اخلاقیات اور اعتدال

فرح ناز  اتوار 29 جنوری 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

پاناما لیکس وبا کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ ڈرائیور سے لے کر ایوانوں تک پاناما لیکس کی بازگشت جاری ہے ، لوگ ایک دوسرے سے سوال بھی کرتے ہیں کہ ہوگا کیا؟ سپریم کورٹ میں تسلسل کے ساتھ اس کیس کو سنا بھی جارہا ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے ارکان روزانہ میڈیا کو بریفنگ بھی دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو القابات سے نوازا بھی جا رہاہے اور فتح کے نشانات بھی بنائے جارہے ہیں۔

عمران خان تسلسل کے ساتھ جب سے مسلم لیگ حکومت میں آئی ہے مختلف الزامات لگاتے چلے جارہے ہیں۔ مسلسل جدوجہد کرتے جارہے ہیں، کبھی ووٹوں میں ہیرا پھیری، کبھی دھرنے،کبھی جلسے اور عزم بھی رکھتے ہیں کہ آخر دم تک وہ کرپشن کے خلاف لڑتے رہیں گے اور یہ بھی عزم رکھتے ہیں کہ پاکستان کوکرپشن سے پاک کریں گے، چھوٹا کیا، بڑا کیا سب کو قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔

ﷲ کرے کہ پاکستان میں ایسا ہی ہوجائے جس کے آثار ناممکن ہی نظر آتے ہیں۔ چھوٹے لیول سے لے کر بڑے لیول تک کرپشن کی جڑیں بہت مضبوطی کے ساتھ موجود ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شاید لوگ بغیر کرپشن کے جی بھی پائیںگے یا نہیں خون ایسا منہ کو لگا ہوا ہے کہ مشکل ہی نظر آتا ہے۔

بہرحال بے انصافی کے معاشرے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے ہیں، لوگوں کے حقوق زیادہ دیر تک غصب نہیں کیے جاسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان اس ملک میں انصاف کی موجودگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ امیدیں بہرحال رکھنی چاہیے کہ ہم مسلمان اﷲ تعالیٰ سے ہمیشہ خیر اور بھلائی کی امید ہی رکھتے ہیں حالانکہ پورا معاشرہ عجیب بدحواسی کا شکار نظرآتا ہے۔ کرپشن گھروں کی چار دیواری سے لے کر ایوانوں تک نظر آتی ہے۔ سبزی فروش سے لے کر بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، تعلیمی اداروں سے لے کر اسپتالوں تک اورکہاں کہاں نہیں!

بہرحال پاناما کیس کے معاملات دن بدن گمبھیر ہوتے جارہے ہیں ۔اب دیکھتے ہے کہ ہمارے جج صاحبان ہماری عدالتیں، عوام کے وہم و گمان پر اس ملک میں انصاف کی نئی تاریخ رقم کرتی ہیں یا پھر ہم دیکھیںگے 70 سال ہوگئے پاکستان کو قائم ہوئے اور سیکڑوں سال تک یہ ملک قائم و دائم ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبردست دماغ اور زبردست محنت کرنے والے لوگوں سے یہ سرزمین بھری ہوئی ہے۔

ﷲ عالیشان نے انتہائی قیمتی معدنیات سے ہمیں نوازا ہوا ہے اور یہ سب کچھ اس ملک کی میراث ہے کسی انفرادی شخص یا خاندان کی میراث نہیں،اس میں بسنے والا ہر شہری یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس ملک سے فیضیاب ہو نہ کہ عوام اسپتالوں سے باہر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں اور آنکھوں پر چڑھی پٹیاں کھل ہی نہ پائیں۔

وزیراعظم نے ملتان میں میٹرو بس کا افتتاح کیا اور اپنی تقریر میں فرمایا کہ انھیں آج معلوم ہوا ہے کہ ملتان کے لوگ کتنی مشکلات سے سفرکرتے تھے۔ بس سے رکشہ، رکشے سے بس اب اﷲ کے فضل سے میٹرو آگئی ہے تو ملتان کے لوگوں کے لیے سہولت ہوگئی۔

3 دفعہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والے، تین ادوار وزارت کے گزارنے والے وزیراعظم اس حد تک بے خبر ہیں کہ آج 2017 میں انھیں اپنے ملک کے ملتان کے لوگوں کی سفری مشکلات کا علم ہوا۔ پاکستان سے جلاوطنی نواز شریف اور ان کے خاندان نے سعودی عرب میں گزاری، کئی سال حرم شریف اور مدینہ منورہ کے قریب رہنے والے وزیراعظم، حضرت عمرؓ کی خلافت سے بے خبر نہیں ہوںگے، رسول پاکؐ اور نبیوں اور صحابہ کرام کی زندگی کے حالات وواقعات ہم بچپن سے ہی پڑھتے آرہے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو ان روشن مثالوں سے خالی کرلیا ہے۔

