میں اور میرا مشن

عظیم ایدھی کی زندگی کے اتارچڑھاؤ، انسانی فلاح وبہبود کیلیے مثالی جدوجہد اورسفرِ زیست کے ناقابلِ فراموش واقعات کا احوال


July 17, 2016
عظیم سماجی رہنما کی زندگی کے اُتار چڑھائو، انسانی فلاح و بہبود کے لیے مثالی جدوجہد اور سفرِ زیست کے ناقابلِ فراموش واقعات کا احوال ۔ فوٹو : فائل

یہ تحریرمصنفہ رفعت عباس کی کتاب ''عبدالستار ایدھی'' سے لی گئی ہے۔

میری زندگی کی کہانی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ان واقعات اور حادثات پر مشتمل ہے جو دکھی انسانیت اور مصائب میں مبتلا لوگوں کو پیش آئے ہیں۔ میرا مشن انسان کو دکھ درد سے نجات دلانا ہے اور ان ہی کے لئے کام کرتے رہنا ہے میں اپنی آپ بیتی سے ان دکھی انسانوں کو علیحدہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اپنے مشن کا ذکر کئے بغیر کسی اور ''ایدھی'' کو آپ سے ملوا سکتا ہوں۔



اس آپ بیتی کا مقصد جہاں میری زندگی کے واقعات کا احاطہ کرنا ہے' وہاں میرے مشن کا مقصد اور ایدھی ٹرسٹ کے تما م گوشوں سے آپ کو مکمل آگاہی دلانا بھی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں جس قدر بھی یاد آتا ہے بیان کر دیا ہے' مگر اپنے مشن کے بارے میں تمام تفصیل اور ان کی جزیات سے ایک عام آدمی کو باخبر رکھنا میرا فرض بن جاتا ہے' جو میں اس کتاب کے ذریعے پورا کر رہا ہوں۔ اس طرح میں اور خدمت انسانی کا میرا یہ مشن آپ کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو گا جسے آپ کہیں سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔

غیر ملکی جوڑا:
اٹلی کا ایک نوبیاہتا جوڑا ترکی' افغانستان اور دیگر ممالک کی سیر کرتا ہوا پاکستان پہنچا۔ وہ پہلے بھی پاکستان کی سیاحت کر چکے تھے۔ وہ ایدھی ہوم آئے اور ''اپنا گھر'' میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نوجوان لڑکے کا نام ایدو اور لڑکی کا نام زیگنڈا تھا۔ وہ یہاں کے ماحول سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمان ہو گئے۔ ان کے نام عبداللہ اور فاطمہ ہیں۔ یہ دونوں یہاں نرسنگ کا کام سیکھ رہے ہیںانہیں یہیں وظیفہ بھی ملتا ہے دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔

زکوٰۃ فنڈ کا جائز استعمال:
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ زکوٰۃ فنڈ جائز طریقے سے خرچ نہیں کیا جاتا ہے تو وہ اس کا ایدھی ٹرسٹ کے ذریعے انتظام کروا سکتی ہے۔ اگر حکومت کو اعتبار ہے کہ یہ ٹرسٹ دوسروں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے تو وہ یہ اقدام کر کے دیکھیں۔ انشاء اللہ تین سال کے اندر اس سسٹم کو دنیا کے سامنے مثال بنا کر پیش کروں گا۔ اس سسٹم کے ذریعے آئندہ ایسی صنعتیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔ جس سے غریبوں کو روزگار بھی فراہم ہو اور بیماروں کو ادویات بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ فنڈ غیروں کی فلاح و بہبود' بچوں کی کتابوں اور تعلیم کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

باچا خان امن ایوارڈ:
1991ء میں مجھے باچا خان امن ایوارڈ دیا گیا۔ اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے اجمل خٹک نے کہا تھا کہ ''باچا خان کا نصب العین مخلوق خدا کی خدمت تھا جبکہ مولانا عبدالستار ایدھی بھی مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔''

ایک سازش:
میرے مخالفین نے میرے مشن کو ناکام بنانے کے لئے بہت ساری سازشیں کی ہیں۔ ایک دفعہ انہوںنے یہ افواہ اڑا دی کہ ''میں نے ایک لڑکی کو اغواء کر لیا ہے۔'' اس پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے ان کی مطلق پرواہ نہیں کی میرا دامن صاف تھا اس لئے خدانے میرا ساتھ دیا اور میں اس کٹھن مرحلے سے بھی سرخرو ہوا اور میرے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس واقعے سے مجھے یہ سبق ملا کہ نیک کام کرنے کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

