پہلے ’’سننے والوں‘‘ کو تولو پھر بولو
بچپن کی اس غلط کاری کا فائدہ حکیموں اور عطائیوں کے بجائے ہم نے خود وصول کیا۔
KARACHI:
ویسے تو جوانی کی ''غلط کاریاں'' اور اس کے نتائج زیادہ مشہور ہیں جن کے نتیجے میں بہت سارے حکیموں، عطائیوں اور خطائیوں کا کاروبار چلتا ہے لیکن ہم نے ''بچپن'' میں ایک غلطی کی تھی جس کا خمیازہ تو نہیں لیکن فائدہ آج تک حاصل کر رہے ہیں، مطلب یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ بچپن کی اس غلط کاری کا فائدہ حکیموں اور عطائیوں کے بجائے ہم نے خود وصول کیا۔
بچپن سے زیادہ اسے ''لڑکپن'' کا زمانہ کہہ سکتے ہیں یعنی بچپن اور جوانی کے بیچوں بیچ کا زمانہ ۔ ہمارا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تو نہیں تھا لیکن معشوقانہ بھی نہیں تھا اگر اجازت ہو تو اس عاشقانہ معشوقانہ پر ایک حقیقہ عرض کر دیں، بنوں شہر میں ایک صاحب عبدالحسن سابقہ قریشی ہوتے تھے جو شاعر سے کچھ زیادہ اور پاگل سے کچھ کم تھے، جانے کس طرح اسے پتہ چل جاتا تھا ک آج فلاں جگہ مشاعرہ ہے اپنے اس شوق میں وہ مردان، پشاور اور سوات تک بھی جایا کرتے تھے اور اپنا کلام جو صحیح معنوں میں بے لگام ہوتا تھا زبردستی سناتے تھے۔
شاعری میں وہ زبان کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے کبھی پشتو کبھی اردو کبھی ڈی آئی خان والی سرائیکی میں شروع ہو جاتے تھے اور یہ بھی پتہ نہیں چلنے دیتے تھے کہ کون سی زبان میں کب شروع ہوں گے، شاعری میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال، رحمن بابا کے کسی شعر یا مشہور گانے کو لے کر اس کی ''اصلاح'' کے لیے ایک دو لفظ بڑھا دیتے تھے مثلاً علامہ اقبال کی خودی کو کر بلند ۔ کو وہ یوں اصلاح کر کے پڑھتے تھے کہ
خدانخواستہ خودی کو کر بلند اتنا جتنا
کہ خدا سے بندہ پوچھے کہ دس تری مرضی کیا ہے
ان کے بے شمار قصے ہیں لیکن ایک جب بنوں کے ڈپٹی کمشنر مہمان خصوصی تھے جن کا نام کیپٹن (ر) عبدالرحمان تھا، عبدالحسن سابقہ قریشی کا نمبر جب آیا یوں کہئے جب وہ اپنا نمبر زبردستی لایا ہاں ان کے نام کا تجزیہ تو ہم نے کیا نہیں ابوالحسن کی جگہ وہ عبدالحسن پر اصرار کرتے تھے اور سابقہ قریشی کی وجہ بتاتے تھے کہ میں پہلے قریشی تھا لیکن جب پتہ چلا کہ ابوجہل بھی قریشی تھا تو میں اب سابقہ قریشی ہو گیا ہوں، مشاعرے میں پہلے تو اس نے مائیک کے سامنے مصرعہ پڑھا کہ
''میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ معشوقانہ تھا
کئی دفعہ ہر قسم کے ترنم میں یہی مصرعہ سنانے کے بعد وہ اچانک مائیک چھوڑ کر ڈی سی کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے اور بولے
''اور ترا مزاج (چار پانچ دفعہ دہرانے کے بعد) لڑکپن سے معشوقانہ عاشقانہ تھا''
بار بار آگے پیچھے ہو کر کبھی جھک کر ۔ ترا مزاج لڑکپن سے معشوقانہ عاشقانہ تھا اپنا مزاج تو وہ عاشقانہ معشوقانہ بتا چکے تھے، ڈی سی صاحب ان کو پہلے سے جانتے تھے اس لیے صرف چپ رہے اور ہنس دیے کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کیا ہو جاتا، تو ہمارا مزاج لڑکپن سے نہ تو عاشقانہ معشوقانہ تھا اور نہ معشوقانہ عاشقانہ لیکن ''تلفظانہ'' ضرور تھا کیونکہ ہمارے اسکول کے قاری جو جہلم کے رہنے والے ریٹائرڈ فوجی تھے لیکن الفاظ کی صحیح قرأت اور تلفظ پر زور دیتے تھے۔
