’’موچی ہونے پر شرم نہیں آتی، بہت خوش ہوں اپنا کام کرتا ہوں، نوکری تو غلامی ہوتی ہے‘‘

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 2 دسمبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 وہ صبح سویرے اپنے کام پر پہنچ جاتا ہے۔ اپنی دکان سجا نے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگتی۔

سب سے پہلے وہ جھاڑو دیتا ہے۔ پانی چھڑکتا ہے اور پھر اپنا چوبی صندوق کھول کر بیٹھنے کے لیے ایک گدی رکھتا، اوزار لگاتا اور پھر گاہکوں کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔ مختلف رنگوں کی پالش کی ڈبیاں، برش، دھاگے اور چرمی ٹکڑے، چھوٹی بڑی کیلیں، دھاگا اور اُس پر لگانے کے لیے موم، ہتھوڑی اور تین مڑی ہوئی ٹانگوں والا آہنی شکنجہبس یہی ہے اس کی دکان۔ اسے آپ دکان نہیں، ٹھّیا کہیں، سڑک کے کنارے بیٹھا ہوا یہ جوانِ رعنا، نعمت اﷲ خان ہے۔ ہنستا مسکراتا اور شرمیلا ، وہ لوگوں کے جوتے پالش کرتا اور ان کی مرمت کرتا ہے اور خوش ہے۔

مجھے تم سے باتیں کرنی ہیں، وہ مسکرایا اور شرما کر بولا، صاب! کیا بات کرنی ہے؟ جوتے پالش کرانا ہیں تو بتاؤ۔

نہیں، مجھے جوتے پالش نہیں کرانے بس گپ شپ کرنی ہے۔

صاب آپ کیوں مذاق کرتا ہے۔ ہم یہاںگپ بازی کے لے نہیں ،کام کرنے بیٹھا ہے، دو پیسے کمانے بیٹھا ہے۔ یہاں کس کو فرصت ہے گپ شپ کرنے کا۔

مجھے واقعی تم سے گپ شپ کرنی ہے۔ تم سے کچھ پوچھنا ہے بس ویسے ہی کہ کیسی ہے زندگی، کیسے بن گئے موچی، بیمار اور بے کار جوتوں کو تم ایک دم نیا اور خوب صورت بنا دیتے ہو، واہ کیا کمال کے ڈاکٹر ہو تم۔

وہ بالکل سنجیدہ ہوگیا، مسکراہٹ غائب ہوگئی اور مجھے گھُورنے لگا۔

مجھے تم سے بالکل بھی ڈر نہیں لگ رہا،

یہ سنتے ہی وہ ہنسنے لگا۔ پھر بے تکلفانہ باتیں، دل کی باتیں، سماج کی گھاتیں اور روز و شب کی وارداتیں۔

نعمت اﷲ خان نے اپنی کتھاکہانی شروع کی۔ وہ ہماری طرح گھما پھرا کر بات نہیں کرتا۔ سیدھی سادی اور کھری بات۔

صاب ہم پانچ بھائی ہیں، میں سب سے بڑا ہوں۔ باجوڑ ایجنسی کا رہنے والا ہوں۔ میری عمر بیس سال ہوگئی ہے۔ میرے والد صاب بھی موچی ہیں۔ والد صاب تو مزدوری کے لیے کراچی میں ہوتے تھے اور ہم گاؤں میں۔ انھوں نے مجھے اسکول میں داخل کیا۔ ہمارا اسکول بہت اچھا تھا۔ استاد بھی بہت محنتی تھے۔ میرا پڑھائی میں دل تو نہیں لگتا تھا، لیکن میں اسکول جاتا ضرور تھا۔

میں ساتویں جماعت میں تھا کہ گاؤں میں باہر سے اسلحہ بردار اجنبی لوگ آنے لگے۔ وہ جہاد کی باتیں کرتے تھے اور کہتے اسلام اور کافروں کی جنگ ہے ہمارا ساتھ دو۔ آہستہ آہستہ وہ ہر جگہ قابض ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنا ہی قانون بنالیا تھا اور اسے وہ اسلام کہتے تھے۔ وہ بہت طاقت ور لوگ تھے۔ ان کے پاس بہت ہتھیار تھے۔