صحیح معنوں میں سوشل ورکر وہ بن سکتا ہے جو بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہو اور نہ صرف ایسے وسائل اس کے پاس ہوں جن سے مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا جا ئے بلکہ اپنا کام جاری رکھنے کا طریقہ کار بھی جانتا ہو۔ اس کام میں بہت ساری پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ لوگ بڑے بڑے دھوکے دینے کے لئے پلان بناتے ہیں۔ حق داروں کا حق خود وصول کرنے کے منصوبے سوچتے ہیں۔ اگر اپنے ذہن کو حاضر رکھا جائے تو ان سے بچ سکتے ہیں وگرنہ یہ راہ بہت کٹھن ہے۔

میری ''گرل فرینڈ'':
1956ء میں مجھے بائی کار لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ استنبول سے لے کر بلجیم تک مجھ سے کسی نے ٹکٹ کا نہیں پوچھا۔ حالانکہ ٹکٹ میرے پاس تھا۔ ترکی میں ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ لڑکی مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی۔

اس نے اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ مگر میں کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کرنا چا ہتا تھا۔ وطن واپس آ کر میں نے بلقیس سے شادی کی جو میری بیوی بھی ہے اور بہت اچھی رفیق کار بھی ہے۔ بلقیس صحیح معنوں میں میری دوست ہے۔ ہم دونوں اپنے اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں ہمیں ایک دوسرے کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ کون کہاں ہے۔ میںنے اپنی بیوی پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔

اکثر بلقیس رفاحی کاموں کے لئے کراچی سے باہر بھی جاتی ہے۔ کراچی میں بھی ہمارا کم اکٹھے مل کر کہیں جانا ہوتا ہے۔ میں عام دقیانوسی شوہروں کی طرح نہیں ہوں جو اپنی بیوی پر پابندیاں عائد کرتے ہیں میں نے خدا سے ایک ہی دعا کی تھی کہ مجھے اچھی اور نیک بیوی عطا کر خدا نے میری دعاؤں کو مستجاب کیا اور میں جیسی شریک زندگی چاہتا تھا وہ مجھے مل گئی۔ وہ بظاہر سادہ نظر آتی ہے مگر بہت ذہین عورت ہے۔ ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے۔ میرے مشن کے بارے میں وہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے۔ اور اس احسن طریقے سے عمل درآمد کر رہی ہے کہ میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔

شادیاں:
سنٹر میں رہنے والی لڑکیوں کی تعلیم اور ذہنی سطح دیکھ کر ان کی شادیاں بھی کردی جاتی ہیں اور انہیں ضرورت کی تمام چیزیں جہیز میں دی جاتی ہیں۔ اب تک سینکڑوں لڑکیوں کی شادیاں کی جاچکی ہیں۔ صرف شادی کرانا ہی ایک کام نہیں ہے۔ شادی کے بعد ان لڑکیوں سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ سسرال والوں اور شوہر کا رویہ اچھا ہوتا ہے تو پھر ٹھیک ہے اگر کسی لڑکی کو اس کے سسرال والے یا شوہر بے جا تنگ کریں تو اس کو دوبارہ ادارے میں بلالیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی شبانہ شادی کے بعد رخصت ہوکر اپنے گھر چلی گئی، کچھ دنوں کے بعد پتہ چلا کہ اس کا شوہر اس کو لاوارث سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ اس بات کی تصدیق ہونے پر اسے اچھی طرح سمجھایا گیا تو وہ سدھرگیا۔ جن میں سدھرنے کا مادہ نہیں ہوتا ان سے لڑکیوں کو علیحدہ کرکے واپس بلالیا جاتا ہے۔

نادان لڑکیاں:
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر انسان کے دل میں موجود ہوتا ہے۔ بعض نادان قسم کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنے شہر سے باہر قدم رکھتی ہیں، جہاں وہ بالکل اجنبی ہوتی ہیں۔ اگر وہ کسی اچھے لڑکے کے ساتھ فرار ہوتی ہیں تو بھی لڑکے کے والدین اس کو اپنے گھر سے بھاگ آنے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے، ایسی لڑکیاں بھی ایدھی ہوم میں پناہ لیتی ہیں مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب ان لڑکیوں کو سمجھا بجھا کر ان کے گھر بھیجا جاتا ہے تو ان کے ماں باپ بھی ان کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ لڑکی اسی دن مرچکی تھی۔ جس دن اس نے باپ کے گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔

میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ جب انہیں یہ بات منظور نہیں ہوتی تو پھر انہیں ایدھی ہوم کے ٹائم ٹیبل اور پروگرام کے مطابق رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اگر مناسب رشتہ ملے تو ان کی شادیاں بھی کردی جاتی ہیں۔

