ٹیلی کام سیکٹر پر بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کے اثرات
جس طرح صنعتی ترقی کے لیے60 کی دہائی کو بہترین دورقرار دیا جاتا ہے
NEW DELHI:
جس طرح صنعتی ترقی کے لیے60 کی دہائی کو بہترین دورقرار دیا جاتا ہے، اسی طرح ٹیلی کام سیکٹرکی ڈی ریگولیشن کے بعد کے دور کو انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کے لیے انقلابی دور کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔اس دور میں پاکستان کے آئی سی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے بھرپور مواقعے سے استفادہ کرنے کے لیے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے بے حد دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ اٹھارہ کروڑ سے زائد کی آبادی کا حامل ملک جہاں ٹیلی فون کی سہولت بہت محدود ہو ،ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں سرمایہ کاری کے بھرپور مواقعے ظاہرکرتا ہے۔
سال 2003-2004کے دوران ٹیلی کام سیکٹر سے متعلق واضح پالیسیوں، مستقبل کے اندازوں کے لیے موافق ریگولیٹری قوانین اور ٹیکسوں کی مناسب شرح کی وجہ سے پاکستان اس شعبے میں آنے والے نئے سرمایہ کاروں کے لیے طویل مدتی سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہترین ملک تھا۔ موبائل فون کی خدمات کا دائرہ تیزی سے وسیع ہونے سے نہ صرف صارفین اورکمپنیوں دونوں نے فائدہ اٹھایابلکہ جدید کمیونی کیشن چینل دستیاب ہونے سے دیگر شعبوں کو بھی دوام حاصل ہوا۔اس کے نتیجے میں کال ریٹ جو کبھی 15روپے فی منٹ ہواکرتا تھا، انتہائی کم ہوچکا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر نے پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین ادوار میں شمار کیے جانے والے کڑے وقت میں بھی ترقی کا سفر جاری رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیکیورٹی کی صورتحال، توانائی کا بحران اورعالمی اقتصادی بحران جیسے عوامل پاکستان میں کاروبار پراثرا انداز ہورہے تھے ۔ ٹیلی کام سیکٹر نے ایک دہائی پر محیط اس دور میں طوفانوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی بلندی کا سفر جاری رکھا۔
بدقسمتی سے ٹیلی کام سیکٹر کے لیے اس اچھے وقت کا اب خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب یہ شعبہ انتہائی دباؤکا شکار ہے اور اپنی بقاء کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے ترقی کی جانب اکیلا ہی گامزن ہے۔اس صورتحال کی وجوہات تک پہنچنے کے لیے جستجوکسی بھی شخص کے لیے فطری سی بات ہے جبکہ تھری جی اور فورجی سروس کی خدمات کے آغاز کے بعد اس شعبے کی ترقی کی رفتار میں نمایاں تیزی کی توقع کی جارہی تھی۔
جواب بہت آسان اور سادہ ہے۔ ٹیکسوں کی موجودہ شرح اور ٹیلی کام سیکٹر سے متعلق حکومت کی غیرمستحکم ٹیکس پالیسی اس شعبے کو تباہ کررہی ہے۔ دنیا کے کم ترین ریٹیل نرخ کے حامل ملکوں میں سے ایک ہونے کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا میں ٹیکسوں کے بوجھ کے لحاظ سے سرفہرست ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں موبائل ٹیلی کام انڈسٹری پر ٹیکسوں اور لیویز کی مجموعی شرح 40فیصد تک پہنچ چکی ہے جو دنیا میں ٹیلی کام سیکٹر پرٹیکسوں کی دوسری بلند ترین شرح قرار پائی ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر پر ایڈوانس ودہولڈنگ ٹیکس کی 14فیصد شرح عائد ہے جو پرتعیش اشیا پر عائد کردہ 10فیصد کی شرح سے بھی زیادہ ہے۔ٹیلی کام سیکٹر پردیگر شعبوں کے مقابلے میں سیلز ٹیکس کی بھی امتیازی شرح عائد کی جاتی ہے۔ دیگر شعبوں کے لیے یہ شرح 17فیصد ہے تاہم ٹیلی کام سیکٹر پر 19.5فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔
