سود معاشرے کے بگاڑ کا سبب

عاصمہ عزیز  جمعـء 22 اپريل 2016
سودی نظام انسانی ہم دردی اور مدد  کے اصولوں کے خلاف ہے ۔  فوٹو : فائل

سودی نظام انسانی ہم دردی اور مدد کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ فوٹو : فائل

ربا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی زیادہ ہونا ‘ بڑھنا یا اصل سے زیادہ کے ہیں۔ اردو میں ربا سے مراد سود کے ہیں یعنی وہ متعین اضافہ جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے لیتا ہے۔ اسلام امیر و غریب سب کے لیے یک ساں سلامتی اور خیر کا دین ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں رکھنے کا قائل نہیں۔ اس لیے ہمارے دین میں ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

قرآن پاک میں سود کی حرمت کے بارے میں واضح آیات اور احادیث میں بھی سود کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ سودی نظام انسانی ہم دردی اور مدد کے اصولوں کے خلاف ہے، جس میں ایک فرد یا گروہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے معاشرے کے بے بس افراد کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اس سے غربت میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے، بل کہ بغیر کسی محنت کے سود کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی دولت معاشرے میں حرام مال کے اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سود کسی بھی معاشرے میں ظلم کو جنم دیتا ہے۔ جب مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جانے لگے تو لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے غلط راہ اختیار کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس لیے اسلام ایسے نظام کو حرام قرار دیتا ہے جو لوگوں کے استحصال کا باعث بنتا ہو۔

حصرت عمرؓ نے ربا کے بار ے میں فرمایا کہ آخری چیز جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی وہ ربا کی آیت ہے لہٰذا تم سود کو چھوڑ دو اور اس چیز کو بھی چھوڑ دو، جس میں سود کا شبہہ بھی ہو۔

قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود کو نہ چھوڑنے والا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کر رہا ہے۔ سود کا کاروبار کرنے والے سے اس سے بڑھ کر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی کا اظہار اور کیا ہوگا کہ اس کے لیے جنگ کا لفظ استعمال کیا گیا۔

ہمارا ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دینے والے بنیں۔ کسی کو دیتے وقت اس کی مجبوری سے منافع حاصل کرنے کی بجائے اس سے احسان کا رویہ احتیار کریں۔ جب کہ سود کا نظام معاشرے میں خودغرضی پیدا کرتا ہے۔ اس میں بہ ظاہر دنیا کا فائدہ تو ہے لیکن آخرت میں سود لینے والا ایسے اٹھے گا جیسے دیوانگی کی حالت میں ہو۔ حلال طریقے سے محنت کے ذریعے حاصل کیے جانے والے مال میں اﷲ کی طرف سے برکت پیدا ہوتی ہے جب کہ بغیر کسی محنت و مشقت سے منافع کے طور پر حاصل کردہ مال کبھی نہ کبھی قلت کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بھی اس بارے میں فرمایا جس کسی کا مال سود سے زیادہ ہوگا آخرکار وہ قلت کی طرف جائے گا۔

حضور ﷺ تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپ ﷺ کی امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانیت میں خیر اور بھلائی پھیلانے کا ذریعہ بنیں نہ کہ خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امت مسلمہ ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