الزامات:
میری آمدنی اور اخراجات کو دیکھتے ہوئے یہ شبہ بھی کیا گیا کہ یہ آمدنی کسی ایسے ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے جس میں کوئی شے خفیہ طریقوں سے بیچی جاتی ہے یا ان کا تعلق کسی ایسے گروہ سے ہے جو انہیں یہ دولت فراہم کرتا ہے، اس کے جواب میں، میں نے کہا تھا کہ وہ کون سی ایسی تہمت ہے، جو اب تک مجھ پر نہ لگی ہو۔ جب میں چند سو کے اثاثے سے لوگوں کی مدد کرتا تھا تو مجھ پر ''چھوٹی چوری'' کا الزام تھا، اب بات کروڑوں تک پہنچی ہے تو بڑے بڑے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے۔ جن کے پاس کوئی کام کرنے کے لیے نہیں ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے بارے میں جو دل چاہتا ہے کہانیاں بناتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ تنہا اپنے لیے کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے لیے کچھ کرنا گوارا کرتے ہیں۔ میں ان سے یہی اپیل کرتا ہوں کہ وہ دنیا میں کوئی ایسا کام کرکے مریں کہ دنیا انہیں اچھے نام سے یاد رکھے۔ مٹھی بھر لوگوں کی باتوں سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ نہ میں اپنا مشن ادھورا چھوڑوں گا جس کا دل جو چاہے کہتا رہے۔ میں اپنے راستے سے نہ ہٹنے کا عزم کرکے چلا ہوں اور اس راستے کی ہر رکاوٹ کو ہٹانا میرا کام ہے۔ اگر میں ایسے لوگوں کی باتوں پر دھیان دیتا تو میں کب کا سب کچھ چھوڑ چکا ہوتا مگر میں نے سوچا ہمت ہارنا مردوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اگر واقعی میں کوئی غلط کام کرتا تو خوف سے چھوڑ چکا ہوتا۔ میں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ معمولی کام نہیں ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کام کرنے والوں کو کسی اور بات کی کیا پرواہ ہوگی۔

اسلحہ سپلائی کا الزام:
ایک نامی گرامی لیڈر نے بیان دیا کہ میں نے سنا ہے کہ ''ایدھی کی گاڑی میں اسلحہ سپلائی ہوتا ہے۔'' کسی نے پوچھا ''کیا تم نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ہے تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہے کہ ایدھی ٹرسٹ کی کسی گاڑی کو معہ ڈرائیور کے اغواء کرکے اس میں اسلحہ لے جایا گیا ہو تو اس کی ذمہ داری ایدھی کے سر پر کس طرح ڈالی جاسکتی ہے۔ بہرحال یہ دنیا ہے یہاں ہر طرح کی باتیں کی جاسکتی ہیں مگر الزامات عائد کرتے وقت یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے۔ یہ بے بنیاد باتیں ہیں۔ جب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو یا کسی نے اپنی آنکھ سے کچھ دیکھا تک نہ ہو، وہ کیسے الزام لگادیتا ہے۔ وہ اخبارات جن میں ایسی ''چٹ پٹی'' خبریں شائع ہوتی ہیں، عوام کے اندر اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ ایسے اخبارات بہت کم ہیں جو اپنا اعتبار اور بھرم قائم رکھنا اپنی پالیسی قرار دیتے ہیں۔

چھ ہزار بچوں کے والدین:
ایدھی ٹرسٹ نے لاوارث بچے ایسے والدین کو دیئے جو بے اولاد تھے۔ بچے ہر والدین کی اولین خواہش ہوتے ہیں۔ مگر خداکی نہ جانے کون سی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے کہ کسی گھر میں تو ایک درجن بچے آنکھ کھولتے ہیں تو کہیں گھر کا آنگن اولاد کی نعمت سے بالکل سونا رہتا ہے۔ شاید مصلحت خداوندی یہی ہے کہ ان بے اولاد لوگوں کو لاوارث بچوں کا رازق اور پالن بار بنائے۔

غربت اور کثرت اولاد کے باعث غریب ماں باپ اپنے بچے ایدھی ٹرسٹ میں دے جاتے ہیں اور کچھ بچے وہ ہوتے ہیں جو محبت کے باعث پیدا ہوتے ہیں اوردنیا انہیں ''ناجائز'' کہتی ہے۔ ان کے ماں باپ انہیں اپنا گناہ سمجھ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ ہم نے ایسے بچوں کے لیے ایک جھولا رکھاہے اور ان کے ماں باپ سے اپیل کی ہے کہ اپنا وہ بچہ اس جھولے میں ڈال جائیں جو انہیں منظور نہیں ہے۔ ایدھی ٹرسٹ بے اولاد اور خواہش مند جوڑوں کے بارے میں پوری جانچ پڑتال کرکے یہ بچے ان کے حوالے کرتا ہے۔ گود لینے والے والدین کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ بچے کو اپنی اولاد سمجھ کر پرورش کریں ورنہ ان بچوں کے لیے ایدھی ٹرسٹ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔



