نئی جماعت: امکانات و خدشات (آخری حصہ)

مقتدا منصور  جمعرات 31 مارچ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ 1964 میں ہونے والے BD انتخابات میں جب کراچی کے عوام نے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو کامیاب کرایا تو ایوب خان کے غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔

بیشتر قارئین کو یاد ہوگا کہ جنوری 1965 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی مسلم لیگ (کنونشن) نے اسٹبلشمنٹ کی طاقت کے زور پر دھاندلی کے ذریعے پورے ملک میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن کراچی، ڈھاکا اور چٹاگانگ میں وہ مادر ملت کا راستہ نہیں روک سکے۔ ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب نے اپنے والد کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے کراچی میں جلوس نکالا، جس کے نتیجے میں شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔

ابھی اس لسانی فسادات کے زخم بھرنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کے جاں نشین جنرل یحییٰ خان نے313 اعلیٰ سرکاری افسران کو مختلف الزامات کے تحت ملازمتوں سے فارغ کردیا جن میں معروف شاعر مصطفیٰ زیدی مرحوم سمیت غالب اکثریت اردو بولنے والی کمیونٹی کی تھی۔ اس کے بعد 1972 میں 1700افسران اور اہلکاروں کو فارغ کیا گیا جن کی اکثریت کا تعلق بھی ہجرت کرکے آنے والوں سے تھا۔

کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کے سب سے زیادہ اثرات بھی کراچی کے نچلے متوسط طبقے کے شہریوں پر پڑے تھے کیونکہ کلرک سے چپڑاسی تک (نان گزٹیڈ) کی ملازمتیں قانون کی رو سے مقامی افراد کا حق ہوتی ہیں۔ پھر 1972میں جب صنعتیں قومیائے جانے کے نام پر بیوروکریٹائز کی گئیں تو یہ واضح ہوگیا کہ حکمران اشرافیہ ہجرت کرکے آنے والوں کا ہر لحاظ سے معاشی قتل کرنے پر آمادہ ہے، جس میں بعض اہم ریاستی ادارے بھی شریک ہیں، جنہوں نے ایوب دور سے اپنے اداروں میں اہل کراچی کے لیے ملازمتوں کا راستہ بند کردیا تھا۔

1970کے انتخابات میں کراچی سے منقسم (Split) مینڈیٹ آیا ۔ قومی اسمبلی کی کل7نشستوں میں سے پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی نے دو، دو جب کہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ظفر احمد انصاری مرحوم نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اس طرح ریاستی مقتدرہ مطمئن تھی کہ کراچی اس کے لیے کوئی بڑا چیلنج بننے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مگر1977میں چلنے والی PNAکی تحریک میں کراچی کے کلیدی کردار نے اسے ایک بار پھر پریشان کردیا۔ یہاں اس کے سامنے دو اہداف تھے۔

اول، کراچی کا سیاست میں ملک گیر یعنی قومی کردار ختم کردیا جائے۔ دوئم، پورے ملک میں قومی سیاست کی جگہ علاقائی سیاست کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جنرل ضیا الحق نے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد انھی دونوں اہداف کو اپنی اولین ترجیح بنالیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے سندھ میں ایوب خان کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے مقامی اور آباد ہونے والے مہاجرین کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس دوران 1978میں قائم ہونے والی طلبہ تنظیم APMSO کے سرکردہ رہنماؤں نے 1984 میں قومی سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں سائیں جی ایم سید کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ اس لیے یہ تاثر درست نہیں کہ ایم کیو ایم کے قیام میں جنرل ضیا کا ہاتھ تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایم کیوایم کی نوجوان اور نو سکھیا قیادت اسٹبلشمنٹ کی شاطرانہ چالوں کو نہیں سمجھ سکی اور دانستہ یا نادانستہ اس کے چنگل میں پھنستی چلی گئی جب کہ دوسری طرف قوم پرستی کی بنیاد پر اپنے الگ سیاسی تشخص کے لیے بھی کوشاں رہی۔لیکن اس نے تاریخ کے تجربہ سے یہ نہیں سیکھا کہ حقوق کی جدوجہد مقامی آبادی سے جڑے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں موجود ان کی اپنی کمیونٹی نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دے کر جو غلطی کی تھی، اس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہی ہے اور کیمپوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔

رئیس امروہوی، اختر رضوی، احمد الطاف، الطاف آزاد جیسے دانشوروں کی کوششوں کے نتیجے میں اردو بولنے والی کمیونٹی اور مقامی سندھی آبادی کے درمیان خلیج کم ہونے لگی تھی، جو اسٹبلشمنٹ کو قابل قبول نہیں تھی چنانچہ اردو بولنے والی کمیونٹی کو سندھی عوام سے دور رکھنے کے لیے بعض نادیدہ قوتوں نے 30ستمبر1988کو حیدر آباد میں قتل و غارت گری کرائی جس کے جواب میں یکم اکتوبر کو کراچی میں سندھیوں کا قتل عام ہوا جس نے سندھیوں اور اردو بولنے والوں کے درمیان 1972کے لسانی فسادات سے شروع ہونے والی خلیج مزید گہری کردی مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وفاقی اور صوبائی حکومت میں حلیف بنے۔

