بس انتظارکرتے رہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 30 ستمبر 2016

میڈیکل کالج کا پروفیسر زبانی امتحان لے رہا تھا، اس نے ایک طالب علم سے پوچھا، تم ان میں سے کتنی گولیاں اس شخص کو دو گے جس کو دل کا دورہ پڑا ہو طالب علم نے جواب دیا ’’چار‘‘۔

ایک منٹ بعد طالب علم نے دوبارہ کہا ’’پروفیسر کیا میں اپنا جواب بدل سکتا ہوں‘‘ پروفیسر نے کہا ’’ہاں ضرور‘‘ اس کے بعد پروفیسر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا مگر افسوس ہے کہ تمہارا مریض 40 سیکنڈ پہلے مر چکا ہے ایک شخص جس کو دل کا دورہ پڑا ہوا ہو نہایت نازک حالت میں ہوتا ہے اس کو فوری طور پر دوا کی بھرپور خوراک دینا انتہائی ضروری ہے اگر اس کو فوری طور پر بھر پور دوا نہ ملے تو اگلے لمحے کا تقاضہ صرف یہ ہوگا کہ اس آدمی کو ڈاکٹر کے بجائے گورکن کے حوالے کیا جائے ۔

ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہورہا تھا تو اس نے ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر اپنی پرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنی سواری کو اس کے قریب رکوایا اور اس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا ’’سردی نہیں لگ رہی‘‘ دربان نے جواب دیابہت لگتی ہے حضور مگر کیا کروں گرم وردی ہے نہیں میرے پاس اس لیے برداشت کرنا پڑتا ہے۔

بادشاہ نے کہا ’’میں ابھی محل کے اندر جاکر اپنا ہی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ہوں تمہیں۔‘‘ دربان نے خوش ہوکر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکر کا اظہار کیا لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا ، دربان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھول گیا۔ صبح دروازے پر اسی بوڑھے دربان کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی مٹی پر اس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی ’’بادشاہ سلامت ، میں کئی سالوں سے سردیوں میں اسی نازک وردی میں دربانی کررہا تھا مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی‘‘۔

69سال بعد بھی پاکستانی ریاست اپنے شہریوں کو نہ خوشحالی، کامیابی ، روزگار، ترقی، تحفظ، امن، سکھ، سکون ،گھر، روٹی، کپڑا دے سکی ہے اور نہ ہی زندگی قائم رکھنے کے لیے بنیادی چیزیں جیسے پانی، بجلی، گیس، خوراک، صحت کی سہولیات، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، تعلیم فراہم کرسکی ہے اگرکوئی ریاست اپنے شہریوں کو یہ چیزیں فراہم نہ کرسکے تو پھر اس کے وجود کے کوئی بھی معنی اور مطلب نہیں ہے ہمارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ان چیزوں کو انتظارکرتے کرتے نجانے کہاں چلے گئے۔

مسائل کے ڈھیر میں دبے لاکھوں لوگوں ، بچوں اور عورتوں نے ان کا بہت انتظار کیا ایک دوسروں کو بہت دلاسے دیے بہت تسلی دی پھر آخر تڑپ تڑپ کر بلک اور سسک کر ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے گئے۔ لوگ بہت روئے بہت چلائے لیکن کہیں سے بھی کوئی مشکل کشا نہ آیا، میرے حکمرانوں معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں نے گھپ اندھیروں میں دودھ کے ایک ایک قطرے کے لیے تڑپتے تڑپتے تمہارا بہت انتظار کیا۔

نجانے کتنی بیٹیاں اور بہنیں ہاتھوں میں مہندی کا انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہوگئیں لیکن تم ان کی مدد کے لیے نہ آئے۔ لاکھوں نوجوان روزگار کا انتظارکرتے کرتے عمرکی ہر حد پارکر گئے لیکن تمہارا کوئی وعدہ سچا نہ ہوسکا۔ لاکھوں لوگ اپنے جسم کے اعضاء فروخت کرتے رہے لیکن افسوس تم ان کی مدد کے لیے بھی نہ آسکے پاکستان کے بیٹے اور بیٹیاں صرف چند روٹیوں کی خاطر خودکشیاں کرتے رہے تم پھر بھی نہ آئے۔