ایک سال کے دوران ایدھی سنٹرز کو 489 نومولود بچوں کی لاشیں فٹ پاتھوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے ملیں، ان میں سے 202 صرف کراچی سے ملیں۔ اس طرح ہر اٹھارہ گھنٹے کے بعد ایک نومولود کا گلا گھونٹ کر ماردیا جاتا ہے۔ ایسے تمام والدین جو کسی وجہ سے بچے کی پرورش نہیں کرسکتے۔ انہیں چاہیے کہ اسے ایدھی سنٹر میں رکھے ہوئے جھولوں میں ڈال جائیں۔ ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ ایدھی سنٹر اب تک بائیس ہزار بچے بے اولاد جوڑوں کو فراہم کرچکا ہے۔

امریکا میں دولت:
یہ بھی کہا گیا ہے کہ میں نے امریکا میں ایدھی سنٹر اس لیے کھولا ہے کہ میں بہت ساری دولت وہاں کے بینکوں میں رکھ سکوں۔ میں تو اپنے آپ پر پیسے خرچ کرنا فضول خرچی سمجھتا ہوں۔ بے شمار دولت میرے کس کام کی ہے۔ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے ہی کرتا ہوں۔ میرا جینا اور مرنا پاکستان میں ہے۔ میں امریکا میں دولت کیوں اکٹھی کروں گا اور یہاں جو دولت بھی اکٹھی ہوتی ہے وہ ایسے فنڈز ہیں جو میرے پاس غریبوں کی امانت ہیں۔ اگر کسی کومیرے اثاثوں کے بارے میں کوئی شک ہے کہ میں نے ملک میں یا ملک سے باہر اپنی جائیداد بنالی ہے تو وہ ثبوت فراہم کرے۔ میری ذات اور میرا سماجی خدمت کا کام سب کے سامنے ہے۔ اس میں کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی چور رستہ رکھا ہے کیونکہ میں نے صرف اور صرف انسانی فلاح کا کام ہی کرنا ہے اور آ خری سانس تک یہی کرتا رہوں گا۔

ایدھی ٹرسٹ کو ہر دور حکومت میں سینکڑوں ایکڑ اراضی کی پیشکش کی گئی مگر میں نے اسے شکریے کے ساتھ رد کردیا ورنہ آج ہم ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہوتے۔ ہم نے جو کچھ بھی حاصل کیا، عوام کی دی ہوئی دولت سے خریدا ہے۔ ہم نے لوگوں سے رعایتی قیمت پر پلاٹ حاصل کیے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ پلاٹ نیک مقاصد کے لیے استعمال ہوں گے۔

برطانوی پادری کا عطیہ:
برطانیہ کے ایک رومن کیتھولک پادری نے ایدھی ٹرسٹ کو ایک ہزار پاؤنڈ کا چیک بھیجا جسے برطانوی ہائی کمیشن کے نمائندے نے میرے حوالے کیا۔ یہ عطیہ برطانوی صحافی اناٹول لیون کے ایک مضمون سے متاثر ہوکر دیا گیا تھا جو اس نے پاکستان کے دورے کے موقع پر ایدھی ویلفیئر سنٹرز کے مختلف مراکز کا جائزہ لے کر تحریر کیا تھا۔ انہوں نے میرا اور بلقیس کا انٹرویو بھی لیا تھا۔ یہ مضمون ایک برطانوی جریدے میں شائع ہوا تھا۔

ایک پیشکش:
میں نے حکومت کو اپنے چند رضاکاروں اور ڈاکٹرز کے ساتھ عراق جانے کی پیشکش کی تھی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ عراق اور اتحادیوں کی جنگ میں کتنے بے گناہ انسان زخموں سے چور ہوئے ہیں۔ خلیج کی زمین پر مستقل بارود کے بادل چھائے رہے۔ شہروں کی روشنیاں اندھیروں میں بدل گئی تھیں۔ اس تباہی کا کون ذمہ دار تھا جو انسانوں پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ کسی کا باپ نہ رہا۔ کسی کا بیٹا اور کسی کا شوہر نہ بچا تو کسی کا پورا کنبہ ہی خاک و خون ہوگیا۔ بلندو بالا عمارتیں خاک کا ڈھیر ہوگئیں۔ انسانیت کی اس تباہی پر کون سی ایسی آنکھ ہے جو خون کے آنسو نہ روئی ہو۔ مگر یہ کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ وہاں زخموں سے چور لوگوں کے جسموں پر مرہم رکھتے۔ میری یہ خواہش تھی کہ میں وہاں جاکر انسانیت کے رشتے کا حق ادا کروں۔

''پکار'':
میں نے زندگی میں سینما پر پہلی فلم سہراب مووی کی ''پکار'' دیکھی تھی یا جب ڈھاکہ گیا تھا تو وہاں ہوٹل میں ٹی وی پر ایک فلم دیکھی تھی ''زرقا''۔ مجھے فلم دیکھنے کا شوق ہے نہ ٹی وی۔ میرے ذہن کے پردے پر وہ تمام حادثات فلم کی صورت چلتے رہتے ہیں جو زندہ انسانوں کو پیش آتے ہیں۔ اس لیے مجھے فلم دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