گھروں میں سیکھا ہوا نماز کا سبق بھی جو زیادہ تر غلط ہوتا تھا وہ دوبارہ صحیح صحیح تلفظ کے ساتھ سکھاتے تھے چنانچہ ہمیں بھی الفاظ کو صحیح تلفظ کی عادت پڑ گئی اور اسی عادت نے ہمیں ایک دن خوب خوب نشانہ تضحیک بنایا، سرکش کو سرکس کہتا ہے، ساتھ تبصرے چالو ہو گئے یہ اسکول والا ہے سرکش نہیں سرکس ۔ یہ پڑھا ہوا دیکھو ۔ سرکش کو سرکس بولتا ہے سرکس، سرکش، سرکش، سرکش ۔ ہم اس کے بعد کچھ سنانے کے لائق ہی نہیں رہے کیونکہ ان سب کے خیال میں ہم نالائق پھسڈی اور احمق تھے جو سرکش کو غلط طریقے سے سرکس بولتے تھے، اور یہ بات آج تک ہم نے گانٹھ باندھی ہوئی تھی اور بھول کر بھی ''اکثریت'' کے خلاف کبھی بولتے نہیں تھے۔
مطلب یہ کہ ہر ''روم'' میں جا کر ''رومن'' بن جاتے تھے اور اس طرح بڑی سہولت رہتی تھی، لیکن انسان بندہ بشر ہے اور ہر وقت ''زبان'' پر پاسبان تلفظ بٹھانا بھی تو آسان نہیں ہے اس لیے گزشتہ دنوں پھر ایک غلطی ہو گئی جو تلفظ کی تو نہیں لیکن اس سے کچھ ملتی جلتی تھی ہم نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جو نہ صرف اپنی معنی کھو چکے ہیں بلکہ اپنا وجود بھی صرف کتابوں میں باقی رکھ سکے ہیں۔
ایک دعوت ولیمہ تھی اور ابھی کھانے میں کچھ دیر تھی ہم چند لوگوں ''عوام'' کے زمرے سے نکال کر خواص کے زمرے میں ڈال ایک الگ جگہ بٹھا دیا گیا ان میں زیادہ تر تو ٹھیکیدار تھے کیوں کہ شادی بھی ٹھیکیدار کے بیٹے کی تھی چنانچہ تعمیراتی اور ٹھیکہ جاتی محکموں کے افسر، ٹھیکیدار اور سیاہ ست کار بھی تھے خاص طور پر نئے بلدیاتی نظام کی چھوٹی بڑی ''سوئیاں'' تو کافی تعداد میں تھیں۔
اب جہاں ایسے لوگ ہوں وہاں خاموشی تو ہو نہیں سکتی چنانچہ ایک شخص نے شادی کے زبردست اور اونچے پیمانے کے انتظامات کو لے کر میزبان کی تعریف سے ابتداء کی پھر اس کی سخاوتوں کے قصے چلے اور پھر کامیابی اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ موصوف نے ایک معمولی آدمی سے ترقی کر کے یہ اونچا مقام حاصل کیا، ایک بیٹا منتخب نمایندہ ہے۔ ایک بڑا افسر ہے، دوسرا کسٹم میں انسپکٹر ہے اور تیسرا جس کی شادی ہو رہی تھی اپنے باپ کے نقش قدم پر ہے۔
یہی وہ موقع تھا جب ہماری اس حماقت مآب کھوپڑی میں کچھ کچھ ہوا اور اس منحوس منہ سے ''حرام و حلال'' کے الفاظ نکل گئے۔ بس پھر کیا تھا ساری توپوں کا رخ ہماری طرف ہو گیا ۔ پہلے تو حرام و حلال کے الفاظ دہرا کر ہمارا خوب خوب ٹھٹھا اڑایا گیا کہ کس زمانے میں کس چیز کا ذکر کر رہے ہو اور پھر ویسا ہی سلسلہ چل گیا کہ ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب ہم نے ''سرکش'' کو ''سرکس'' کہہ کر خود کو مصیبت میں ڈال دیا تھا۔
ہر طرف سے کچھ ایسے ہی جملے ہمیں مارے جانے لگے، حرام و حلال ہا ہا ہا ۔ حلال و حرام ہونہہ ۔ انگور کھٹے ہیں ایک نے تو صاف کہہ دیا کہ جو ہاتھ آئے وہ حلال اور جو ہاتھ نہ آئے وہ حرام ۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے ۔ مجلس کے تمام لوگوں کی متفقہ رائے تھی کہ ہم اگر پورے نہیں تو آدھے پاگل ضرور ہیں، اس نئی افتاد کے بعد ہم نے پکی پکی توبہ کر لی کہ آیندہ کبھی ''سرکش'' کو سرکس نہیں کہیں گے اور اگر منہ سے نکل گیا تو سوری کہہ کر فوراً تصحیح کر دیں گے کہ سوری منہ سے غلط نکل گیا، سرکش ۔ سرکش ۔ سرکش
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
دنیا میں کسی بھی لفظ کا کوئی تلفظ یا معنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ صحیح تلفظ اور صحیح معنے اس مقام کے ہوتے ہیں جہاں وہ لفظ بولا جائے ۔ اس لیے بزرگوں نے کہا ہے کہ پہلے تولو پھربولو ۔۔۔ بات کو نہیں بلکہ سننے والوں کو تولو تب منہ کھولو۔