ یاد ہے وہ آج کا وقت دیکھ کر شدید اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ آج کے حالات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

ان کے صاف ستھرے جذباتی ذہنوں میں پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنوں میں خلافت راشدہ کا زمانہ تھا اور وہ ایسی ہی کسی حکومت کے طلب گار اور دعاگو تھے۔ ان لوگوں کے دلوں میں بے پناہ جرأت اور جذبہ تھا اور انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔

انھیں دشمنوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ ان کے حوصلے اتنے بلند اور ایمان اتنے تازہ تھے کہ انھیں دشمن کی کوئی فکر اور پروا نہیں تھی اور جب ان کے دوست کوئی ناپسندیدہ بات کہہ دیتے تو وہ پریشان ہو جاتے۔ قیام پاکستان کے وقت عربوں کے قائد ملک مصر کے فرمانروا شاہ فاروق نے طنزاً کہہ دیا کہ اسلام تو جیسے 1947ء میں نازل ہوا ہے۔ ہم پاکستانی اسلام کا مسلسل اور ہر بات میں ذکر کرتے تھے اور اس میں شک بھی نہیں تھا کہ ہم نے تاریخ کا رخ بدل دیا تھا اور اسلامی تاریخ میں ایک ایسے نئے ملک کا اضافہ کر دیا تھا جو سو فیصد اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ پاکستان اسلامی دنیا میں ایک اضافہ تھا۔ ہم شاہ فاروق کی طنز کو اس کے محدود علم کی وجہ سے برداشت کر گئے۔

بہرکیف پاکستان جو آج ہے اس کا تصور اس کے آغاز میں نہیں تھا۔ وہ ایک بڑا اور عالی شان پاکستان تھا اور ایک بار سوچیں تو لگتا ہے کیا اپنے ان مقاصد سے کچھ دور تو نہیں چلے گئے۔ آج ہم اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک ہیں اور اپنے دشمنوں کے لیے ایک طاقت ہیں۔ ایسا طاقت ور پاکستان وہی ہے جس کا تصور ہم نے اس کے قیام کے وقت دنیا کو دیا تھا اور کیا اس کی طاقت کا یہ عالم باقی رہے گا۔ اس وقت اگر کچھ کوتاہیاں دکھائی دیتی ہیں تو ان سب پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ ملک انشاء اللہ اپنے بیٹوں کے لیے امید بن کر رہے گا۔

مقبول خبریں