عوامی جمہوریت کی ضرورت

69 سال کے جمہوریت اور غیر جمہوری تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے


Zaheer Akhter Bedari April 23, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: 69 سال کے جمہوریت اور غیر جمہوری تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام جن مسائل کا شکار ہیں ان مسائل کو نہ ہمارا جمہوری نظام حل کر سکتا ہے نہ ان مسائل کو حل کرنا کسی غیر جمہوری نظام کے بس کی بات ہے۔ جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس ایسا کیوں ہے کا ایک مدلل جواب یہ ہے کہ اول تو جس جمہوریت کا ڈھول پیٹتے ہیں وہ سرے سے جمہوریت ہے ہی نہیں بلکہ چند خاندانوں کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو بادشاہی نظام سے بھی بد تر ہے، جمہوری ادوار پر نظر ڈالیں تو ہمیں 1972ء سے لے کر آج تک صرف دو خاندانوں پر مشتمل دو پارٹیاں ہی نظر آتی ہیں جو باری باری حکومت کر رہی ہیں۔

ان باریوں کو جاری رکھنے کے لیے سیاسی گٹھ جوڑ کے علاوہ ولی عہدی نظام کو اس قدر مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اس گٹھ جوڑ کو نہ توڑا گیا تو اس ملک کے 20 کروڑ عوام شاہی خاندان سے کبھی نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ 2008ء سے 2013ء تک پانچ سال ملک پر ایک ایسی حکومت قائم رہی جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ کرپٹ حکومت رہی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس دور کو جمہوریت کا سنہرا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ پہلی بار کسی حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے۔ کیا یہ بات قابل فخر ہے یا قابل شرم ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل کوئی جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کر سکی۔ ان منتخب جمہوری حکومتوں کو محدود کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کیا جاتا رہا۔ 2008ء سے 2013ء تک جمہوری حکومت کا برقرار رہنا جمہوریت کی فتح نہیں کہلاتا بلکہ ''باری باری کلچر'' کی کامیابی کہلاتا ہے۔

دنیا میں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت موجود ہے وہاں اتنا کرم تو بہرحال کر دیا گیا ہے کہ شخصی اور خاندانی حکومت کی باقیات جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن پاکستانی جمہوریت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے سر پر اب تک جاگیرداری کی پگڑی رکھی ہوئی ہے اور یہ دنیا بھر میں مرحوم ہونے کے باوجود ملک پاکستان میں پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہی نہیں بلکہ مضبوط اور مستحکم بھی ہے۔

اس بھان متی کے کنبے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے ایک ایسا انتخابی نظام نافذ کیا گیا ہے جس میں عوام کا کوئی نمایندہ انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس انتہائی غریب اور پسماندہ ملک میں انتخابات لڑنے کے لیے کروڑوں بلکہ اربوں کا سرمایہ چاہیے اور اس ملک کے 90 فی صد غریب عوام کا حال یہ ہے کہ انھیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت یعنی عوام کی حکومت ہوتا ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو کیا ہمارے ملک کے غریب عوام کی نمایندہ حکومت کبھی برسر اقتدار رہی ہے جس میں مڈل یا لوئر مڈل کلاس کا کوئی نمایندہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہا ہو۔

ہمارے ملک کی کل آبادی میں ساڑھے چار کروڑ کے لگ بھگ مزدور ہیں۔ ہمارے ملک میں دیہی آبادی لگ بھگ 60 فی صد پر مشتمل ہے جو زرعی معیشت سے جڑی ہوئی ہے جنھیں ہم ہاری ، مزارع اور کسان کہتے ہیں۔ کیا یہ بھاری اکثریت یعنی مزدور اور کسان پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں کبھی ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم تک رسائی حاصل کر سکی؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اسے کس طرح جمہوریت مان لیا جائے؟ اس جمہوری نظام میں اکثریت کا واحد جمہوری حق صرف اتنا ہے کہ ہر پانچ سال بعد اشرافیہ کے نمایندوں کو ووٹ دے کر انھیں ایوان اقتدار میں پہنچا دے اور خود اپنے مسائل میں اضافہ کرتا رہے۔

ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ملک کی 90 فی صد اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات مضبوطی سے بٹھا دی گئی ہے کہ غریب کا کام صرف امیر کو ووٹ دینا ہے، جب تک 90 فی صد اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات نہیں آتی کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت یعنی غریب عوام کی حکومت ہے غریب صرف امیر کو ووٹ دیتا رہے گا یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے کہ وہ ملک کی اکثریت کو یہ بتائیں کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ملک کے قانون ساز اداروں میں مزدوروں کے نمایندے کسانوں کے نمایندے ڈاکٹروں کے نمایندے انجینئرز کے نمایندے، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، دانشوروں کے نمایندے ہونے چاہئیں تا کہ وہ عوام کے مفاد میں قانون سازی کر سکیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مزدوروں، کسانوں وغیرہ کے وزراء ہونے چاہئیں تا کہ وہ ملک کا نظم و نسق عوامی مفادات کے تناظر میں چلا سکیں۔ اس کا نام جمہوریت ہے۔ اور جو 69 سالوں سے رائج ہے وہ کسی حوالے سے جمہوریت نہیں بلکہ اشرافیہ اور اس کے غلاموں کی ایسی جمہوریت ہے جس کا کام عوامی دولت کی لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس شاہی جمہوریت کی جگہ اصلی عوامی جمہوریت کو لانے کے لیے سب سے پہلے ملک کی 90 فی صد غریب اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانا ضروری ہے کہ وہ اس ملک کے حقیقی مالک ہیں اور دنیا بھر میں جمہوریت کی تعریف کے مطابق حکومت کرنا ان کا حق ہے۔ 69 سالوں سے وہ حکومت کرنے کے بجائے حکمرانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے ہماری جمہوریت اب کھلی بادشاہت میں بدل رہی ہے اور اس بادشاہت کو مضبوط بنانے کے لیے ولی عہدی نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ خود غریب عوام ان ولی عہدوں کی ولی عہدی مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

آج ساڑھے چار کروڑ مزدور غلاموں کی طرح کارخانوں، ملوں میں کام کر رہے ہیں۔ انھیں وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو خود اشرافیائی جمہوریت نے دیے ہیں۔ ملک کی 60 فیصد آبادی پر مشتمل ہاری اور کسان جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلاموں کی طرح زندہ ہیں۔ انھیں کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ وہ غلام نہیں بلکہ آقا ہیں۔ ملک کے قانون ساز اداروں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے انھیں نمایندگی ملنی چاہیے۔ ایک عام تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ غریب طبقات ان پڑھ اور جاہل ہیں وہ حکومت نہیں چلا سکتے، بلاشبہ غریب عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے لیکن انھیں ناخواندہ رکھا گیا ہے، ہمارے ملک میں دہرا نظام تعلیم رائج کر کے غریب طبقات کو کالے پیلے اسکولوں میں وقت برباد کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

جب تک غریب کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے کھلے مواقعے حاصل نہیں ہوتے وہ یقیناً اقتدار میں آنے اور حکومتوں کا کام چلانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی سازشیں ہیں جن کا پردہ چاک ہونا چاہیے اور یہ کام میڈیا، اہل علم، اہل قلم، اہل دانش ہی کر سکتے ہیں اور یہ ان کی ذمے داری ہے۔ کیا یہ محترمین اپنی ذمے داری پوری کر رہے ہیں؟

مقبول خبریں