مومن کی شان

راحیل گوہر  جمعـء 13 جنوری 2017
مومن کا ہر معاملہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے۔ فوٹو: فائل

مومن کا ہر معاملہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے۔ فوٹو: فائل

خوشی اور غم انسان کی باطنی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ اگر انسان اندر سے خوش و خرم ہے تو اسے اپنے اردگرد کی ہر شے خوشی و مسرت میں رقصاں نظر آئے گی، اس کا دل فرحت اور شادمانی کی کیفیت سے دوچار ہوگا۔

اس حالت میں اسے دنیاوی معاملات میں جوش و ولولے کے ساتھ ﷲ کی یاد اور دیگر عبادات میں بھی رغبت اور شوق بڑھ جا ئے گا۔ اس کے برخلاف اگر اندرونی طور پر کسی صدمے، غم اور احساس محرومی کا اثر ہوگا تو انسان کو دنیا بے مقصد، بے کیف، اجڑی، ویران اور رنج و الم میں ڈوبی محسوس ہوگی۔ حتیٰ کہ ذکر الٰہی اور عبادات کی طرف سے بھی اس کا جی اچاٹ ہوجا ئے اور بندگی رب کا مفہوم بے معنی سا لگے گا۔ تصوف کی زبان میں اس حالت کو قبض و بسط کی کیفیت کا نام دیا گیا ہے۔

ان کیفیات کے پس منظر میں سب سے اہم عنصر انسان کا وہ زاویۂ نگاہ ہے جس کے تحت وہ اپنی زندگی کو دیکھتا ہے۔ چناں چہ اگر کسی شخص نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اس کی زندگی میں کبھی کوئی دکھ، غم اور صدمہ پیش نہ آئے، وہ کبھی کسی آزمائش میں نہ ڈالا جائے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس نے زندگی کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ زندگی تو حوادث میں الجھ کر مسکرانے کا نام ہے، اشک بہانے اور دل برداشتہ ہو کر بیٹھ جانے کا نام نہیں۔

ارشاد با ری تعالیٰ ہے: ’’ وہی (ﷲ) تو ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرسکے کہ تم میں کون اچھے عمل کر نے والا ہے اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ الملک 20)

یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات کچھ چیزیں ہماری طبیعت پر گراں گزرتی ہیں اور ہمیں ان سے قلبی اور ذہنی اذیت پہنچتی ہے۔ لیکن ان ہی اذیت ناک اور ناپسندیدہ امور میں ہمارے لیے خیر پوشیدہ ہو تا ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

’’ عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو (ان باتوں کو) اﷲ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ 216)

ابن رشد نے کہا تھا ’’ دنیا میں جو برائی بھی پائی جاتی ہے، وہ بالذات نہیں بل کہ کسی نہ کسی بھلائی کی تابع اور لازم ہوتی ہے، مثلاً غصہ بری شے ہے لیکن یہ اس خوف کا نتیجہ ہے جس کی بہ دولت انسان خود کو خطرات سے بچاتا ہے۔ یہ خوف نہ ہو تو انسان ایک قاتل کے مقابلے میں بھی اپنی جان بچانے کی کو شش نہ کرے۔ آگ گھروں کو جلا ڈالتی ہے، شہر کے شہر تباہ ہو جاتے ہیں لیکن آگ نہ ہو تو انسان کو زندگی بسر کرنا محال ہوجائے۔‘‘

اﷲ کی طرف سے جب انسان پر آزمائشیں آتی ہیں تو بسا اوقات وہ ان میں پوشیدہ مصلحتوں کا ادراک نہیں کر پاتا اور پریشان ہوکر کبھی حالات کا رونا روتا ہے، کبھی تقدیر کو ملامت کرتا ہے۔ ان بدلتی کیفیات اور تغیرات کی حکمتیں اگر انسان پر آشکار ہوجائیں تو وہ خود اپنی اس فکری کجی پر پشیمان ہوگا کہ وہ کیسی نادانی اور کم فہمی میں مبتلا تھا

یہ ٹھیک ہے کہ بعض اوقات زندگی میں ناکامیاں، محرومیاں اور تلخیاں انسان کے جذبات و احساسات کو کچل کر رکھ دیتی ہیں، لیکن یہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب انسان قناعت نہیں کرتا، اپنی احتیاجات اور اپنی سماجی حیثیت سے بڑھ کر حصہ حاصل کرنے کی سعی لاحاصل کرتا ہے۔ قدرت نے انسان کی ضروریات پوری کرنے میں ہرگز بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ لیکن انسان فیصلے کرنے میں غلطی کرتا ہے اور وقتی جذبات کے زیراثر اپنے فکر و عمل کو ڈھال لیتا ہے۔ اگر وہ شعور و ادراک کی روشنی میں اپنی سمت مقرر کرے تو اپنی ناکامیوں کو کام یابیوں میں بدل سکتا ہے۔ یوں بھی ناکامیوں سے دوچار ہوئے بغیر کام یابی کی امیدیں باندھنا ایک احمقانہ طرز عمل ہے۔ جو لوگ کوئی کاروبار شروع کر نے سے پہلے اس کے نقصان کے پہلو پر نظر نہیں رکھتے، وہ کبھی کام یاب بزنس مین نہیں بن سکتے۔