ملیشیا پوش:
میرا لباس اور وضع قطع دیکھ کر لوگ مجھے ''ملیشیاء پوش'' کہتے ہیں۔ میرے پاس کل تین جوڑے ہیں۔ ہر ہفتے ایک جوڑا تبدیل کرتا ہوں۔ تین چار ماہ بعد ڈاڑھی بنواتا ہوں پلاسٹک کی چپلی استعمال کرتا ہوں جو ڈیڑھ سال تک چلتی ہے۔ میرا کوٹ اور ٹوپی نصف صدی پرانا ہے۔ میں نے انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انسان کو صرف صاف ستھرا لباس چاہیے۔

پاکستان میں اب کوئی جگہ ایسی نہیں ہے، جہاں ایدھی سنٹر نہ ہو، میں ابھی چترال سے لوٹا ہوں، جہاں میں ایک ایمبولینس سنٹر قائم کررہا ہوں۔ میں دیر میں بھی ایک سنٹر بنارہا ہوں اور جلد ہی ایک سکردو میں اور شاید سیاچن میں بھی بناؤں۔ اس مقصد کے لیے چترال میں زمین الاٹ ہوچکی ہے اور میں نے اسی لاکھ روپے جمع کرلیے ہیں جس سے وہاں بلقیس ایدھی سنٹر قائم کیا جائے گا۔ جس میں معذور بچوں کے لیے بھی سہولتیں موجود ہوں گی۔ میں نرسوں کا ایک گھر بھی قائم کررہا ہوں اور انشاء اللہ یہ سب کچھ بہت کم عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

جہاں تک میرا خیال ہے فلاح کا تعلق ہمیشہ لوگوں سے ہوتا ہے۔ حتی کہ مغرب میں بھی نجی شعبہ ہی اس قسم کی چیزوں کو سنبھالے ہوئے ہے، مثال کے طور پر ریلوے، ٹیلیفون، ذرائع رسل و رسائل، سکول وغیرہ یہ سب کچھ حکومت نے لوگوں کو دیا ہوا ہے۔ وہ خود انہیں نہیں چلاتی اور اس کے دو فائدے ہیں۔ لوگ اپنے معاملات کا انتظام کرنے کی ذمہ داری خود حاصل کرلیتے ہیں دوسرے اس سے صحت مند مقابلہ ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کو فلاح عامہ کا کام دے دیا جائے تو یہ شعبے بلاشبہ ترقی کریں گی۔ پچھلی حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کو میں نے یہی تجویز پیش کی تھی اور موجودہ حکومت کے ارکان سے بھی یہ بات کہتا ہوں۔



ہمیں مختلف حلقوں سے ہمیشہ تعاون حاصل ہوا ہے اور امید ہے یہ جاری رہے گا۔ اس ضمن میں پولیس خصوصی تذکرے کی حقدار ہے۔ وہ ہمیشہ حد سے زیادہ مددگار ثابت ہوئی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی کیا کہتا ہے یہ میرا اپنا تجربہ ہے، ہمارا ان سے قریبی تعلق رہتا ہے۔ اگر کبھی کوئی عورت مدد کے لیے پولیس سٹیشن آئی تو وہ فطری طور پر سوچتے ہیں۔ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں، ہم ان کے لیے ایسی صورتحال میں کیا پسند کریں۔ چنانچہ وہ انہیں نوکر شاہی کا شکار اور انہیں مشکلات کا نشانہ بنانے کے بجائے ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں اس اعتماد کے ساتھ کہ ان عورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ اس طرح اگر آدھی رات کو کوئی حادثہ ہوتا ہے یا انہیں سڑک پر کوئی لاش ملے یا دریا سے کوئی لاش نکالی جائے، وہ اسے ہمارے پاس لے آتے ہیں اور ہم مل کر اس سے نپٹتے ہیں۔ اس پر یقین کرنا مشکل ہے لیکن میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی آفت رسیدہ پولیس تھانے تک پہنچا ہے تو پولیس والوں نے اپنے فرائض سے بڑھ کر اس کی مدد کی ہے۔ ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔

پولیس کے علاوہ ایک اور گروپ جس نے مسلسل مدد کی ہے۔ وہ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ہیں۔ ان لوگوں کی مددسے اور عوام کے تعاون سے ہم جو نظام قائم کررہے ہیں۔ وہ ناکام نہیں ہوسکتا۔ پچھلی نسلوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ اس وجہ سے ہم آج اس مشکل صورتحال کا شکار ہیں لیکن اگر ہم اب کچھ کریں گے تو شاید ہمارے بچے بہتر زندگی حاصل کرسکیں۔

