اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟

رئیس فاطمہ  اتوار 28 فروری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کسی گیت کا مکھڑا ہے:

اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

اور یہ شہر خرابی ہے سابق دارالحکومت اور موجودہ میٹروپولیٹن شہر کراچی۔ جو پورے ملک کا 70 فیصد کما کر دیتا ہے۔ سیاست چمکانے کے لیے ’’زندہ لاشیں‘‘ بھی نظر آتی ہیں، لیکن پرسان حال کوئی نہیں، ’’کراچی کو پیرس‘‘ بنانے کا لفظی دعویٰ کرنے والوں نے اسے چنگ چی رکشوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ رہی سہی کسر بلدیاتی نظام کے خاتمے نے پوری کر دی۔ شہر کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں کوڑے کے انبار نہ لگے ہوں۔

اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں روزگار کے مواقعے بہت ہیں۔ ساتھ لاقانونیت اور نااہل پولیس کی بھتہ خوری نے اسے نہ صرف کچرا کنڈی میں تبدیل کیا، بلکہ دوسرے گاؤں گوٹھوں سے خانہ بدوشوں کے بے شمار خاندانوں سے ماہانہ بھتہ لے کر وہ پلوں کے نیچے بسا دیے۔ جو ایک عذاب سے کم نہیں۔ یہ پورے پورے قبیلے پلوں کے نیچے نہایت ذلت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی چوری چکاری اور لوٹ مار کی وارداتوں میں یہ کافی مشاق ہیں۔ ان کی عورتیں بسوں اور ویگنوں میں نہایت مہارت سے وارداتیں کر کے اتر جاتی ہیں۔ کسی کی سونے کی چین اتر گئی، کسی کے ہاتھ سے چوڑیاں کٹر سے کاٹ کر اتار لیں۔ کسی کا بیگ بلیڈ سے کاٹ کر رقم اور دیگر اشیا اڑا لیں۔

یہ شہر جو بڑا غریب پرور ہے۔ خدا جانے غربت اور گندگی لازم و ملزوم کیوں ہیں۔ جو جس علاقے سے آتا ہے وہ اپنا کلچر ساتھ لاتا ہے۔ کہیں پہاڑوں سے آنے والے رفع حاجت کے لیے میدان استعمال کرتے ہیں۔ یہ کراچی آتے ہیں تو فلش سسٹم ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس لیے پانی کے بجائے پتھر استعمال کرتے ہیں اور ان پتھروں کو فلش میں ڈال دیتے ہیں۔

دوسری طرف سبزی فروش، قصاب، ٹھیلے والے، سوپ اور بن کباب بیچنے والے تمام دن کاروبار کرتے ہیں اور رات کو گندگی کے ڈھیر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ ڈال کر چلے جاتے ہیں، کیونکہ یہ اپنے اپنے ’’ملک‘‘ اور ’’گاؤں‘‘ سے کراچی کمانے آئے ہیں، اس لیے کما کر اپنے گھر پیسہ بھیجنا تو ان کی ذمے داری ہے لیکن شہر کو گندہ کرنا بھی ان کا حق ہے۔

فٹ پاتھ پہ پولیس کی مرضی و منشا سے کھانے پینے کے اسٹال لگے ہیں۔ ٹیبل کرسیاں لگی ہیں۔ کباب پراٹھے سے لے کر حلوہ پوری اور برگر شاپس تک ان فٹ پاتھوں پہ آباد ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہر کے بیشتر علاقوں میں فٹ پاتھوں کو بطور گیراج استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہر جگہ موٹر مکینک گاڑیاں ٹھیک کرتے نظر آئیں گے۔ دکانیں سب کی سب باہر لگی ہیں۔ خواہ گارمنٹ شاپ ہو یا الیکٹرک آئٹمز۔ سب نے اپنا اپنا مال باہر نکال کر رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ پولیس کو ماہانہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی ڈر خوف یا احساس نہیں کہ راہ گیر پیدل کہاں چلیں۔ شہر میں کوئی فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے خالی نہیں۔ مجبوراً جب لوگ سڑکوں پہ چلتے ہیں تو حادثہ ہونے اور ٹریفک جام ہونا لازمی ہے۔

