جھاڑ کھنڈ کے دو شہید
قاہرہ عرب دنیا کی ثقافت اور سوچ کا ایک نمایندہ ملک تھا اور اب بھی ہے
اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ بظاہر ایک غیر مسلم ثقافت کے نمایندے اور انھی کی زبان بولنے والے اور ہر طرف سے انگریز دکھائی دینے والے نے اتنی بصیرت کہاں سے حاصل کر لی کہ اس کی کئی پیش گوئیوں اور کئی پالیسیوں کو وقت نے سچ ثابت کر دیا بلکہ بعض باتیں تو حقیقت بن کر دنیا کو حیران کر گئیں۔ یہی شخص برصغیر کے مسلمانوں کا قائد ٹھہرا اور اس نے مسلمانوں کا ایک نیا ملک بنانے کا ناقابل یقین کارنامہ سر انجام دیا۔
حیرت ہے کہ خدا کی زمین پر ایک بالکل نیا مسلمان ملک قائم کر دیا اور اسے مسلمانوں کے نظریے کا نمایندہ قرار دیا۔ پھر اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے اتنی حفاظت اور سلامتی بھی عطا کر دی کہ جس کسی نے اسے توڑنے کی کوشش کی اس کو غیر قدرتی موت کی صورت میں اس کی سزا ملی۔ قائد محمد علی جناح نے جب وہ برطانیہ سے وطن لوٹ رہے تھے تو قاہرہ میں انھوں نے مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔
قاہرہ عرب دنیا کی ثقافت اور سوچ کا ایک نمایندہ ملک تھا اور اب بھی ہے چنانچہ انھوں نے عرب دنیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں اگر ایک مسلمان ملک قائم نہ کیا گیا تو وہاں کے ہندو اس خطے کے مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیں گے اس لیے پاکستان کے نام سے ایک ملک لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی بقا کے لیے لازم ہے ہمارا ساتھ دیجیے۔
ہمارے قائد کو یہ کہاں سے القاء ہوا تھا کہ اس نے اتنے بڑے کام کی پیش گوئی کر دی اور دنیا کو بتایا کہ یہ مجوزہ ملک ہماری بقا کے لیے لازم ہے ہم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے لیکن قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے جیسے تعلقات رہے جن میں جنگیں بھی تھیں اور دونوں قوموں کے درمیان ایک مستقل ان بن اور تلخی بھی تھی وہ سب واضح ہے۔ وہ تو اللہ کا فضل ہوا اور ہم نے ایٹم بم بنا لیا جس کے بعد بھارت کی زبان بدل گئی رویہ بدل گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اگر پاکستان کے خلاف جنگ کی نوبت آ گئی تو نہ جانے پاکستان کا بم ہمارا کیا حال کرے گا جب کہ اس کی کوالٹی مسلمہ طور پر ہمارے بم سے بہتر ہے۔
یہ تو مستقبل کی بات ہے لیکن مسلمانوں کے قاتل ہندو اکا دکا مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہتے ہیں۔ ریاست جھاڑ کھنڈ کے ضلع لتی باڑ میں ہندوؤں نے دو مسلمان تاجروں کو نہ صرف قتل کر دیا بلکہ اپنا غصہ نکالنے کے لیے ان کی میتوں کو سولی پر لٹکا دیا تاکہ دنیا ان کی بہادری کا نظارہ کر سکے۔ یہ دونوں مسلمان تاجر مویشیوں کی تجارت کرتے تھے اور ہندوؤں نے ان پر گائے کی تجارت کا الزام لگا کر ان کو قتل کر دیا۔ نہ جانے ہماری مسلمان حکومت زیادہ نہیں تو سفارتی سطح پر ہی احتجاج کرتی ہے یا نہیں مگر ہمارے قائد کی روح ہمارے دلوں اور ذہنوں کا ماتم کر رہی ہو گی کہ اس نے تو ان کے ملک کے قیام سے پہلے ہی مسلمانوں کے قاتلوں کی نشاندہی کر دی تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ مغربی تہذیب میں رنگے ہوئے اس شخص میں اسلام کہاں سے گھس آیا اور ایسا اسلام جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک نیا اعتماد اور نئی زندگی دی۔ آج ہمارے قائد رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں اور برکتوں نے کچھ برس پہلے قائم ہونے والے ملک میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ اس کے دشمنوں کی زبانیں تک محتاط ہو گئی ہیں۔ پاکستان کا بم نہ صرف تکنیکی اعتبار سے بہترین ہے بلکہ اس ملک کی فوج کو بھی دنیا کی ایک بہترین فوج سمجھا جاتا ہے جو ملک کے لیے جان دینے کو ایک ابدی زندگی کا پیغام سمجھتی ہے۔
ہمارے قائد نے اپنی زندگی کی مثال بنا کر ہمیں دیانت کا سبق دیا۔ ان کی زندگی کی ایسی 'کنجوسیاں' ہیں جو کسی مسلمان ملک کے حکمران میں ہی مل سکتی ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک نئے ملک کے حکمران کو ہر لحاظ سے ایک جائز زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اگر تین سرکاری مہمانوں کے لیے چار سیب میز پر رکھ دیے جاتے تو متعلقہ عملہ اس غلطی پر مادر ملت سے سخت خوفزدہ ہو جاتا کہ وہ اس فضول خرچی کو کیسے برداشت کریں گی۔
یعنی ایوان پاکستان کی فضا یہ تھی کہ بمشکل زندگی بسر کرنی ہے اور اس نئے ملک کو کھانا نہیں۔ اس کی خدمت کرنی ہے۔ نہایت افسوس کہ ہمیں جو بھی ملا کھانے والا ملا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کوئی بھی ہمارے قائد کے نقش قدم پر نہیںچل رہا۔ ہمیں کب کوئی پاکستانی حکمران ملے گا۔ جو ہمیں ہمارے ہندوؤں جیسے بے رحم دشمن سے بچائے گا۔ اپنی یہ حفاظت ہمیں خود ہی کرنی ہے۔ تیار رہیں۔ قائد کا یہی پیغام ہے۔