چھوٹی بیٹی الماس کی چند برس قبل شادی کردی تھی۔ اس کے دو بچے ہیں۔ اس سے بڑی بیٹی کبریٰ ہے۔ اس کی بھی شادی کی تھی مگر شوہر سے نبھ نہ سکی اور اس کی طلاق ہوگئی۔ اس کا ایک بچہ تھا وہ بھی فوت ہوگیا۔ ویسے تو میں چاروں بچوں کو بہت پیار کرتا ہوں، مگر کبریٰ سے کچھ زیادہ پیار اس لیے ہے کہ کبریٰ مظلوم ہے۔ دنیا میں عورت کے لیے دو طرح کی موت ہے۔ ہمارے سماج میں وہ عورت جو مرد پر زیادہ انحصار کرتی ہے اس کی پہلی موت اس وقت واقع ہوجاتی ہے جب اسے طلاق ہوجائے۔ مردوں، عورتوں کو کسی بھی حالت میں آپس میں نبھانا چاہیے اور طلاق سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے ورنہ گھر برباد ہوجاتے ہیں۔

گڑجیسی بات:
بعض مرد عورت کو آواز تک نکالنے نہیں دیتے، انہیں اپنی کنیز بناکر رکھتے ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر گھر کی عورت مرد کو روکے ٹوکے نہیں تو وہ کبھی پروگریسو نہیں بن سکتا۔ اس صورتحال میں مجھے ان کا باغی ہوجانا اچھا لگتا ہے۔ اگر کبھی بلقیس ناراض ہوجاتی ہیں تو میں اس کے پیچھے بھاگتا ہوں کیونکہ اب میں ایسی عورت کہاں سے لاؤں گا۔ یہ ناراض ہوجائیں تو میں بہت بور ہوجاتا ہوں پھر انہیں مناتا ہوں کہ غلطی میری تھی اس لیے معاف کردو۔ البتہ جب میں کسی کی مدد کرنے میں دیر کردیتا ہوں یا کسی کو ڈانٹ دوں تو یہ ناراض ہوجاتی ہیں۔

یہ کہتی ہیں ''بھئی کسی کو گڑنہ دو مگر گڑ جیسی زبان تو دو۔'' میرے کام بہت ہوتے ہیں جب کوئی میری بات پر یقین نہیں کرتا تو نفسیاتی طور پر غصہ آجاتا ہے۔ میری تعلیم کچھ نہیں ہے۔ لیکن تجربات نے چوالیس سال میری تربیت کی ہے، ہم معاشرتی نظام کو تعلیمی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سکول سے بہتر یہ عملی تربیت ہے۔ میری یہ آرزو ہے میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوںکہ مجھے کوئی تکلیف نہ دینا اور اگر دو تو صبر اور برداشت کا مادہ ضرور دینا۔ میں نے بارہ سال پہلے ہوائی جہاز کا سوچا تو بہت ہنسی آئی کہ جیب میں پیسے نہیں تو ہوائی جہاز کہاں سے آئے گا لیکن خدا کا شکر ہے اب ہوائی جہاز ہے، ہیلی کاپٹر ہیں۔

ہمیں حکومت کی طرف سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں۔ پورے پاکستان میں وائرلیس سسٹم ملٹری کے پاس ہے یا دوسرے نمبر پر ہمارے پاس۔ نہ میں حکومتی امداد کا قائل ہوں۔ نہ میں شخصی مدد پر یقین رکھتا ہوں لیکن اشد ضرورت ہو تو لے لیتا ہوں جیسے نواز شریف صاحب سے طیارہ لیا تھا۔ حکومت کی مدد اس لیے نہیں لینا چاہتا کہ مجھے فکر رہتی ہے کہ اگر میری کارکردگی کم ہوگی تو لوگ مدد نہیں کریں گے۔ عوام کی خدمت کرتا ہوں تو عوام کو ہی تیار کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لیے میری معاونت کریں۔

عرب ممالک کو زمین سے کتنا خزانہ ملا، جسے انہوں نے تجوریوں میں بھرا۔ میں نے پچیس سال پہلے بھی انہیں لکھا کہ اس دولت کا استعمال کریں۔ اسے غریبوں کو بانٹیں، میرے خیال میں بڑے لوگوں کا نچلا سٹاف ان تک خط پہنچنے ہی نہیں دیتا اور جب دولت مندوں کی دولت خدا چھین لیتا ہے تو عاجزی کرتے ہیں جیسے امیر کویت کررہاتھا۔ دوسروں سے عبرت لینا چاہیے کہ دولت کو تقسیم کریں تم کفن کے علاوہ اور کیا ساتھ لے جاؤگے؟

