میں شیطان ہوں

اس شخص نے جواب میں کہا تم میری شناخت رکھتے ہو، تم نے مجھے کم از کم ایک ہزار مرتبہ دیکھا ہے


Aftab Ahmed Khanzada January 11, 2013

خلیل جبران لکھتا ہے لوگ فادر سیمان کو اپنا رہبر اور رہنما تصور کر تے تھے کیونکہ مذہبی میدان میں وہ ایک سند کا درجہ رکھتا تھا اور گنا ہ اور ثواب کے بارے میں بھی گہری معلومات رکھتا تھا۔ شمالی لبنان میں فادر سیمان کا مشن یہ تھا کہ وہ گائوں گائوں سفر کرتا اور لو گوں کو مذہبی درس دینے کے علاوہ ان کا رو حانی علاج بھی سر انجام دیتا تھا اور ان کو شیطان کے خطرناک جال میں پھنسنے سے بچاتا تھا۔ یہ موسم خزاں کی ایک شام تھی، فادر سیمان ایک گائوں کی جانب رواں دواں تھا، وادیوں اور پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے اس نے دردناک چیخ کی آواز سنی، جو ایک کھائی سے برآمد ہو رہی تھی۔

وہ رک گیا اور آواز کی سمت دیکھنے لگا، اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو کپڑوں سے بے نیاز زمین پر پڑا تھا۔ اس کی چھاتی اور سر پر گہرے زخم تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا، وہ مدد کے لیے پکار رہا تھا اور دہائی دے رہا تھا کہ مجھے بچالو، میری مدد کرو، مجھ پر رحم کرو، میں مررہا ہوں۔ فادر سیمان نے اس مصیبت زدہ شخص کی جانب دیکھا اور اپنے آپ سے کہا عین ممکن ہے کہ یہ آدمی چور یا ڈاکو ہو، شا ید اس نے راہ گیروں کو لوٹنے کی کوشش کی ہو اور ناکام رہا ہو اور کسی نے اسے زخمی کر ڈالا ہو اور مجھے خطرہ ہے اگر یہ مو ت سے ہمکنار ہوگیا تو مجھے اس کی جان لینے کے جرم میں دھرلیا جائے گا۔ یہ سوچنے کے بعد ا س نے اپنا سفرجاری رکھا لیکن موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے اس شخص کی آواز نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ شخص پکار رہا تھا مجھے بے یار و مددگار چھوڑ کر نہ جائو میں مر رہا ہوں۔ فادر سیمان ایک مرتبہ پھر سوچ میں پڑگیا، زخمی شخص کی آواز نے اس کے قدم روک لیے۔

وہ کہہ رہا تھا، آئو میرے قریب آئو کیونکہ ہم عر صہ دراز سے دوست چلے آرہے ہیں، تم فادر سیمان ہو اور میں چور نہیں ہوں اور نہ ہی پاگل ہوں، میرے قریب آئو، میں تمہیں بتائوں کہ میں کون ہوں۔ فادر سیمان اس شخص کے قریب چلا آیا اس پر جھکا اور اس پر ایک نظر ڈالی، اسے اس شخص کا چہر ہ اور نین نقش عجیب سے دکھائی دیے۔ اس مرتے ہوئے شخص نے پست آواز میں کہا۔ مجھ سے خوف مت کھائو، مجھے کسی نزدیکی چشمے کے پا س لے چلو اور میرے زخم صاف کرو۔ فادر نے پوچھا، مجھے بتائو کہ تم کون ہو۔

اس شخص نے جواب میں کہا تم میری شناخت رکھتے ہو، تم نے مجھے کم از کم ایک ہزار مرتبہ دیکھا ہے اور تم روزانہ میرے بارے میں بات بھی کرتے ہو۔ فادر نے کہا، تم جھوٹے اور دغا باز دکھائی دیتے ہو، موت کی دہلیز پر کھڑے شخص کو سچ بولنا چاہیے، میں نے اپنی پوری زندگی میں تمہارا بدچہرہ نہیں دیکھا۔ اس کے بعد اس زخمی شخص نے آہستگی کے ساتھ حرکت کی اور پا دری کی آنکھوں میں جھانکا، اس کے چہرے پر ایک پرا سرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے کہا ''میں شیطان ہوں''۔

