حمام بادگرد اور اب حمام پانامہ لیکس

اس لباس کا کمال یہ ہے کہ اس کا پہنے والا ہمیشہ اس بھرم میں رہتا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq April 13, 2016
[email protected]

لاہور: یقیناً آپ نے اس ''حمام بادگرد'' کے بارے میں سن لیا ہو گا جو کسی حاتم طائی نے شہزادے کی مدد کے لیے دریافت نہیں کیا ہے بلکہ یہ ''حمام بادگرد'' وہ ہے جو پانامہ لیکس کے نام سے زبان زد عوام و خواص ہے اور جس میں ایک دو نہیں بلکہ ساری دنیا کے پردہ نشین اکٹھے ہی قدرتی لباس میں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ لباس جس کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

تن کی عریانی سے بہتر نہیں کوئی بھی لباس

یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا

اس لباس کا کمال یہ ہے کہ اس کا پہنے والا ہمیشہ اس بھرم میں رہتا ہے کہ صرف میں ہی اس حمام میں ملبوس ہوں باقی سب کے سب ننگے ہیں، اور اس کا مظاہرہ اس وقت ساری دنیا میں ہو بھی رہا ہے۔ ہر کسی کو دوسرا ننگا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس حمام بادگرد یا ماڈرن زبان میں پانامہ لیکس یا ننگوں کے کلب میں آئینہ تو ہے کہ جس میں خود کو بھی دیکھ رہاہے لیکن صرف دوسروں ہی کو دیکھ رہا ہے اور ننگا کہہ رہا ہے جب کہ سارے کے سارے

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں

یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں

کی صورت نظر آرہے ہیں۔ دراصل یہ برہنگی بھی ایک بھرم ہی ہوتا ہے ورنہ جو ننگا نہیں ہے وہ بھی دراصل لباس کے نیچے ننگا ہی ہوتا ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سامنے والے بوٹ سوٹ یا خرقہ کرتا ٹوپی اور دستار کے اندر کیا ہے، مادھوری خواہ مخواہ پوچھتی پھرتی ہے کہ چولی کے پیچھے کیا ہے؟ یہ جن جن کو پانامہ لیکس نامی حمام میں ننگا کیا گیا ہے ان کے بارے میں ساری دنیا کو پتہ تھا لیکن اس پر کسی حمام کی مہر تصدیق ثبت نہیں تھی، اب وہ بھی ہو گئی ہے۔

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مہ خانے میں

کرتا ٹوپی خرقہ جبہ مستی میں انعام کیا

پانامہ لیکس میں جو ''انکشافات'' ہوئے ہیں وہ دراصل انکشافات ہیں ہی نہیں اور جو ننگے ہوئے ہیں وہ کبھی ملبوس تھے ہی نہیں اور اگر کوئی ان کے تن پر لباس دیکھتا تھا تو وہ صرف ان کا بھرم اور ''حلالی پن'' تھا۔ حلالی پن دکھانے کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا اور اگر نہیں سنا ہے تو ہم کس لیے ہیں، ابھی سنائے دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ سلامت ۔۔۔ بادشاہ لوگ ہمیشہ ''سلامت'' ہی رہتے ہیں غیر سلامت صرف رعایا ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ''سلامتی'' کے باوجود وہ اپنے اردگرد قلعے کھڑے کرتے ہیں، سنگ وخشت کے بھی اور گوشت پوست کے بھی، فولادی جنگلے، فولادی دیواریں اور فولادی کانٹے دار تاریں تاکہ بادشاہ لوگ سلامت رہیں اور رعایا ان کے ہاتھوں غیر سلامت رہے۔

کبھی کبھار جب رعایا بہت زیادہ غیر سلامت ہو جاتی ہے اور شور مچانے لگتی ہے تو بادشاہ لوگ اپنے سارے گناہوں کو ایک گٹھڑی میں باندھ دیتے ہیں اور اسے کسی ''وزیر'' وغیرہ کے سر پر رکھ کر اسے غیر سلامت اور خود کو سلامت کر لیتے ہیں، ہاں تو وہ جو بادشاہ تھا وہ کچھ زیادہ ہی سلامت تھا اور جتنا سلامت تھا اتنی ہی رعایا اس کے ہاتھوں غیر سلامت تھی اور وہ اپنا دل بہلانے کے لیے طرح طرح کے شوشے چھوڑتا رہتا تھا۔

ایک دن اس کے جی میں آیا کہ ویسے تو میں ہر لحاظ سے بے مثل و بے مثال ہوں لیکن لباس عام پہنتا ہوں۔ مجھے کوئی ایسا لباس بھی پہننا چاہیے جو دنیا میں اور کسی کا نہ ہو، اس نے اپنی مملکت کے سارے جولاہوں کو اکٹھا کر کے ایک جگہ قید کر دیا اور ان کے بال بچے دوسری جگہ یرغمال بنا کر حکم دیا کہ میرے لیے ایسا لباس تیار کرو جو نہ کسی نے پہنا ہو نہ اور نہ پہن سکے، اور اتنی مدت میں اگر تم ایسا لباس نہ بنا پائے تو تم اور تمہارے بال بچے غیر سلامت کر دیے جائیں گے۔ بے چارے جولاہے بہت روئے چلائے گڑگڑائے کہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