وہ روانی سے بولے چلا جا رہا تھا کہ میں نے اس سے پوچھا۔ تم کن اسلحہ برداروں کی بات کر رہے ہو، کون لوگ تھے وہ ۔ قبضہ کیسے کرلیا انہوں نے؟

صاب آپ اتنا بھی نہیں جانتے وہ طالبان تھے ۔

وہ واقعی طالبان ہی تھے؟ میں نے پوچھا۔

وہ تو اپنے آپ کو طالبان ہی کہتے تھے، اب تھے کون ؟ پتا نہیں۔ وہ کہتے تھے ہر کام شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ وہ بہت غصے والے تھے۔ لوگ ان سے بہت ڈرتے تھے۔ بس ایک طرح سے ان کی حکومت تھی۔ وہ جو چاہتے کرتے تھے۔ وہ بچوں کے اسکول جانے پر بھی غصہ کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سارے اسکول بھی تباہ کردیے تھے۔ وہ کہتے تھے سب کچھ چھوڑ کر اسلام کا ساتھ دو، ساری دنیا میں جہاد ہم پر فرض ہوگیا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ اسکول میں بچوں نے آنا چھوڑ دیا۔ استاد بھی نہیںآتے تھے۔ پھر میں نے بھی چھوڑ دیا اسکول جانا۔ جب گاؤں میں یہ حالات ہوگئے تو لوگ کہتے تھے، انقلاب آگیا ہے۔ مجھے تو نہیں پتا کہ کیا ہوتا ہے انقلاب۔ بہت سارے نوجوانوں کو وہ اپنے ساتھ لے بھی گئے، انہیں اسلام کا مجاہد بنانے کے لیے۔ تو میرے والد کو میری فکر ہوئی تو انھوں نے مجھے کراچی بلالیا۔ اور میں کراچی آگیا۔

کب آئے تھے تم کراچی، اور پھر کیا کرتے تھے؟

اس نے بہت سوچنے کے بعد کہا

مجھے کراچی آئے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں۔ ہم سلطان آباد میں رہتے ہیں۔ پھر مجھے والد نے کام سکھانا شروع کیا۔ وہ اپنے ساتھ مجھے کام پر لے کر آتے تھے اور میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا، آہستہ آہستہ میں کام سیکھ گیا، لیکن مجھے ڈرائیونگ کا شوق تھا تو والد نے میرا یہ شوق بھی پورا کردیا۔ میرے والد 1988ء میں کراچی آگئے تھے ۔ گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ صرف والد کماتے تھے اور ہم پانچ بھائی اور والدہ گاؤں میں کھاتے تھے۔

جب میں یہاں کراچی آیا تو والد صاب نے کہا اب تم یہ کام سنبھالو اور میں کوئی اور کام کرتا ہوں۔ انھیں تھوڑا بہت پلمبر کا کام آتا تھا۔ پھر وہ پلمبر کا کام کرنے لگے۔ لیکن بات وہی کہ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا تو کسی نے انھیں مشورہ دیا کہ تم سعودی عرب جاؤ۔ بس انہیں سعودی عرب جانے کا شوق ہوگیا پھر وہ سعودی عرب چلے گئے اور میں یہاں اکیلا رہ گیا۔ اب میں ان کی جگہ بیٹھ کر کام کرتا ہوں۔

کیسے چلے گئے وہ سعودی عرب، کسی کمپنی نے بلایا تھا انہیں؟ میں نے تفصیل جاننا چاہی۔

صاب! آپ بھی اتنا سارا پوچھتا ہے۔ ابھی تو آپ کہہ رہا تھا گپ شپ کرو، ابھی یہ سب کچھ پوچھ رہا ہے۔

