لوگ خدا نہیں ہوتے

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 27 ستمبر 2016

لوگ خدا نہیں ہوتے، سب سے بڑی نیکی اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک خدا کو حاصل ہے اور انسان بالکل عاجز اور بے بس ہے۔ پہلا شخص جس نے ایورسٹ پر اپنا قدم رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی وہ ایک انگریز موریس ولسن تھا۔ اس نے 1934ء میں اس کے اوپر چڑھائی کی مگر جس چیز کو اس نے اپنی زندگی کا کلائمیکس سمجھا تھا وہ اس کے لیے اینٹی کلائمیکس بن گیا۔

موریس ولسن پہلی جنگ عظیم میں ایک سپاہی تھا، اس کو دنیا کی ’’آخری بلندی‘‘ پر پہنچنے کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اس نے اپنے خاندان کی کامیاب تجارت کو اس کے اوپر قربان کر دیا اس نے اپنا تمام سرمایہ خر چ کر کے ذاتی طور پر ایک سیکنڈ ہینڈ ہوائی جہاز خریدا۔ وہ برطانیہ سے ہندوستان تک چھ ہزار میل کا سفر طے کر کے پورنیہ میں اترا، اس کو اپنا ہوائی جہاز آگے لے جانے کی اجازت نہیں ملی، چنانچہ اس نے اپنا ہوائی جہاز فروخت کر دیا ۔ اس کے بعد اس نے دار جیلنگ اور تبت کے راستے سے ایورسٹ کی طرف سفر شروع کر دیا ۔ آخر میں اس کے پاس ایک چھوٹا خیمہ، کچھ چاول، کیمرہ اور چند دوسری چیزیں باقی رہ گئیں، تاہم وہ اوپر چڑھتا رہا وہ کامیابی کے ساتھ 19500 فٹ کی بلندی تک پہنچ گیا۔

21 اپریل 1934ء کو اس کی 36 ویں سالگرہ تھی اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس تاریخی دن کو ایورسٹ کی چوٹی پرکھڑا ہو۔ اس نے اپنی ڈائری میں چند دن پہلے یہ الفاظ لکھے ’’صرف تیرہ ہزار فٹ جانا اور باقی ہے مجھے یہ واضح محسوس ہو رہا ہے کہ میں21 اپریل 1934ء کو چوٹی پر پہنچ جاؤں گا‘‘ ان سطروں کو لکھنے کے بعد ہمالیہ کا سخت طوفان اور موسم کی شدت اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے وہ مجبور ہو گیا کہ پیچھے لوٹے چنانچہ وہ اتر کر نیچے آ گیا پھر اس کے بعد اس کو دوبارہ اوپر چڑھنا نصیب نہ ہوا۔

اس کے بعد اس کے ساتھ کیا پیش آیا، اس کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سال بعد جب تن زنگ نارگے ایوریسٹ پراوپر چڑھ رہا تھا کہ اس کو ایک مقام پر موریس ولسن کی لاش ملی اور اس کے ساتھ اس کی ڈا ئر ی بھی جس کا آخری جملہ وہ تھا جو آپ پڑھ چکے ہیں ۔ یہ ہی کہانی بدلی ہوئی صورت میں ہر آدمی کی کہانی ہے ۔ ہر آدمی یہ ہی سمجھتا ہے کہ وہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کی طرف بڑھ رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے یہاں ہر آدمی صرف ایک ایسی منزل کی جانب چلا جا رہا ہے، جہاں موت کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں، جو اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہو۔

سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا ’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کر لیا‘‘۔ نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے ’’انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناً انسانی زندگی ایک بے معنی چیزہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ ہارون الرشید بہت بڑی سلطنت کا مالک تھا مگر آخر عمر میں اس نے کہا ’’میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری کے ساتھ گزارا ہو اب میں موت کے کنارے پر ہوں جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی یہ ہی ہر انسان کا آخری انجام ہے مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے۔‘‘

خلیفہ منصور عباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا ’’اگر میں کچھ دن اور زند ہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے بار بار مجھے سچائی سے ہٹا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے۔ ‘‘

31 اکتوبر 1984ء کو صبح سوا نو بجے تھے نئی دہلی میں وزیراعظم ہندوستان کی سرکاری رہائش گاہ میں حسب معمول پولیس اور اسٹاف کی سرگرمیاں اپنے شباب پر تھیں، پیشگی اپائٹمنٹ کے مطابق وسیع اور شاندار لان میں پیٹریوسٹینوف اپنی پارٹی کے ساتھ آ چکے تھے ۔ وہ وزیراعظم اندرا گاندھی پر ایک فلم بنا رہے تھے۔ وزیراعظم اپنے وقت پر اپنے کمرے سے برآمد ہوئیں وہ لان میں داخل ہونے ہی والی تھیں کہ گولیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ مسز اندرا گاندھی کی حفاظتی پولیس کے دو مسلح جوانوں نے اچانک ان پر فائر کھول دیا۔

ایک نے پستول کی گولی چلائی دوسرے نے اپنے اسٹین گن کی 20 گولیاں ان پر خالی کر دیں۔ خون میں لت پت اندرا گاندھی کوئی آخری جملہ نہ بول سکیں وہ بے ہوشی کی حالت میں اسپتال میں لے جائی گئیں صرف اس لیے کہ ڈاکٹر ان کی موت کا آخری اعلان کر سکیں۔ اس سلسلے میں اخبارات میں جو رپورٹیں شایع ہوئیں ان میں سب سے زیادہ عبرت انگیز پیٹریوسٹینوف کا واقعہ تھا۔ یوسٹینوف ان کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ان سے انٹرویو کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ واحد اولاد ہوتے، انھوں نے کس طرح اپنے اکیلے پن کے ساتھ نباہ کیا عین اسی وقت یوسٹینوف نے موت کی آواز سنی۔

کوئی آدمی اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتا لیکن اپنی ساری عمر اس کے پاس اس وقت کے لیے سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اس وقت سے پہلے آپ اپنے تمام فیصلوں کے مالک خود ہوتے ہیں اور اس وقت کے بعد آپ صرف کٹہر ے میں کھڑے ہوئے، مجرم کی مانند ہوتے ہیں۔ جسے اپنے ہر کیے کا حساب دینا ہوتا ہے۔ آپ آخری وقت تک یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کی زندگی کی کہانی آپ کی عین مر ضی کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے، لیکن اصل میں حقیقت اس کے بالکل عکس ہوتی ہے ۔

یاد رہے کہ وقت پر آپ کی صرف زندگی ختم ہوتی ہے، آپ کا کردار نہیں مرتا بلکہ وہ آپ کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے آج غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیاالحق کو مرے سالوں بیت چکے ہیں لیکن ان کے کردار آج بھی زندہ ہیں کیونکہ کردار کبھی نہیں مرتے۔ اور یہ ایک نسل سے دوسری نسل خود بخود منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ اسی لیے ہمارے آج کے کرداروں کے کردار بھی کبھی نہیں مریں گے۔ لہذا اس وقت سے پہلے جب آپ کے پاس وقت نہ رہے آپ اپنے کردار کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

آج آپ کے پاس وقت ہے آپ لوگوں کی دعائیں لے سکتے ہیں ان کی زندگیاں تبدیل کر سکتے ہیں اپنے کردار کو یادگار اور لافانی بنا سکتے ہیں تاکہ نسل در نسل آپ کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آنے والے وقت میں آ پ کا ذکر کس طرح سے ہو ۔ لوگ آپ کو کس طرح سے یاد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