میری بیوی بھی کہتی ہے کہ جب ہم ایک اچھا معاشرہ بنالیں تو لوگ کیوں نفرت کریں گے، دراصل یہ سب معاشرے کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر ہم عورتوں کے حقوق دیں گے تو یہ معاشرے کو فعال بناسکتی ہیں۔ ہم نے لڑکیوں کو کمزور بنارکھا ہے کہ اگر یہ طاقت ور ہوجائیں گی تو ہم پر حاوی ہوجائیں گی اور ہم نکمے رہ جائیں گے۔ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرد بھی کماتا ہے اور عورت بھی کماتی ہے۔

ہم نے چوالیس سال میں اپنا اعتبار قائم کیا ہے۔ ہم کام کرتے ہیں، شوشا نہیں کرتے، جبکہ لوگ جب کام شروع کرتے ہیں تو آفس لیتے ہیں، افتتاحی تقریبات کرتے ہیں، اخبارات کو اطلاع کرتے ہیں، ہم نے اعتماد دیا ہے اور آج لوگ ایدھی فاؤنڈیشن کے بجائے عبدالستار و بلقیس ایدھی کے نام لاکھوں روپے کے چیک بھیج دیتے ہیں۔ ہم آج بھی 90 سالہ پرانی بلڈنگ میں رہتے ہیں۔ میں سادگی اپنانے کا کہوں گا، پیسہ بچائیں، پانچ کے بجائے دو سگریٹ پئیں، چائے کا ایک کپ کم کردیں، سال میں چھ سوٹ بناتے ہیں تو پانچ بنائیں اس طرح چھوٹی چھوٹی مدد کریں تو ایک ویلفیئر سوسائٹی وجود میں آسکتی ہے۔

جب میں ایک زخمی آدمی کو سڑک سے اٹھاؤں گا تو اس سے یہ تو نہیں پوچھوں گا کہ تو کس فرقہ برادری یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے؟ وہ ایک انسان ہے اور مجھے اس کی جان بچانی ہے اس لیے کہ خدمت کا کوئی مذہب وطن یا برادری نہیں ہوتی! یہ ابن الوقت قسم کے جو لوگ ہیں انہوں نے اللہ کے احکامات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے اور اس طرح سے انہوں نے انسانیت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے حالانکہ یہ اگر کھلے دل اور وسعت قلبی سے کام کریں تو مجھ سے کہیں زیادہ اچھی طرح کام کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس مجھ سے بہتر وسائل، دماغ اور تعلیم ہے۔

غیر ملکی صحافی مجھ سے یہی کہتے ہیں کہ آپ اتنے وسیع پیمانے پر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں کہ آپ میت کو بیچتے ہیں جبکہ یقین مانیں مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میت (مردہ) بکتی بھی ہے۔ دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ''اپنا گھر'' میں مریضوں کو بہت مارا جاتا ہے ابھی پچھلے دنوں میں کورٹ میں ایک لڑکی کی ضمانت دینے گیا تو ایک خاتون جج نے مجھ سے کہا کہ ایدھی صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ کے ہاں بہت ظلم کیا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ظلم کی تعریف بتائیں؟ کہ کس طور کا ظلم ہوتا ہے؟

تو اس کے بعد وہ بولیں کہ جی میں نے تو سنا ہے جس پر میں نے اس سے عرض کیا کہ باہر ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ عدالتوں میں غریب لوگوں پر بہت ظلم ہوتا ہے، غریب کے پاس وکیل نہیں ہے، وہ بے گناہ کو پھانسی دے دیتے ہیں، رشوت کھاتے ہیں، تو خاتون بیچ میں بولیں کہ آپ سے یہ کس نے کہا ہے؟ میں نے جواب دیا بھئی میں نے سنا ہے'' پھر میں نے کہا کہ آپ وسیع سوچ پیدا کریں اگر ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی سنی سنائی باتوں پر یقین کریگا تو پھر کام کس طرح ہوں گے۔ ہم ہر طریقے سے معاشرے کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمارا تو پہلا اصول یہی ہے کہ ''محبت سے کام لیں'' ہمارے ہاں چونکہ زیادہ سٹاف نہیں ہے تو ایسے مریض جو ٹھیک ہوجاتے ہیں مگر ان کے گھر والے یا سرپرست انہیں قبول نہیںکرتے تو ہم ایسے مریضوں کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ بعض مریضوں پر سختی کرنی پڑتی ہے۔