مجھے ہنسی آگئی تو وہ بھی ہنسنے لگا۔ دیکھو نعمت خان یہ گپ شپ ہی تو ہے۔ ہاں تو والد صاحب کیسے گئے سعودی عرب؟

میرے والد کو کسی کمپنی نے تو نہیں بلایا وہ آزاد ویزے پر گئے ہیں۔

کیا مطلب آزاد ویزا؟ میں نے پوچھا۔

آپ بھی بہت کم عقل ہے صاب! پیسوں کا ملتا ہے، آپ لو اور سعودی عرب جا کر جو کام ملے کرو۔ بس یہ ہوتا ہے آزاد ویزا۔

کتنے کا ملتا ہے آزاد ویزا؟

میرے والد نے تو پانچ لاکھ روپے دیے تھے ۔

کیا تمھارے والد کے پاس پانچ لاکھ روپے تھے؟

اگر ہمارے پاس پانچ لاکھ روپے ہوتے تو ہم امیر نہ ہوتے، نہیں تھے ناں ہمارے پاس۔ والد نے کچھ رشتے داروں سے، دوستوں سے ادھار لیے اور سعودی عرب چلے گئے۔ اب وہ کمائیں گے اور پہلے پانچ لاکھ روپے کا قرض اتاریں گے، پھر ہمارے لیے بھی کچھ بچ جائیں گے۔ بس دعا کرو صاب کہ وہ قرض اتار سکیں۔

نعمت خان پھر تم نے والد کی جگہ کام شروع کردیا پھر کیا ہوا؟

پھر کیا ہونا تھا صاب۔ بس ذمے داری پڑ گئی، پہلے ہنستا تھا لیکن سوچتا کچھ نہیں تھا، اب ہنستا تو ہوں لیکن سوچتا بھی بہت ہوںکہ کیسے ادا ہوگا یہ اتنا سارا قرضہ، گاؤں بھی پیسے بھیجنے ہوتے ہیں۔ اب تھوڑا تھوڑا میں پریشان ہوتا ہوں۔ پہلے مجھے فکر نہیں تھی۔ والد صاب پہلے آجاتے تھے کام پر اور میں بہت دیر سے آتا تھا۔ کوئی فکر نہیں تھی ناں، اب میں صبح سات بجے سلطان آباد سے نرسری آتا ہوں۔ بس آٹھ بجے کام شروع کردیتا ہوں ، محلے میں تو دکان نہیں ہے، میں تو سڑک پر بیٹھا ہوں دفتر میں جو لوگ آتے ہیں بس وہی میرے گاہک ہیں۔

تمھارے گاہک تو پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ پھر تو پیسے بھی اچھے ملتے ہوں گے اور وہ تمہاری تعریف بھی کرتے ہوں گے؟

چھوڑو صاب، کیا پڑھا لکھا سب ایک برابر ہیں، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اچھے ہوتے ہیں۔ ورنہ تو سب مغرور ہیں۔ کام چاہے جتنا اچھا کروں، کوئی نہ کوئی نقص نکالتے ہیں۔ پیسے دینے میں بھی بحث کرتے ہیں۔ لیکن اب میں عادی ہوگیا ہوں ۔ پروا ہی نہیں کرتا۔ کوئی زیادہ بولتا ہے تو کہہ دیتا ہوں کسی اور سے کام کراؤ، ابھی کچھ دن پہلے ایک صاب آیا تھا، کہنے لگا اچھی طرح پالش کرنا میرا بہت منہگا بوٹ ہے۔ تو مجھے ہنسی آگئی کہ یہاں بوٹ کو چمکاتے ہیں، اپنا منہ نہیں دھوتے۔ انسان کو مارتے ہیں اور بوٹ چمکاتے ہیں۔ پتا نہیں کیسے ہیں ہم لوگ۔