آج بھی لاکھوں انسان موت کی دہلیز پر کھڑے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ تم ضرور آؤ گے لیکن تم کبھی نہیں آؤ گے اور یہ بھی آخرکار مایوس ہوکر چلے جائیں گے۔

اس طرح کے رویوں اور انداز حکمرانی سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں تو وہ پھر احمقوں کی جنت کا داروغہ ہی ہوسکتا ہے اس طرح کے رویوں سے شخصیات ضرور مضبوط، طاقتور بااختیار ہوتی ہیں لیکن ملک کمزوری کی انتہائی نچلی سطح پر خود بخود چلا جاتا ہے پھر شخصیات مضبوط ہوتے ہوتے اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ ادارے ان کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر سماج بکھر جاتے ہیں۔

ریاست کی کمزور رٹ بکھرتے سماج کی طاقت ہوتی ہے پھر سماج دولت مند گروہوں ، خاندانوں، طاقتور مافیا اور مسلح گروہوں کا مرہون منت ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہی سب کچھ ہونے لگ جاتا ہے، جیسا ہم پاکستان میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کواکبی کے بقول ’’ مستبد حکومت سرسے پاؤں تک مستبد ہوتی ہے بادشاہ متبنہ ہوتا ہے حکام بھی مستبد ہوتے ہیں پولیس کے سپاہی بھی مستبد ہوتے ہیں حتیٰ کہ دفتر کے چپڑاسی اور سٹرک کو جھاڑنے والے بھی مستبد ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ عملہ کے تمام اہل کار چوٹی کے بدمعاش اور کمینے ہوتے ہیں انھیں ذرا بھی پروا نہیں ہوتی کہ قوم کی محبت حاصل کریں بلکہ تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ مستبدکو یقین دلائیں کہ ہم بھی تیرے ہم مشرب ومددگار اور قوم کی نعش کھانے میں شریک ہیں اس طرح یہ اپنے مستبد آقاؤں پر بھروسہ کرتے ہیں اورآقا ان کمینوں پر اعتماد کرتے ہیں پھر دونوں مل کر قوم کو ذبح کرنے اور کھانے میں ایک دوسرے کے دست بازو بن جاتے ہیں۔‘‘

اب رہ گئی بات بیس کروڑ انسانوں کی تو ان کی مثال ایک فرانسیسی ڈرامے ’’خدا کا انتظار‘‘ کے دو کرداروں یعنی لکی اور پوزو کی سی ہوگئی ہے، جو ایک جگہ بیٹھ کرخدا کا انتظارکر رہے ہیں اور اپنے پاس سے گذرنے والے ہر شخص سے خدا کا پتہ پوچھتے ہیں جب کوئی پتہ نہیں پاتے تو باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں اس بے مقصد مشق میں ایک حاکم بن جاتا ہے اور دوسرا محکوم ۔ حاکم نے محکوم کے گلے میں غلامی کا طوق لٹکایا ہوا ہے جسے وہ مختلف اوقات میں کھینچتا ہے محکوم جب ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو بدگوئی اور بدکلامی پر اترآتا ہے، اسی دوران ان کے پاؤں لہولہان ہوجاتے ہیں لیکن وہ اپنا جمود بے حسی چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ اس فضول مشق میں اپنا وقت ضایع کررہے ہیں۔

اب ہمارا حال یہ ہے کہ ایک طرف وہ ہی ظلم و ستم کے دراز سلسلے، وہ ہی جھوٹی انائیں، کھوکھلی چودھراہٹ ، عیش وعشرت کے شب و روز، ڈراونے چہرے، وحشت سے بھرے کردار، دیمک زدہ شان و شوکت ہیں تو دوسری طرف وہ ہی آہ و زاریاں ، وہ ہی تکلیفیں وہ ہی گریے، وہ ہی سسکیاں ہیں اور بیچ میں لاکھوں میل پھیلا سناٹا اورخلا ہے ہم سب ان ہی دونوں انتہاؤں میں اپنی زندگی گھسیٹ رہے ہیں یہ ہو نہیں سکتا ہے کہ دونوں انتہائیں اسی طرح سے جاری رہیں کسی نہ کسی ایک انتہا کا آخرکار خاتمہ ہونا ہی ہونا ہے ۔ لہذا آپ بھی میری طرح اس وقت کا انتظار کرتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