اسلامی اخوّت

ﷲ تعالی ہم سب کو اپنی مخلوق کی خدمت کرنے، ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ عطا فرمائے۔


September 23, 2016
ﷲ تعالی ہم سب کو اپنی مخلوق کی خدمت کرنے، ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ عطا فرمائے۔ : فوٹو: فائل

اخوّت کا لفظ '' اخ'' سے مشتق ہے، جس کے معنی بھائی کے ہیں۔ اس طرح اخوّت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ اخوّت سے مراد تمام روئے زمین کے مسلمانوں کا وہ باہمی تعلق ہے جس کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر استوار ہے۔

اخوّتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔ آج سے کئی سو سال قبل قبیلہ قریش کے ایک عظیم چشم و چراغ اور اﷲ کے آخری پیغمبر رسولِ کریم ﷺ نے اخوّت یعنی مسلمانوں میں بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔ جہالت کے زمانے میں جہاں بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا تھا، نبی کریم ﷺ نے خدائے واحد کا تصور پیش کیا اور انہیں جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اچھی سوچ رکھے اور اسے ہر طرح سے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے کا حق دار وہ ہے جو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچائے اس کے دکھ سکھ میں اس کا حامی و مددگار ہو۔

رسول پاک ﷺ نے اخوّت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا

'' تو مومنوں کو باہم رحم کرنے اور باہم محبت کرنے اور باہم شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا کہ جب ایک عضو بیمار ہو تو تمام جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔''

بھائی چارے کی سب سے بہترین مثال انصار مدینہ نے رسول کریم ﷺ کے حکم کی تعمیل میں پیش کی۔ آپؐ نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ انصار مدینہ نے بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو آج تک بے مثل ہے۔ انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے۔ انصار مدینہ کا اپنے مہاجر بھائیوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک انصاری صحابیؓ نے اپنے مہاجر بھائی عبدالرحمن بن عوفؓ سے مخاطب ہوکر کہا

'' میں مدینہ کے تمام مسلمانوں میں سب سے زیادہ امیر ہوں۔ میں نے تمہارے لیے اپنی آدھی دولت بچا رکھی ہے۔''

عبد الرحمن بن عوفؓ نے جواب میں بس اتنا کہا کہ '' اﷲ تعالی آپ کی دولت کو آپ کے لیے سازگار بنائے، مجھے یہ نہیں چاہیے۔ آپ اگر میرے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو بس اتنا کر دیجیے کہ مجھے بازار کا راستہ دکھا دیجیے۔''

اﷲ تعالی کا ارشاد ہے، بے شک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس تم آپس کے معاملات درست کرلو اور اﷲ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ایک اور جگہ ارشادِ ربانی ہے، '' اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اﷲ کی نعمت کو یاد کرو جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔''

مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے بھائی چارے کی مثال دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا

'' اﷲ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ تو پیغمبر ہیں اور نہ ہی شہید لیکن ان کی قسمت پر انبیا اور شہدا بھی رشک کریں گے۔''

صحابہ اکرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون لوگ ہیں؟

آپؐ نے جواب دیا، '' یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی غرض کے محض اﷲ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اﷲ کی قسم! ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور وہ بلند مرتبے پر ہوں گے۔ انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہ ہوگا جب کہ لوگ غم زدہ ہوں گے۔''

تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور دین اسلام میں کسی کے درمیان بھی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام مسلمان برابر ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا،

'' اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارے بڑے ایک تھے۔ خبردار عربی کو تمہارے عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر اور سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی برتری نہیں۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔''

آج کے معاشرے میں خاندان، قبیلے اور قوم کے تفاخر نے اولاد آدم کو بے تحاشہ فرقوں میں بانٹ دیا ہے اور ایک فرقہ اپنے آپ کو دوسرے فرقوں سے بالاتر سمجھتے ہوئے ان کی تمام اچھی باتوں سے بھی منحرف ہو جاتا ہے۔ اور انہی فرقوں کی بنیاد پر آج مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ ایک وقت تھا جب مسلمان تمام دنیا پر حکم رانی کرتے تھے اور ہر طرف ان کے عدل کا ڈنکا بجتا تھا۔ بہت سے مسلم حکم رانوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کیا اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر عمل پیرا رہے دنیا میں معزز رہے مگر جیسے ہی انہوں نے قرآن کی تعلیمات سے منہ موڑا زوال پذیر ہوگئے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے،

'' بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اﷲ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اﷲ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔''

آج کی نوجوان نسل اسلام سے بہت دور جا چکی ہے۔ وہ اس دنیا کی ظاہری رنگینی میں کھو کر اپنے واحد خالق و مالک سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی گم راہی میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔

ﷲ تعالی ہم سب کو اپنی مخلوق کی خدمت کرنے، ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اﷲ تعالی ہمیں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور رسول پاک ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مقبول خبریں