دہشت گردی کا خاتمہقومی یک جہتی سے ممکن
سیکیورٹی ایجنسیز کو افغانستان سے خود کش بمباروں کی مہمند ایجنسی میں داخلے کی رپورٹس ملی تھیں
پشاور، مہمند ایجنسی اور شبقدر میں 4خودکش حملوں میں4 اہلکاروں سمیت 7 افراد شہید اور 9زخمی ہوگئے جب کہ سرچ آپریشن میں 5 دہشت گرد مارے گئے۔ پشاور کے علاقہ حیات آباد میں ماتحت عدلیہ کے ججز کو لے کر جانیوالی گاڑی پر خُودکش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق، چار ججز سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے، مہمند ایجنسی کے ہیڈکوارٹر غلنئی میں پولیٹیکل انتظامیہ کے دفترکے مین گیٹ پر دو خودکش حملے کیے گئے جس میں 3 خاصہ داروں سمیت 5افراد جاں بحق ہوئے، شبقدر میں ایک بمبار نے خودکو اُڑا لیا، لائس نائیک شہید ہوگیا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور وفاقی وزیر داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے جب کہ چوہدری نثار نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ صدر ممنون حسین، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، مولانا فضل الرحمن، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی اور دیگر رہنماؤں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ گورنر خیبر پی کے اقبال ظفر جھگڑا نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی دہشت گردی کے خلاف قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، پوری قوم دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے۔
دہشت گردوں نے ایک عرصے بعد پھر بزدلی اور سفاکیت کا خونی کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے' 13فروری کو لاہور میں خود کش بم دھماکے میں 2اعلیٰ پولیس افسران سمیت 13افراد شہید اور 83سے زائد زخمی ہو گئے تھے' اب پشاور اور مہمند ایجنسی میں اس سلسلے کو دہرایا گیا ہے۔ لاہور اور پشاور دھماکوں کے بعد اسلام آباد میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے' ریڈ زون عدالتوں کی سیکیورٹی مزید بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے تمام پولیس ملازمین کی ایمرجنسی کے سوا چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیز کو افغانستان سے خود کش بمباروں کی مہمند ایجنسی میں داخلے کی رپورٹس ملی تھیں' ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مہمند ایجنسی میں دہشت گردی کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ جماعت الاحرار نے پیر کو لاہور میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی اب اس نے غلنئی حملے کی ذمے داری بھی قبول کر لی ہے تاہم پشاور حملے کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق بدھ کو افغانستان کے نائب سفیر سید عبدالناصر کو دفتر خارجہ طلب کرکے افغانستان میں دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان کی سرزمین پر مسلسل دہشت گرد حملوں پر پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا' افغان مشن کے نائب سربراہ کی توجہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کو فراہم کردہ انٹیلی جنس معلومات کی طرف بھی دلائی گئی جس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی' افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے علاقے سے آپریٹ کرنے والے دہشت گردوں' ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور انھیں مالی امداد دینے والوں کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرے۔
دہشت گردوں کی ملک دشمنی بر مبنی کارروائیوں کے سبب ملک بھر میں ایک ہیجان برپا ہے' یوں معلوم ہوتا ہے کہ غیرملکی دشمن اور داخلی دہشت گرد ایک خاص منصوبے کے تحت پاکستان کو پھر سے عدم استحکام کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ مختلف مقامات پر ہونے والی بم دھماکوں کی کارروائیاں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر اس کے معنی اور مفہوم کے مطابق عملدرآمد نہ ہونے کا شکوہ تو کیا جاتا ہے مگر ابھی تک تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے زعماء دہشت گردی کے خلاف یکساں سیاسی بیانیہ کے اظہار کے باوجود اس عفریت کے خاتمے کے لیے ایک پیج پر اکٹھے نہیں ہو سکے۔ قوم مذہبی جماعتوں کے اس رویے سے مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہے اس کی تمام تر توقعات سیاسی اور عسکری قیادت سے وابستہ ہو چکی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے بھرپور سرگرم ہیں اور انھیں چند وطن دشمن عناصر کو گرفتار کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے کی حد تک کچھ کامیابیاں ملی ہیں مگر دہشت گردوں کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے کہ وہ کچھ عرصے بعد پھر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے اور ان کے سہولت کاروں کی گرفتاری کے لیے پوری قوم کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر اکٹھا ہونا ہو گا اس سلسلے میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ورنہ دہشت گرد ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال سے یونہی کھیلتے رہیں گے۔