پاگل مریض جب کسی کو کاٹتا ہے تو اسے کمرے میں بند کردیتے تھے مگر وہ اپنا سر دیواروں سے مارتا تھا۔ اس لیے میں نے بیس ایکڑ پلاٹ پر چار دیواری بناکردی۔ اس میں مریضوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ جہاں تک نشے کا تعلق ہے تو میں نے دس سال پہلے کہا تھا کہ ہیروئن کا کوئی علاج نہیں ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ''شراب چھوڑ دو، سب نے چھوڑ دی'' اس وقت کوئی جناح، سول یا ایدھی کا ہسپتال نہیں تھا۔ قوت ارادی سے انہوں نے اسے چھوڑا۔ ایک آدمی نہ جانے کتنے استحصال کے بعد برائی کو اپناتا ہے اور برائی اپنانے کے بعد نہ جانے کتنوں کا استحصال کرتا ہے۔ بہنوں کا جہیز بیچتا ہے اور بہت سی تکلیفیں پہنچاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک شخص اپنے قرضے سے تنگ آکر بچوں سمیت خودکشی کرنا چاہتا تھا میں نے کہا کہ میں تمہیں کچھ پیسے دیتا ہوں تم لاہور جاکر بال پین وغیرہ فروخت کرو کیونکہ حضورؐ نے فرمایا کہ تکلیف میں جگہ تبدیل کردو۔ یہ ہماری سنت ہے اور ہمارے مذہب کی فطرت بھی۔

ہماری تنظیم ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کے قیام سے قبل ٹریفک کے حادثات کے دوران خاص طور پر ایسی لاشیں جو کہ مسخ شدہ ہوتی ہیں اور جنہیں اٹھانے کے لیے یا ہسپتال پورٹ مارٹم کے لیے پہنچانے کی غرض سے پولیس کو خاکروبوں کو تلاش کرنا پڑتا تھا یا پھر حادثات میں ہلاک شدگان کو سڑک سے گزرنے والے ترس کھا کر ہسپتال میں پہنچا دیا کرتے تھے یا پھر اکثر منہ موڑ کر محض اس بناء پر گزر جایا کرتے تھے کہ وہ اس زخمی یا لاش کو ہسپتال پہنچائیں گے تو وہاں پر پولیس انہیں تنگ کرے گی۔

اس وجہ سے زخمی افراد کسی بھی امداد سے قبل ہلاک ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ ہمارے کسی بھی نزدیکی سنٹر میں ایک ٹیلیفون کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ چند ہی منٹوں میں ہمارے رضا کار وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں۔ پولیس بھر پور تعاون کرتی ہے۔ ہمارے رضاکاروں کو عدالتی یا قانونی امور میں مجبور نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کے اخبارات ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور میرے اس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے پریس (اخبارات) کا کردار زیادہ مثبت ہے۔ جنہوں نے حقائق پر مبنی خبریں، تفصیلی رپورٹیں اور مضامین شائع کیے جس کے باعث لوگوں کو یہ اندازہ کرنے میں خاصی مدد ملی کہ مولانا عبدالستار ایدھی کون ہے؟ اور کیا کام کررہا ہے؟

لاہور میں جو حوصلہ افزائی لاہور والوں نے کی وہ آج تک کسی نے نہیں کی۔
میں اپنی موت کے بعد بھی انسانیت کی خدمت کی خواہش رکھتا ہوں اور میری آرزو ہے کہ میرے انتقال کے بعد میرا بے جان جسم بھی انسانوں کے کام آئے۔ اس کے لیے میں نے وصیت کی ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا جسم کسی بھی میڈیکل کالج کو دے دیا جائے۔ جہاں میرے جسمانی اعضاء کسی ضرورت مند کے کام آسکیں۔

اب تو میری یہی خواہش ہے کہ ملک میں پچاس کلو میٹر کا پراجیکٹ مکمل ہوجائے۔ سوچتے سوچتے اور کام کرتے کرتے اب ہم منزل کے قریب آچکے ہیں۔ میرے خیال میں ہم یہی کام مکمل کرلیں تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت بڑا سرمایا ہوگا اور ہمارے ملک میں سیاسی اور مذہبی گروہ بندی سے بلند انسانی اورسماجی خدمت کا ایک پلیٹ فارم مہیا ہوجائے گا۔

اس سماج میں دو طبقے بڑے خوش قسمت ہیں ایک لکھنے والا اور دوسرا بولنے والا۔ انہیں تو بس لکھنا اور بولنا ہے۔ ہمیں بھی لکھنے یا بولنے والا ہونا چاہیے۔ شاید میں نے غلط میدان کا انتخاب کرلیا کہ انسانیت کی خدمت کے لیے عملی کام کی راہ چن لی ہے اس کے باوجود جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں۔ وہ میرے کام کی افادیت سے آگاہ نہیں۔ ایک دن خاوند کی ستائی گجرات کی ایک عورت اپنے تین بچوں کے ساتھ میرے سنٹر میں آئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لوگوں کو فریاد کرنے کی ایک جگہ تو مل گئی۔ تھانے اور عدالتوں کا ایک طویل مرحلہ وار سلسلہ ہے۔ میں نے لاوارثوں اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے لیے ایک ٹھکانے کا تصور تو دے دیا ہے۔ اب کوئی جو کچھ لکھتا ہے لکھتا رہے اور جوکوئی بولتا ہے بولتا رہے۔ تھانہ عدالت بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ معاشرے کے زخموں کا علاج نہیں ہیں۔

مقبول خبریں