ایک اور عذاب یہ نازل ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس بنا دیے گئے۔ درمیانی کٹ بند کر دیے گئے۔ لہٰذا ٹریفک بے قابو اور شتر بے مہار ہو گیا۔ ون وے کی جگہ ہر طرف سے رکشہ اور بائیک آنے جانے لگیں کہ کٹ بند ہو گئے ہیں، اتنا لمبا راؤنڈ لے کر کون آئے۔

گیس مہنگی، پٹرول مہنگا، کریں تو کیا کریں؟ پورے شہر کا یہ عالم ہے کہ جہاں جہاں یہ پل بنے ہوئے ہیں وہاں کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں، نہ ہی ٹریفک پولیس مداخلت کرتی ہے۔ ان کا جو اصل کام ہے وہ اسے تندہی سے انجام دیتے رہتے ہیں، یعنی بھتہ وصولی۔ رکشوں، ٹھیلے والوں اور موٹر سائیکل والوں کو کونے میں کھڑے ہو کر شکار پکڑتے ہیں اور اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں۔

ایک اور مصیبت آوارہ اور پاگل کتوں کی ہے۔ حکمرانوں کو دوروں اور اپنے ’’پیاروں‘‘ کو نیب سے بچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ وزراء کے صرف زبانی بیانات، اخباری اشتہارات اور ٹی وی چینل پہ چلنے والے اشتہارات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بہت ترقی کر رہا ہے، لیکن حقیقت سب جانتے ہیں۔

پارک اجڑ گئے، منشیات فروشوں کے اڈے بن گئے۔ آوارہ کتے کھلے عام پھرتے ہیں اور اکثر و بیشتر کاٹنے کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ پاگل کتا اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو پیٹ میں 14 انجکشن لگتے ہیں۔ پھر بھی بعض اوقات ’’ریبیز‘‘ کی بیماری ظاہر ہو جاتی ہے اور انسان پانی سے ڈرنے لگتا ہے۔ نہ نہاتا ہے نہ پانی گرنے کی آواز سنتا ہے۔ غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

شہر قائد مختلف جرائم پیشہ گروہوں کا مسکن بن گیا ہے۔ کہیں سے بھی کوئی مجرم، قاتل، دہشت گرد یہاں آ کر باآسانی اپنی وارداتیں کرتا ہے۔ شہر میں مختلف مقامات سے ہتھیار باآسانی کرائے پر دستیاب ہیں، جو وارداتیں کرنے کے بعد واپس کر دیے جاتے ہیں۔ گروہ کے گروہ وقفے وقفے سے ملک کے بیشتر علاقوں سے وارداتیں کرنے آتے ہیں اور بڑی کامیابی سے بینک ڈکیتی سمیت دیگر وارداتیں کر کے اپنے اپنے ٹھکانوں پہ واپس چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سرپرست موجود ہیں۔ ان سرپرستوں کا بھی سب کو علم ہے۔

لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ ان کا نام لے۔ بڑے بڑے ’’نام‘‘ بم دھماکوں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کی نشاندہی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے تردید آ جاتی ہے کہ ’’قبلہ و کعبہ جناب فلاں فلاں ان وارداتوں میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘

پورا ملک تباہی سے دوچار ہے ساری توجہ اور سارے فنڈز من پسند صوبوں اور شہروں کے لیے ہیں۔ لوگ بددعائیں دے رہے ہیں۔ لیکن بڑی مچھلیوں کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو پکڑا جا رہا ہے اور ان کے سرپرستوں کو باقاعدہ ڈیل کے ذریعے بیرون ملک فرار کروا دیا گیا ہے کہ اگر انھیں روکا تو وہ بھی زبانیں کھولیں گے۔ پھر کیا ہو گا؟ کچھ بھی نہیں۔ انھیں بھی بچانے والے موجود ہیں۔

بھوتوں، بلاؤں اور گندگی کا مسکن کراچی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ سیاست دانوں کو صرف کراچی میں جلسے کر کے زبانی بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ عمران خان کو بھی اب سانپ سونگھ گیا ہے۔ انھوں نے بھی مصلحت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ کوئی نہیں ہے اس شہر ناپرساں کا ہمدرد۔ سب اپنی اپنی باریاں لینے اور لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی مسیحا کے آنے کی کوئی امید نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