جدید ترین دنیا میں جہاں سفرکوآسان بنایا جارہا ہے وہاں تعلیم و صحت کو بھی پہلی ترجیح دی جارہی ہے، خاص کر تعلیم کی پہنچ کو اتنا آسان بنایا جارہاہے کہ تمام لوگ اپنی سوچ اور اپنے ذہن کے مطابق معاشرے کو بنانے میں اپنا کردار شامل کرسکے، جب کہ ہمارے ملک میں کچھ الٹا ہی نظر آتا ہے، KPK میں تعلیم پھیل رہی ہے، پنجاب میں بھی کام ہورہاہے، مگر سندھ میں حال برا ہے۔ تعلیمی بجٹ نہایت کم ہوگیا ہے خاص طور پر خواتین اور بچیوں کے لیے تعلیم اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ ماؤں کی گود پڑھی لکھی ہوگی تو نسل بھی علم کے راستے پر ہوگی۔ خواتین کو برائی سے بچنے کے لیے ان کو معاشرے میں نہایت فعال مقام دلانے کے لیے تعلیم کا ہونا بے انتہا ضروری ہے۔

یہ وہ ہنگامی ترقیاتی اقدام ہیں جن پر وزیراعظم کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاناما پیپر زمیں، تمام کی تمام سیاست انوالو نظر آتی ہے، اپوزیشن بھی ہارنا نہیں چاہتی اور حکومت بھی، مگر ان تمام کا نقصان عوام کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔ ذمے داریاں صرف عوام ہی کا مقدر نظر آتی ہے رگڑے بھی بے چارے عوام ہی کھارہے ہیں، کروڑوں، اربوں کا کھیل ایوانوں میں جاری ہے حالانکہ ایوان تو ان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔

پاکستان کی خاتون، ماڈرن، لبرل تو ہوگئی ہے مگر بد قسمتی سے تعلیم و تربیت سے خالی بھی ہوگئی ہے، خوبصورت بنانے کے ہزاروں نسخے دن و رات خواتین کو بتاتے جارہے ہیں گوری رنگت، موٹاپا ختم مگر اخلاقیات صفر پر آرہی ہے۔ ایک Objective بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنا، یہ ہمارا کلچر نہیں، یہ ہماری روایات نہیں، ملک کی بنیادیں، حکومتیں اور لیڈر ہی مضبوط کرتے ہیں، ہمارے گھر خود بخود مضبوط ہوجائیںگے۔

وزیراعظم اور ان کے خاندان کے نام دن و رات خبروں کا حصہ ہے، بی بی سی سے لے کر جرمن اخبار تک ہمارے وزیر اعظم کے منی لانڈرنگ ثبوت فراہم کررہا ہے۔ اپوزیشن چیخ رہی ہے عوام حیران و پریشان ہے پاکستان کس سمت رواں دواں ہے، ہماری اخلاقیات کس سمت جارہی ہے حالانکہ سیاست تو اخلاقیات کا ہی نام ہے۔

پاناما لیکس، پاکستانیوں نے نہیں نکالی، اس میں جن جائیدادوں کا ذکر ہے وہ حسین نواز میڈیا پر قبول بھی کرچکے ہیں، قطری شہزادے کا خط بھی آچکا ہے باہر کا میڈیا بھی فہرستیں جاری کرچکا ہے مگر جوکرچکے ہیں وہ ماننے کو تیار نہیں۔

کون سے فرشتے آکر تمہیں اخلاقیات گھول کرپلائیں۔

یہ وہ ملک ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، نوجوانوں کا ملک ہے یہ اور اس ملک میں اﷲ ور اس کے رسولؐ کا درجہ سب سے زیادہ بلند ہے اس ملک میں رہنے والے، کھانے والے، بسنے والے اگر دوغلے ہوجائیں اور اپنے آپ کو ہی عقل کل ماننے لگیں تو پھر تیا رہیں اﷲ کے عذاب کے لیے۔ تقریباً 20 کروڑ کی آبادی، جہاں کبھی طیبہ جیسی بچی پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں کبھی چھ سالہ بچی کو درندے اپنی ہوس کا نشانہ بنائے خواتین خودکشیاں کرلیں، مرد اپنی اولادوں کا برائے فروخت لکھ دیں جہاں عورتیں حجاب میں اﷲ والیاں بن جائے اور ان کے مرد ناچ گانے کو پروموٹ کرنے میں لگ جائیں نہ اولاد کو والدین کی فکر اور نہ والدین کو اولاد کے فرائض یاد رہیں۔ کیا یہ سب حکومتوں کی ذمے داریوں سے مبرا ہے؟ ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے جیسے ہوچکا ہے، بھٹو کے بعد ضیا الحق کا دور، جس کو ہم سب آج تک بھگت رہے ہیں۔ اعتدال اور اخلاقیات ہی ہماری شدید ضرورت، توجہ دیجیے ورنہ ہم کہیں کے نہیں رہیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