نعمت خان تم پڑھ نہیں سکے۔ افسوس ہوتا ہوگا ناں تمہیں؟

ابھی تو میں جوان ہوں صاب، اتنی ذمے داریاں بھی نہیں ہیں، ابھی تو والد سر پر ہیں، ہم سب ساتھ رہتے ہیں، لیکن جب میری شادی ہوجائے گی۔ مجھ پر ذمے داری پڑ جائے گی اور مجھے بہت محنت کرنا ہوگی۔ تب مجھے بہت افسوس ہوگا کہ اگر پڑھ لیتا تو اچھا تھا۔ ویسے میں ایک اور بات بھی سوچتا ہوں۔

وہ کیا؟

وہ یہ کہ میرے پاس بہت پڑھے لکھے لڑکے بھی آتے ہیں ۔ وہ بہت پریشان ہیں۔ ان کے پاس کام ہی نہیں ہے۔ بے روزگار ہیں۔ وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں تو میں سنتا ہوںکہ ان کے گھر والے بھی انہیں تنگ کرتے ہیں کہ کام کرو، اب کام نہیں ہے تو وہ کیسے کریں۔ جب یہ دیکھتا ہوں تو افسوس نہیں ہوتا اچھا لگتا ہے کہ کوئی ہنر تو سیکھا۔

کتنے پیسے کما لیتے ہو تم؟

چار ، پانچ سو روپے تو کما ہی لیتا ہوں۔ کرائے اور کھانے میں دو سو روپے لگ جاتے ہیں باقی کچھ بچا لیتا ہوں اور گھر بھیج دیتا ہوں۔ مہینے میں ایک دن گھر بات کرلیتا ہوں کہ خیر خیریت معلوم ہو جائے۔

روز کیوں نہیں کرتے بات؟

اصل میں میرے پاس موبائل فون نہیں ہے ناں اور مجھے ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں اپنے چچازاد بھائی کے فون سے بات کرلیتا ہوں۔

آج کل تو سب کے پاس ہے موبائل تمہارے پاس کیوں نہیں ہے؟

صاب یہ موبائل فون ایک بیماری ہے، میں سارا دن دیکھتا ہوں۔ لڑکے اور لڑکیاں سب چلتے ہوئے بھی موبائل دیکھتے رہتے ہیں۔ پتا نہیں سوتے کب ہیں۔ پھر یہ فضول خرچی ہے۔ موبائل فون تو شیطانی چکر ہے۔ اب جس کو ضرورت ہے اس کے لیے تو صحیح ہے۔ یہاں تو چھوٹے چھوٹے بچے کے پاس بھی ہے، ان کا کیا کام موبائل سے۔ اس موبائل کی وجہ سے کتنے لوگ مارے گئے ناں۔

وہ کیسے نعمت خان؟

آپ بھی عجیب آدمی ہے صاب! آپ کو نہیں پتا، میں روز سنتا ہوں موبائل چھین لیا، گولی مار دی، موبائل تو عذاب ہوگیا۔ ایک دفعہ میں جا رہا تھا دو لڑکے آئے اور کہا موبائل دو۔ میں نے کہا نہیں ہے۔ انہوں نے تلاشی لی ۔ ساڑھے تین سو روپے لے کر چلے گئے۔ اس طرح میں بچ گیا ناں، کھانے کو ہے نہیں، موبائل میں کارڈ کون ڈالے، اچھا ہے نہیں ہے میرے پاس موبائل۔

چھٹی بھی کرتے ہو یا بس کام ہی کرتے رہتے ہو؟

صاب چھٹی کرو نہ کرو یہاں ہفتے میں ایک دو دن ویسے ہی چھٹی ہوجاتی ہے۔ کبھی تو ہڑتال ہے۔ کبھی ہنگامہ ہے، کبھی سی این جی نہیں ہے تو گاڑی نہیں ملتی، بہت پریشانی ہے یہاں۔ روز سنتا ہوں اتنے لوگ مرگئے، بہت مسئلہ ہے یہاں۔

