معاشرے کی اصلاح کیسے کریں

جبار قریشی  جمعرات 18 اگست 2016
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

معاشرے کی اصلاح کیسے کی جائے، اس حوالے سے مذہبی اور دینی عناصر فکری لحاظ سے دو گروہوں میں تقسیم ہیں، ایک گروہ کا خیال ہے کہ پہلے سیاسی جدوجہد کے ذریعے دین کو نافذ کیا جائے پھر سیاسی طاقت کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ سیاسی عمل میں حصہ لیے بغیر دعوت و تبلیغ کے ذریعے فرد اور معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیا جانا چاہیے۔ دونوں قوتیں اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل رکھتی ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

دعوت و تبلیغ کے ذریعے فرد اور معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دینے والوں کے نزدیک اﷲ تعالیٰ نے معاشرے کی ہدایت کے لیے جو بھی پیغمبر دنیا میں بھیجے ہیں انھوں نے اقتدار کے حصول کے بجائے دعوت و تبلیغ کا راستہ اختیار کیا اور اس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی۔ خود رسول اﷲ ؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مکہ میں آپؐ کو حکومت کی پیش کش بھی کی گئی مگر آپؐ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔ اگر اصل مقصد اقتدار ہوتا تو آپؐ فوراً اس کو قبول فرماتے اور اس کے بعد حکومتی زور پر اسلامی قانون نافذ کر دیتے لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ دعوت اصلاح کا منشا اصلاح قلب ہے نہ کہ اصلاح سیاست۔ سیاست کی اصلاح بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔

اس کے برعکس دینی سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی خاص حالات کی پیداوار ہوتی ہیں جو اپنے وقت کے ذوق کے مطابق وجود میں آتی ہیں۔ ابتدا میں کچھ اچھے ذہین افراد اپنے وقت کے حالات اور ذوق کے تحت اس تحریکوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں تو یہ تحریکیں غیرموثر ہو جاتی ہیں، نئے لوگوں کی آمد رک جاتی ہے جو لوگ شروع میں شامل ہوتے ہیں اسی پر یہ جماعتیں محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ جو محض اپنی گروہی شناخت کے سہارے اپنا وجود رکھتا ہے سیاست میں ان کی حیثیت ایک پریشر گروپ کی ہوتی ہے۔

ان کا سارا زور احتجاج، جلسے جلوس اور سیاست کی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فرد کی اصلاح کا کام پس پشت چلا جاتا ہے جو دین کا اولین تقاضا ہے۔ مذہب کی بنیاد محبت پر ہے، اس بنیاد پر تبلیغی ذہن اپنے مخاطب کے لیے محبت کے جذبات رکھتا ہے وہ نہ صرف اس کی قربت چاہتا ہے بلکہ اس کی اصلاح کا خواہش مند بھی ہوتا ہے اور اسے جہنم کی آگ سے بچانا چاہتاہے۔ اس کے دل میں اپنے مخاطب کے لیے ہمدردانہ جذبات ہوتے ہیں۔ اس فکر کے نتیجے میں تبلیغی ذہن اپنے مخاطب کے حق میں آخری حد تک پر امید بن جاتا ہے یہی دلی جذبہ بعض جماعتوں کی کامیابی کا اصل ہتھیار ہے۔

سیاست کی بنیاد کیونکہ ٹکراؤ پر ہوتی ہے اس لیے دینی سیاسی جماعتیں اس دلی جذبے سے محروم ہوتی ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے کام میں زیادہ تر شخصی طور پر بات پہنچانے پر بھروسہ کیا جاتا ہے، مواصلات کے اس دور میں اس طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر تبلیغ کے اس طریقہ کار نے تبلیغی جماعتوں کے اندر ایک خاص قدر پیدا کر دی ہے وہ ہے تاثیر کی قوت یہ قوت تبلیغی جماعتوں کا اصل سرمایہ ہے۔ سیاسی تعبیر سے متاثرہ ذہن اپنے مخالفین کو ضرب لگانے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے یہ عمل مخالفین میں رد عمل پیدا کرتا ہے جس سے بعض اوقات نفرت جنم لیتی ہے اور نفرت دعوت کے عمل کے لیے زہر قاتل ہے۔

