نئے ڈرائونے خواب، بھوت اور چڑیلیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 9 ستمبر 2016

جو لوگ نئے خیالات و تصورات سے خوفزدہ ہوتے ہیں وہ ابتداء کرنے سے پہلے ہی فنا ہوجاتے ہیں کولمبس نے ایک نامعلوم دنیا کا خواب دیکھا، ایسی دنیا کے وجود پر اپنی زندگی داؤ پر لگا دی اور پھر اسے دریافت کرلیا۔ عظیم ماہر فلکیات کوپرنکس نے بہت سی دنیاؤں کا خواب دیکھا اور ان کا انکشاف بھی کیا، آج دنیا اس کی پرستش کرتی ہے۔

غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہنری فورڈ نے گھوڑے کے بغیر چلنے والی گاڑی کا خواب دیکھا کسی سازگار موقعے کاانتظارکیے بغیر دستیاب وسائل سے اپنے کام میں لگ گیا،آج اس کے خواب کا ثبوت پوری دنیا میں دوڑتا پھرتا ہے۔ تھامس ایڈیسن نے بجلی سے چلنے والے لیمپ کا خواب دیکھا اوراس پرکام شروع کردیا۔ دس ہزار سے زائد بار ناکامی کے باوجود و ہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگا رہا جبتک کہ اس نے اپنے خواب کی تعبیر نہ پالی ۔ مارکونی نے ایتھرکی غیر محسوس قوتوں کو قابو میں لانے کا خواب دیکھا، اس کا خواب بے بنیاد نہیں تھا، آج اس کا ثبوت دنیا کے ہر وائرلیس اور ریڈیوکی شکل میں پایا جاتا ہے جب مارکونی نے اعلان کیا کہ اس نے ایک ایسا اصول دریافت کیا ہے جس کے ذریعے وہ تاروں یا مواصلات کے دیگر براہ راست ذرایع کے بغیر ہوا کے ذریعے پیغامات بھیج سکتا ہے تواس کے دوستوں نے اسے پکڑلیا اور ایک نفسیاتی اسپتال میں اس کا دماغی معائنہ کرایا ۔جان بینن نے Pilgrims, Progress جو انگریزی ا دب کے بلند پایہ شاہکاروں میں سے ہیں اس وقت تحریر کیں جب وہ مذہب کے بارے میں اپنے نظریات کی بنا پر قید خانے میں تھا اور اسے سخت سزا دی جا رہی تھی۔

اوہنری انگریزی ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے اوہنری نے اپنے ذہن میں خوابیدہ دانش کو اس وقت پایا جب وہ او ہائیوکولمبس کی ایک جیل میں تھا ۔ دنیا کا عظیم ترین موجد اور سائنس دان ایڈیسن ایک معمولی ٹیلی گراف آپریٹر تھا اور اپنے دماغ میں مخفی ذہانت پانے سے قبل اسے کئی بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ چارلس ڈکنز انیسویں صدی کا عظیم ناول نگار اورڈراما نگار تھا اس نے عملی زندگی کاآغاز جوتوں پر لگائی جانے والی سیاہ پالش رکھنے والے مرتبانوں پر لیبل لگانے سے کیا۔ پہلی محبت کی ناکامی نے اسے ہلا کر رکھ دیا اور اسے ایک عظیم مصنف میں بدل ڈالا ۔ ہیلن کیلر پیدائش  کے 19 ماہ بعد گونگی، بہری  اور نابینا ہوگئی لیکن اس نے کمزوریوں کو رکاوٹ نہیں بنے دیا۔

آج عظیم لوگوں کی تاریخ میں اس  کا نام انمٹ ہے اس کی تمام زندگی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک شکست خوردہ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ خود شکست و ناکامی کو قبول نہ کرلے ۔رابرٹ برنس جیسے اسکاٹ لینڈ کا قومی شاعر اور رومانی تحریک کا بانی بھی قراردیا جاتا ہے۔ ایک ان پڑھ اورافلاس زدہ دیہاتی لڑکا تھا، اس نے اپنی شاعری میں خوبصورت افکار کے ذریعے دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہترجگہ بنایا، اس نے کانٹے چن کر اس کی جگہ گلاب بوئے۔عظیم جرمن پیانو نواز اور موسیقار بیتھوون بہرہ تھا۔ عظیم تاریخ دان، صحافی اور شاعر ملٹن نابینا تھا۔ شاعر ہنیلی نے کہا تھا آپ اپنی قسمت ، روح کے مالک ہیں‘‘چونکہ ہمارے پاس اپنی سوچ کو کنٹرول کرنے کی طاقت ہے اس لیے ہم اپنی قسمت اور روح کے مالک ہیں۔ ان سب شخصیات نے پہلے خواب دیکھے پھر امید باندھی پھر اس کی حسرت کی اس کے بعد خواہش میں ڈھالا اور پھر منصوبہ بندی کرکے اسے حاصل کرلیا۔