مگر اس ہنی مون کو بھی جلدہی سبوتاژ کرادیا گیا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان خونریز تصادم شروع ہوگیا۔ اسٹبلشمنٹ اس دوران تماشائی بنی موقعے کی تلاش میں رہی۔ چنانچہ1992میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا رخ اچانک کراچی کی طرف موڑ دیا گیا۔ ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو کنٹرول کرنے اور کراچی کے مینڈیٹ کو منقسم رکھنے کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے حقیقی کا مظہر سامنے لایا گیا۔

آپریشن کو منطقی جواز فراہم کرنے کی خاطر ایم کیو ایم کے قائد پر جناح پور بنانے کا الزام عائد کیا گیا جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا مگر آپریشن کے دوران کراچی میں اردو بولنے والی کمیونٹی کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا بدترین سلوک لسانی نفرتوں میں اضافہ کا سبب بنا جب کہ اس آپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آئی۔

اس حقیقت کو جھٹلانا بھی ممکن نہیں ہے کہ ریاستی اسٹبلشمنٹ اہل کراچی کے لیے ایوب خان کے طرزعمل پر یقین رکھتی ہے۔ جو حالات کے تحت کبھی نرم اور کبھی گرم ہوجاتا ہے۔ لیکن ہجرت کر کے آنے والی کمیونٹی کو پاکستانی نہیں سمجھا جاتا۔ ان کے حق نمایندگی کی مسلسل توہین کی جاتی ہے۔

اس بارے میں کہنے کو اس قدر ہے کہ اس اظہاریے کی سیکڑوں قسطیں بن سکتی ہیں، مگر طوالت سے بچنے کی خاطر مختصراً عرض ہے کہ حکومت کے ترجمان یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمے داران خواہ کچھ ہی دعوے کرتے رہیں۔ ان کی نیت ان کے اقدامات سے ظاہر ہے۔ یہ بات اب وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کے اقدامات کسی بھی طور غیرجانبدارانہ نہیں ہیں۔ کراچی میں جاری آپریشن کے بارے میںراقم نے ابتدائی ایام میں جن تحفظات کا اظہار کیا تھا، وہ وقت گذرنے کے ساتھ درست ثابت ہورہے ہیں۔نئی سیاسی جماعت کا قیام اور اس میں صرف ایم کیو ایم کے منحرفین کی موجودگی انتقام کی مظہر ہے۔

اگر کراچی سے محبت اور اس شہر کے امن میں دلچسپی ہوتی، تو حکمران اشرافیہ ان ڈھائی برسوں کے دوران شہر میں بااختیار مقامی حکومتی نظام کے قیام ، مقامی پولیس کی میرٹ پر بھرتی اور شہری انتظام کے شعبہ جات شہری حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ حکومت پر دباؤ ڈالتی۔ لیکن مقصد صرف اور صرف کراچی پر قبضہ اور اس کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو کراچی کے عوام کے حق حکمرانی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔

ایک گذارش یہ بھی ہے کہ سیاسی عمل میں مداخلت کی منصوبہ بندی کرتے وقت برصغیر کی سیاسی تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ برصغیر کے چار ممالک بھارت، سری لنکا ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ان شخصیات کا میڈیا ٹرائل خود حکمران اشرافیہ کے لیے خفت کا باعث بن جاتا ہے، کیونکہ عوام اس شخصیت کے مزید گرویدہ ہوجاتے ہیں۔

ان صحافیوں کو بھی سوچنا چاہیے، جو اپنی شاونزم کو عملی شکل دینے کی خواہش میں اسٹبلشمنٹ کے راگ میں سر ملاتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سرکاری سرپرستی میں مقبول سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنے اور من پسند جماعتیں کھڑی کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ کیا عوام نے کبھی انھیں شرف قبولیت بخشی؟ اگر نہیں تو پھر عوام کے ساتھ اس بے مصرف کھلواڑ کو اب بند ہو جانا چاہیے۔

اسکندر مرزا کی ری پبلکن پارٹی ایوب خان کے مارشل لا کے بعد ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ کنونشن مسلم لیگ1970کے انتخابات کے بعد منظر نامہ سے غائب ہو گئی۔ پروگریسو پیپلز پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی، پیٹریاٹ، مسلم لیگ(قائد اعظم) اور ایم کیو ایم حقیقی آج کہاں ہیں، سب بخوبی واقف ہیں۔اس لیے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو تقسیم کرنے اور ان کی مقبول سیاسی جماعتوں کا میڈیا ٹرائل کرنے سے گریز کیا جائے تو یہ اس ملک اور اس کے عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