چائلڈ لیبر کے خاتمہ کی ضرورت
یہ بچے کم عمر تو نہیں ہیں یہ بچے پاکستان کا وہ مستقبل ہیں جوآنے والے وقت میں نہ جانے کیا کروٹ لے گا
سندھ اسمبلی میں بچوں کی ملازمت پر پابندی کا نیا قانون منظورکرلیا جس کے مطابق کمسن بچوں کو ملازم رکھنے والے کو تین سال تک قید بھگتنا ہوگی۔ خلاف ورزی پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا بھی کرنے پڑے گا، بلاشبہ نئی قانون سازی کا مقصد چھوٹے بچوں کو ان مظالم سے بچانا ہے جو ان پر''غریب'' ہونے کی وجہ سے روا رکھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس طبیہ تشدد کیس کی سماعت جاری ہے، دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کا قانون ہی نہیں، ملزموں کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا جائزہ لیں گے۔ سندھ اسمبلی میں قانون کا منظور ہونا خوش آیند ہے جب کہ سپریم کورٹ کا تشویش میں مبتلا ہونا بھی درست ہے۔
دراصل پاکستان میں چائلڈ لیبرکا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہوچکا ہے،سب سے بنیادی مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مہنگائی ہے، ہم ابھی تک یہ شعورعوام میں بیدار ہی نہیں کرسکے کہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کر کے اپنا کنبہ اپنے وسائل کے مطابق چھوٹا رکھیں، ایک کمانے والا اور آٹھ کھانے والا معاملہ ہی چائلڈ لیبرکوجنم دیتا ہے۔محدود آمدنی والے گھرانے جب اپنے بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دلوا پاتے تو پھر وہ اپنے بچوں سے کام لینے لگ جاتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں چائلڈ لیبر پر نہ صرف پابندی ہے بلکہ یورپین ممالک میں پسماندہ ممالک سے تجارت پر اس لیے بین لگا دیا گیا ہے کہ وہاں زیادہ تر اشیاء کی تیاری میں چائلڈ لیبر استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان میں پانچ سے چودہ سال کی عمرکے کم ازکم چالیس ملین بچے ہیں۔ان چالیس ملین میں تین اعشاریہ آٹھ ملین بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں اوران میں سے پچاس فیصد زراعت جب کہ پچاس فیصد دوسرے شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کی مجبوریوں سے فائدہ کر انھیں کسی بھی قسم کا معقول معاوضہ نہیں دیا جاتا بلکہ الٹا انھیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ جو قوم اپنے معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے وہ دنیا میں کوئی مقام نہیں بنا سکتی ۔
یہ بچے کم عمر تو نہیں ہیں یہ بچے پاکستان کا وہ مستقبل ہیں جوآنے والے وقت میں نہ جانے کیا کروٹ لے گا ۔ان بچوں کے لیے ایڈ پلان اور الاؤنس مقررکرے تاکہ کوئی بچہ اپنے خوابوں سے محروم نہ رہ سکے ۔ قانون تو پاس ہوتے رہتے ہیں ، اصل مسئلہ تو ان پر عملدرآمد کا ہے ، جس کے بغیر یہ قانون صرف کتابوں میں ہی محفوظ رہ جاتے ہیں ۔