ہمارا معاملہ پوری دنیا کے برعکس ہے نہ ہم خواب دیکھتے ہیں بلکہ جو غلطی سے خواب دیکھ بیٹھتے ہیں، ان کا وہ حشر کرتے ہیں کہ پھر وہ صاحب کسی غیر ملک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اسی لیے آج ہمارا معاشرہ مررہا ہے۔ مرنے سے پہلے کی تمام علامتیں سامنے آچکی ہیں، وہ اس لیے مر رہا ہے کہ وہ اتنا بوڑھا ہوگیا ہے اتنا کمزور و لاغر ہوگیا کہ اب اس سے ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جا رہا ہے ۔

معاشرہ انسان کی طرح ہوتا ہے اسے بھی زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی، احساس نئے خیالات ، نئی فکر، نئی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے یہ قدرت کا قانون ہے کہ دنیا بھرکی ہرچیز بدلتی رہتی ہے اور اسی بدلنے میں ہی اس کی بقا ہے اگر وہ جامد ہوجائے منجمد ہوجائے تو وہ فنا ہوجاتی ہے۔  جب سماج جامد ہوجاتے ہیں اور منجمد ہوجاتے ہیں تو پھر تمام اندھیرے ، تمام تاریکیاں، احساسات کی شکل اختیار کرکے لوگوں پر طاری ہوجاتی ہیں اور پھر بنیاد پر ست اور رجعت پرست قوتیں بہت ہی چالاکی سے لوگوں کے ذہنوں کو اس قدر الجھنوں میں ڈال دیتی ہیں کہ وہ اپنے اصل اور بنیادی مسئلوں سے خود کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔

لوگ خود ڈراؤنے خواب میں بدل جاتے ہیں پھر ہر شخص دوسرے شخص سے ڈرنا شروع کردیتا ہے ۔ عقل اورشعور کی باتیں کرنے والوں کا شمار ذہنی مریضوں میں ہونے لگ جاتا ہے پھر لوگ نئی چیزوں، ترقی، کامیابی، خوشحالی سے ڈرنے لگتے ہیں صحت مند لوگ مریض بن جاتے ہیں اور مریض خود کو صحت مند کہتے پھرتے ہیں اور کسی کی بھی مجال تک نہیں ہوتی ہے کہ انھیں روکے یا ٹوکے پھر ایسے سماج میں سقراط، برونو، بیکن، کولمبس، کوپرنکس، ہنری فورڈ، ایڈیسن ، مارکونی ، جان بینن، اوہنری، چارلس ڈکنز، ہیلن کیلر ، رابرٹ برنس، بیتھووں، ملٹن نہیں پیدا ہوتے بلکہ روز نئے نئے ڈراؤنے خواب پیدا ہوتے ہیں۔ روز نئے نئے بھوتوں کا جنم ہوتا رہتا ہے نئی نئی چڑیلیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور ان پر حکمرانی کرنے والوں کے بارے میں کوئی کہے تو کہے کیسے ۔ وہ الفاظ کہاں سے جاکر ڈھونڈ لائے جائیں کہ جن سے ان کی عکاسی ممکن ہوجائے۔

افلاطون کہتا ہے ’’انسان اور مملکت میں مشابہت ہے حکومتوں میں بھی ایسا ہی فرق ہوتا ہے، جیسا کہ انسان کی سیرتوں میں ہوتا ہے مملکت فطرت انسانی کی بنی ہوئی ہوتی ہے جواس کے اندر ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس وقت تک بہتر مملکتوں کی توقع نہیں کرسکتے جب تک ہمارے پاس بہتر آدمی نہ ہوں ۔ کیسے دلچسپ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ علاج کرتے اور اپنی تکلیفوں کو بڑھاتے اور پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی عطائی نسخہ ہاتھ آجائے گا اور وہ اچھے ہوجائیں گے مگر ان کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے ‘‘ ۔ اب اس صورتحال میں چاہیں ہم روئیں ماتم کریں، آہ و بکا کریں، گریہ کریں ، چیخیں اور چلائیں یا پھرخاموش رہیں چپ رہیں اور نئے ڈراؤنے خوابوں ، نئے بھوتوںاور نئی چڑیلوں کے منتظر رہیں ، دونوں ہی صورتوں میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