اس کے ساتھ ناقابل وصول IMEIٹیکس، امپورٹ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی بلند شرح اور SIMکی فروخت پر عائد ٹیکس سمیت کون سا ایسا ٹیکس ہے جو اس شعبے پر عائد نہ ہو۔ ٹیکسوں کی بھرمار کا اثر براہ راست صارفین پر مرتب ہورہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 100روپے لوڈ کرانے والے صارف کو حقیقت میں 66روپے وصول ہورہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارف کو ٹیلی کام سروس سے استفادہ کرنے کی گنجائش میں 34فیصد کمی کا سامنا ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بھرمار کی بات یہاں تک ہی ختم نہیںہوتی ۔ صورتحال اور زیادہ خراب ہوتی ہے جب غیرمتوقع طور پر مزید نئے ٹیکس عائدکردیے جاتے ہیں جو اس شعبے کے لیے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ مثال کے طور پر حکومت نے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح جو 2012-13میں 10فیصد تھی سال 2013-14میں بڑھا کر 15فیصد کردی ۔ سال 2015-16میں موبائل سیٹ پر ٹیکس کی شرح دگنی کردی گئی جبکہ انڈسٹری کی جانب سے متواتر تحفظات کے باوجود IMEIٹیکس عائد کردیا گیا۔اسی طرح انٹرنیٹ ڈیٹا پر ٹیکس کا نفاذ صارفین اور انڈسٹری کے لیے ایک رکاوٹ بن گیا۔
3G اور4G کی نیلامی میں کامیاب ہونے والے آپریٹرز سے ایف بی آر کی جانب سے بولی کی مالیت کے 10فیصد کے مساوی ایڈوانس انکم ٹیکس کا تقاضہ ایک اور طمانچہ ثابت ہوا ۔ یہ انڈسٹری کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ اس ضمن میں کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا اور نیلامی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایڈوانس انکم ٹیکس کا مطالبہ سامنے لایا گیا۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تھری جی اور فور جی سروس کے لیے لاتعداد نئے آلات درآمد کیے جائیں گے تو امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی کی شرح جو صفر سے 5فیصد تھی بڑھا کر 20سے 25فیصد کردی گئی۔ اس اقدام سے ٹیلی کام آپریٹرز کے بجٹ متاثرہوگئے کیونکہ امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی کی بلند شرح کی لاگت کوتھری جی اور فورجی خدمات کے پھیلاؤ کے لیے مخصوص بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔کاروباری لاگت میں ہونے والے اس اچانک اضافے نے انڈسٹری کو سخت مشکل سے دوچار کردیا ۔ تھری جی اور فورجی خدمات کا پھیلاؤ بڑے شہروں تک محدود رہنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری طویل مدت بنیادوں پرکی جاتی ہے اور اس سرمایہ کاری کے ثمرات کچھ وقت کے بعد آنا شرو ع ہوتے ہیں جن کے لیے مستحکم کاروباری ماحول اور ٹیکس پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میںمعیشت میں اہمیت کے حامل شعبے کو طویل مدتی بنیادوںپر ترقی دینے کے بجائے ٹیکس وصولی کے قلیل مدتی مقصد کوترجیح دی جاتی ہے۔ اگرچہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ٹیلی کام سیکٹرکے بارے میں فکرمند ہیں تاہم وزارت خزانہ کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں۔
اپنی بقاء کے لیے ٹیلی کام سیکٹر میں انضمام کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو قلیل مدت میں روزگارکے مواقعے کم ہونے اور وسط مدت میں صارفین کے لیے خدمات سے استفادہ کرنے کے مواقعے کم ہونے کا خدشہ ہے۔
ٹیکس پالیسی کے عدم تسلسل کے حوالے سے حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو ایک غلط پیغام مل رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک 3.1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ٹیلی نار کی مثال یہاں زیادہ موزوں ہے، جس کو 3.1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر 11سال میں سالانہ ایک فیصد کے لحاظ سے 332ملین ڈالر کا ڈیوڈنڈ حاصل ہوا دوسری جانب حکومت یورو بانڈ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو 8.5فیصد کا یقینی ریٹرن آفر کررہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کی بہتری اور روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے فروغ سے زیادہ قرض لینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق براڈ بینڈ میں 10فیصد کا اضافہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 1.38فیصد اضافے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں موبائل براڈ بینڈ کا شعبہ اڑان بھرنے کے لیے تیار ہے۔ موجودہ 15فیصد کی شرح نفوذ کے ساتھ براڈ بینڈ انٹرنیٹ ہر شعبے کی کارکردگی بڑھانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ اس پس منظر میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اس شعبے پر عائد امتیازی اور صارف ٹیکسوں میں کمی لائی جائے تاکہ ملک کی مجموعی ترقی کے عمل میںاہم کردار کے حامل اس شعبے کو تحفظ دیا جاسکے۔