دین کو جب سیاسی تصورکے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تو مخاطب کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دین اسلام مسائل عالم کو حل کرنے کی ایک تدبیر ہے۔ دوسرے الفاظ میں دین قومی مسائل اور ان کا حل کا ایک عنوان بن جاتا ہے، اس تصور کے ساتھ جب دعوت دی جاتی ہے تو مخاطب اس کی تصدیق کے لیے قدرتی طور پر موجودہ اسلامی ملکوں کی جانب دیکھتا ہے جب ان ملکوں میں کوئی بہتر نظام نہیں پاتا تو وہ اس کی صداقت پر اعتبار نہیں کرتا اس کی یہ کیفیت اس کی سوچ کی تبدیلی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

تبلیغی جماعتیں اسلام کا تعارف انسانی فطرت کے انداز میں کراتی ہیں تو یہاں مخاطب انسانی فطرت کی طرف دیکھتا ہے، یہاں وہ فوراً اس کی تصدیق پا لیتا ہے۔

مذہب کی صورت میں انسان کے اندر ایک خود احتسابی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ ایک شخص جو صحیح معنوں میں مذہبی اور دینی ہو گا وہ زندگی کے جس شعبے میں داخل ہو گا اس کا مذہب اس کے ساتھ رہے گا۔ وہ سیاست میں ہو گا تو اس کی سیاست اصولی ہو گی، اگر تاجر ہو گا تو اس کی تجارت دیانت دارانہ ہو گی، اگر جج ہو گا، تو اس میں عدل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ نہ ریاست ہے نہ معاشرہ اور نہ ہی ادارے وہاں فرد اﷲ تعالیٰ کے رو برو ہو گا اور اپنے اعمال کا جواب دے گا۔ اس لیے تبلیغی جماعتوں کے نزدیک فرد کی اصلاح دین کا اولین تقاضا ہے یہی دین کی اصل روح ہے جو دائمی طور پر دین کو مطلوب ہے۔

دینی سیاسی جماعتیں بھی اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کا اپنے ماننے والوں سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اﷲ کے زمین پر اﷲ کا قانون نافذ ہونا چاہیے، اس لیے قرآن میں سیاسی امور سے متعلق واضح قوانین دیے گئے ہیں۔ آپؐ کی حیات مبارکہ میں جہاں دعوت تبلیغ ہے وہاں جلاوطنی (ہجرت) سماجی بائیکاٹ (شعب ابی طالب کی گھاٹی کا واقعہ) جنگ بدر بھی ہے اور جنگ اُحد بھی مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام یہ سب حضورؐ کی سیاسی زندگی ہے ایک کامل مسلمان آپؐ کی زندگی کے ان پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

لہٰذا وہ لادین اور سیکولر عناصر جو تبلیغی جماعتوں کی آڑ لے کر دینی سیاسی جماعتوں کو اپنے در پردہ مقاصد کی تکمیل کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ان عناصر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی سیاسی نظام کو نظریاتی اساس کی ضرورت ہوتی ہے، مسلمانوں کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ ایک مسلمان کسی ایسے سیاسی نظام کو نہیں اپنا سکتا جو مذہب کی بندش سے آزاد ہو یعنی دین کے بغیر ہم مسلمان کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چاہے وہ سیاست ہی کیوں نہ ہو۔

یہ ہے دونوں جانب کا نکتہ نظر کس کا موقف درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں مسلم معاشرے میں دونوں کا وجود لازم و ملزوم ہے ایک کی حیثیت مثبت چارج کی ہے اور دوسرے کی منفی چارج کی دونوں اپنا کام کریںگے تو روشنی ہو گی۔

: بد قسمتی سے دونوں قوتیں مسلکی، فرقہ واریت، ذاتی اورگروہی مفادات کے تحت تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہیں، اگر یہ دونوں قوتیں ان مفادات سے بالاتر ہو کراپنے اپنے دائرے کار میں اپنا کام انجام دیں تو مسلم معاشرہ اسلام کی روشنی سے منور ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