ہم انسان بعض اوقات قادر مطلق کی ذات کو بھلا کر اپنے ہی جیسے انسانوں سے ایسی توقعات اور امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں جن کو کلی طور پر پورا کرنا ان کے اختیار ہی میں نہیں ہوتا۔ پھر ہم دل برداشتہ ہو تے اور پیچ و تاب کھاتے ہیں اور بدگمانیوں کا ایک پورا دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمیں حقیقت پسند بن کر سوچنا چاہیے کہ ہر انسان کا ایک محدود دائرہ کار ہوتا ہے جس میں رہ کر ہی وہ اگر کچھ کر نا چاہے تو کر سکتا ہے۔ چناں چہ صحیح اور راست طرز عمل تو یہ ہے کہ انسان انسانوں سے توقعات وابستہ کرنے کے بجائے اپنے ہر مسئلے اور ہر مشکل کے وقت ﷲ کو پکارے، وہ سمیع و بصیر ہے اور اصل کارساز، حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ وہ جو ہر شے پر قادر ہے اور ہماری ضرورتوں کو ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اگر کچھ ملے گا تو اسی کے در سے ملے گا۔ وہ اگر محروم رکھنا چاہے تو دنیا کا ہر دروازہ انسان کے لیے بند ہوجاتا ہے، جو اس کے در سے ٹھکرایا گیا ہو وہ اس عالم رنگ و بو میں کسی سے کوئی فیض حاصل نہیں کرسکتا۔

قناعت، میانہ روی اور آسائشوں سے کنارہ کشی انسان کو نڈر اور بہادر بناتی ہے۔ جو انسان اپنی ضرورتوں کو محدود کرلیتا ہے وہ کسی شے سے نہ خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔ انسان کی بے تحاشا احتیاجات اور لامحدود خواہشات ہی اسے دوسرے انسانوں کا دست نگر بنا تی ہیں اور سہاروں کی زندگی اس کو کم زور، خود غرض، بزدل، تن آساں اور بے حس و بے ضمیر شخص کے روپ میں ڈھال دیتی ہیں۔ خودداری اصل جوہر انسانیت ہے جو اس کے فکر و عمل کو جلا بخشتا اور روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ پھر خوشی اور غمی کا کوئی احساس اس کے قلب و ذہن میں کوئی آشفتہ سری کو پنپنے نہیں دیتا۔ عقیدہ راسخ اور قدرت پر یقین کامل ہو تو منزل آسان اور راستے ہم وار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں خود کو مزاحمت اور مخالفت کا عادی بنانا چاہیے، ان ہی تلخیوں سے زندگی میں حلاوت اور چاشنی پیدا ہوتی ہے۔

انسان کی روحانی تسکین کا واحد علاج صبر اور شکر کی روش کو اختیار کر لینے میں ہے۔ امام غزالی ؒ ’ احیاء العلوم ‘ میں فرماتے ہیں: ’’ یہ بات حدیث و آثار سے ثابت ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں، نصف صبر ہے اور نصف شکر۔ اور اسمائے حسنیٰ میں ’صبور‘ اور ’شکور‘ دونوں نام ہیں۔ تو صبر و شکر کا اوصافِ الٰہی اور اسمائے حسنیٰ میں داخل ہونا متحقق ہے اور ان دونوں سے جاہل ( یعنی نابلد) ہونا گویا ایمان کے دونوں حصوں سے جاہل رہنا ہے۔‘‘ صبر کے ضمن میں ارشاد ربانی ہے:

’’ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (اﷲ کی خوش نودی کی ) بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور

رحمت ہے اور یہی لوگ سیدھے رستے پر ہیں۔‘‘ ( البقرہ )

اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا دوسرا اہم پہلو شکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تاکیداً ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔‘‘ ہر انسان پر جہاں اﷲ کا شکر واجب ہے وہیں بندوں کا شکر اد ا کرنا بھی لازم ہے ۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا بھی شکرگذار نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ترمذی)

عمر بن خطاب ؓ نے رسول مکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم کون سا مال جمع کریں؟ آپؐ نے ارشاد فرما یا؛ ’’ ذکر کرنے والی زبان اور شکر ادا کر نے والا دل۔‘‘ (احیا ء العلوم، کتاب الشکر)

یہ دنیا ہر انسان کے لیے ایک امتحان گا ہ ہے۔ اگر یہاں کوئی خوشی یا کوئی نعمت اﷲ کی طرف سے میسر آجائے تو ایک مومن بندے کو اﷲ کے سامنے شکر و سپاس کا پیکر بن جانا چاہیے اور اگر وہ کسی نعمت سے محروم کر دیا جا ئے تو شکوہ و شکایت سے گریز کرتے ہوئے صبر و استقلال کے دامن کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے کہ یہی مومن کی شان اور اس کے کردار عمل کی رفعت و بلندی ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ایسے بندوں کے لیے بہت خوب صورت بات ارشاد فرما ئی ہے:

’’مومن کا ہر معاملہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے۔ مسرت کی بات ہو یا غم کی اس کے حق میں سب بہتر ہی بہتر ہوتی ہے، یہ مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ اگر اس کو کوئی خوشی کی بات پیش آئے تو وہ شکر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتی ہے اور اگر کوئی تکلیف پیش آ جائے تو وہ صبر کر لیتا ہے، یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم شریف)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