لیکن بادشاہ پر کوئی اثر نہیں ہوا، چنانچہ بے چارے جولاہے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اپنے سروں کی ''جوؤں'' کو خوب خوب ایک دوسرے کے سر میں شفٹ کیا تو اچانک سردار جولاہے کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا، پھر اس نے اپنا آئیڈیا دوسرے جولاہوں سے شیئر کیا اور آخر کافی غور و حوض کے بعد اس آئیڈیا کو ''اپیرو'' کر دیا گیا۔ بادشاہ سے مہلت مانگی گئی اور طرح طرح کا سامان منگوایا گیا، منگوایا جاتا رہا اور جولاہوں کے بقول اس نادر و نایاب لباس کی تیاری شروع ہو گئی۔ بادشاہ بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔

آخر کار ایک دن جولاہوں کے سردار نے مژدہ سنایا کہ لباس تیار ہو چکا ہے اور جولاہے چاہتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھوں یہ لباس بادشاہ کے مقدس جسم پر پہنائیں، دن مقرر ہوا دور دور سے عمائدین بلوائے گئے، ایک جشن کا سا سماں تھا کیوں کہ دنیا کی منفرد تقریب ہو رہی تھی جو تاج پوشی کی جگہ ''جسم پوشی'' کا انوکھا موقع تھا۔ مقررہ وقت پر سب اپنی سٹیوں پر بیٹھ گئے۔

آخر کار بصد انتظار دروزہ کھلا اور جولاہوں کا سردار اس شان سے نمودار ہوا کہ دائیں بائیں اس کے سرکردہ جولاہے تھے، درمیان میں سردار جولاہا اپنے ہاتھوں میں ایک منتق صندوق اٹھائے ہوئے چل رہا تھا۔ بادشاہ کے سامنے پہنچ کر اس نے ادب و آداب کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی تقریر میں بتایا کہ وہ دنیا کا سب سے بے مثل و بے نظیر لباس تیار کرنے میں آخر کار کامیاب ہو گئے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ یہ لباس خود اپنے ہاتھوں سے بادشاہ سلامت کو پہنا دوں۔

دربار میں تالیوں کی گونج تھمی تو سردار جولاہے نے وہ بقچہ کھولا اور اس میں سے وہ بے مثال لباس برآمد کیا لیکن لوگوں کو صرف جولاہے کے ہاتھ دکھائی دے رہے تھے جو خالی تھے لیکن وہ خالی ہاتھوں کو یوں حرکت دے رہا تھا جیسے صندوق میں سے لباس اٹھا رہا ہو، پھر اس نے لباس کو ہاتھوں پر لیا اور چاروں طرف گھوم کر دکھایا حالانکہ اس کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہ تھا۔ اس موقع پر اس نے ایک اور چھوٹی سی تقریر کی بولا ، اس لباس کی جو آپ میرے ہاتھوں میں ''دیکھ'' رہے ہیں خاصیت ہی یہ ہے کہ اسے صرف ''حلالی'' لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔

مشکوک ولدیت کے لوگوں کو یہ لباس بالکل بھی نظر نہیں آئے گا، پھر اس نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ''لباس'' کی نمائش کی تو چاروں طرف سے گویا تالیوں شاباش اور اف ہائے کا شور اٹھا، ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر لباس کی تعریف کر کے خود کو ''حلالی'' ثابت کر رہا تھا، بادشاہ نے دیکھا جولاہے کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہ تھا لیکن لوگوں کی تعریفوں اور واہ واہ سے مجبور ہو کر اس نے بھی نعرہ تحسین بلند کر دیا کیوں کہ بھری مجلس میں لباس نہ دیکھ سکنے کا اعلان کر کے وہ اپنی والدہ کے کردار پربٹہ نہیں لگانا چاہتا تھا، پھر جولاہے نے سردربار بادشاہ کا پرانا لباس اتروا کر یہ عجیب و غریب لباس اسے پہنا دیا ۔

آفرین اور واہ واہ سے دربار گونج اٹھا، واہ کیا لباس ہے کیا رنگ ہے کیا روپ ہے کیا سلائی ہے، انکار کر کے کون اپنے والدین کو رسوا کر سکتا ہے۔ یوں اس دن کے بعد بادشاہ ننگاپھرنے لگا اور لوگ اس کے لباس پر تعریف کے ڈونگرے برسانے لگے بلکہ سنا ہے سارے اہل دربار نے بھی جولاہوں کو زرکثیر دے کر اپنے لیے یہ لباس فاخرہ بنوایا، یوں سارا ملک اس لباس میں ملبوس ہو گیا لیکن برا ہو ایک کم بخت کا جس کا نام پانامہ لیکس تھا اور اس نے چیخ چیخ کر اس ''لباس'' کا پردہ تار تار کر دیا۔

مقبول خبریں