جب تم یہ سنتے ہوکہ اتنے لوگ مرگئے تو تمہیں ڈر نہیں لگتا؟

کیا ڈرنا صاب، مرنا تو ہے ہی جہاں موت لکھی ہوگی، آجائے گی، لیکن پریشانی تو ہوتی ہے۔ ادھر میری ماں گاؤں میں پریشان ہوتی رہتی ہے اور دعا کرتی رہتی ہے۔ بس ماں کی دعائیں ہیں تو مجھے یقین ہے اﷲ میری حفاظت فرمائے گا۔

یہاں اکیلے رہتے ہو، والد بھی سعودی عرب میں ہیں۔ والدہ اور بھائی گاؤں میں۔ تم اداس رہتے ہوگے ناں؟

ہاں یہ تو ہے، ابھی کیا کروں مجبوری ہے، پردیس کی زندگی میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔ لیکن میری ایک اداسی اور بھی ہے۔

وہ کیا نعمت خان، شادی نہیں ہوئی تمہاری اس لیے؟

وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا۔

صاب، آپ بھی زبردست آدمی ہے، شادی تو ہو ہی جائے گی۔ میری ماں بہت کہتی ہے شادی کرو۔ میں کہتا ہوں جب تک بہت سارے پیسے نا کما لوں شا دی نہیں کروں گا۔ بیوی تو بہت پیسے مانگے گی، تو کہاں سے لاؤں گا۔ لیکن صاب میری کوئی بہن نہیں ہے، اس لیے اور بھی اداس رہتا ہوں۔ اگر میری کوئی بہن ہوتی تو میں بھی اس کے لیے چوڑیاں خریدتا، کپڑے اور چپل ناں۔ بس اﷲ کا رضا ہے تو ٹھیک ہے۔

نعمت خان تم تو نہیں پڑھ سکے۔ بھائیوں کو اسکول میں داخل کرایا تم نے؟

کوشش تو بہت کی اور کرتا رہوں گا۔ ابھی تک گاؤں میں پڑھائی کا وہی حال ہے۔ اسکول تباہ ہیں۔ پھر سرکاری اسکولوں میں تو بس نام کی پڑھائی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں فیس بہت ہے، ہمارے گاؤں میں جو ایک پرائیویٹ اسکول ہے، اس کی فیس پانچ سو روپے ہے ۔ چار بھائی ہیں میرے ، تو دو ہزار روپے مہینہ چاہیے ناں، انشاء اﷲ ضرور داخل کراؤں گا، میں انہیں ضرور پڑھاؤں گا۔

رات کو دیر تک گپ شپ کرتے ہو یا جلد سو جاتے ہو؟

تھوڑی سی گپ شپ تو کرتا ہوں، لیکن دن بھر میں اتنا تھک جاتا ہوں کہ جلدی نیند آجاتی ہے۔ صبح سویرے جاگنا بھی تو ہوتا ہے ناں۔ سکون سے سوتا ہو ں۔ حلال کی کمائی میں سکون ہوتا ہے صاب۔ حرام میں بے سکونی ہے، بے برکتی ہے۔ اﷲ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ رزق حلال دے۔ میں موچی ہوں، مجھے کوئی شرم نہیں ہے کہ میں موچی ہوں۔ میں محنت کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ رزق دیتا ہے۔ میں اپنا کام کرتا ہوں۔ میں کسی کا ملازم نہیں ہوں، نوکری تو غلامی ہوتی ہے ناں ، میں بہت خوش ہوں صاب۔

بہت خوشی ہوئی تم مل کر نعمت خان، محنت کرتے رہوگے تو سب کچھ حاصل کرسکو گے۔ تم واقعی نعمت ہو۔ اگر تم جیسے نہ ہوں تو ہمیں کتنی مشکل ہوجائے گی۔

وہ مسکرایا اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگا۔ آج سے صاب تم میرے دوست ہو۔ بس ہم اب دوست ہیں۔

آدمی، آدمی سے ملتا ہے

دل، مگر کم کسی سے ملتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