فادر سیمان نے شیطان کو بغور دیکھا، اس کے خدوخال اور اس کا جسم واقعی اس شیطان سے ملتا جلتا تھا جس کی تصویر کشی مذہب نے کی تھی اور جو گائوں کے چرچ کی دیوار پر آویزاں تھی۔ وہ کانپنے لگا اور چلاتے ہو ئے کہنے لگا، خدا نے مجھے تم جیسے ملعون، دوزخی اور جہنمی کو دکھایا ہے اور تمہارے لیے میرے دل میں نفرت بھی کوٹ کوٹ کر بھردی ہے، تم پر ہمیشہ لعنت ہو۔ شیطان نے جواب میں کہا، جلدی کرو فادر اور وقت کو باتوں میں ضایع مت کرو، آئو اور میرے زخموں کا کوئی تدارک کرو، پیشتر کہ زندگی میرے جسم سے رخصت ہوجائے۔ پادری نے جواب دیا کہ وہ ہاتھ جو روزانہ خدا کے حضور قربانی پیش کرتے ہیں، وہ ہاتھ جہنم کے ایندھن کو نہیں چھوسکتے، تمہارا مرجانا ہی بہتر ہے کیونکہ تم انسانیت کے دشمن ہو اور تمہاری خواہش یہ ہی ہے کہ تم تمام تر نیکی کو صفحہ ہستی سے مٹا دو۔

شیطان نے پادری کی با ت کا برا منایا اور طیش میں کہنے لگا۔ ''تم نے میرے وجود کو ایک بہانہ اور ایک ہتھیار بنا رکھا ہے، تم میرے نام کی بدولت اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالتے ہو۔ کیا تم یہ محسوس کرنے سے قاصر ہو کہ اگر میں مرگیا تو تم بھی بھوکوں مرجائو گے، اگر تم نے آج مجھے مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا تو کل تم کیا کرو گے؟ اگر میرا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا تو تم کون سا پیشہ اختیار کرو گے، تمہارا پیشہ بھی میرے ساتھ ہی اپنی موت آپ مرجائے گا کیونکہ لوگ گناہوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔ تم جانتے ہو کہ میری موت سے تمہاری عزت، تمہارا وقار، تمہارا گھر اور تمہاری زندگی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر میرا وجود نہ ہوتا تو کوئی عبادت گاہ نہ بنتی، کوئی مینار یا محلات تعمیر نہ ہوتے۔ میں انسان کو عزم بخشتا ہوں، میں شیطان ہوں جس کے ساتھ لوگ جنگ کر تے ہیں تاکہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکیں۔

اگر وہ میرے خلاف جدوجہد سے دست بردار ہوجائیں تو سستی اور کاہلی ان کے ذہنوں کو مردہ کردے، ان کے دلوں اور ان کی روحوں کو مردہ کر دے۔ میں ایک خوفناک طوفان باد و باراں ہوں جو انسانوں کے ذہنوں میں ہلچل مچاتا ہے۔ اور میرے خوف کے مارے وہ دور دراز کا سفر طے کرتے ہوئے عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ میری مذمت سر انجام دے سکیں۔ میں خوف و ہراس کی بنیادوں پر عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا معمار ہوں۔ اگر میری ہستی ناپید ہوجائے تو خوف اور لطف اندوزی اس دنیا سے ناپید ہوجائے گی اور ان کے ناپید ہونے سے انسان کے دل سے خواہشات اور امیدیں ناپید ہوجائیں گی، زندگی کھوکھلی اور خالی ہو کر رہ جا ئے گی۔''

شیطان نے اپنی آنکھیں فادر سیمان کے چہرے پر گاڑ دیں اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔ اب تم وہی کرو جو تمہاری مرضی، جو تمہاری خوشی تم مجھے اپنے گھر بھی لے جاسکتے ہو اور میرے زخموں کا علاج کرسکتے ہو یا پھر تم مجھے اسی جگہ پر مرنے کے لیے چھوڑ سکتے ہو۔ فادر سیمان کانپنے لگا اور کہنے لگا۔ ''تمہارا وجود اس دنیا میں وجہ تحریص ہے اور تحریص ایک ایسی تدبیر ہے جس کے ذریعے خدا انسانی روحوں کی آزمائش کرتا ہے، یہ وہ ترازو ہے جس کا استعمال خدا روحوں کو تولنے کے لیے کرتا ہے۔ تمہیں لازماً زندہ رہنا چاہیے اگر تم موت سے ہمکنار ہوگئے اور لو گ اس حقیقت سے آگاہ ہوگئے تو ان کا جہنم کا خوف رفع ہوجائے گا اور وہ عبادت سے منہ موڑ لیں گے کیونکہ گناہ کا تصور ہی ختم ہوکر رہ جائے گا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تمہاری خاطر اپنی نفرت کی قربانی ضرور دوں گا، انسان کی محبت میں، میں یہ قربانی ضرور دوں گا۔''

فادر سیمان کی طرح پاکستان میں بھی کچھ سیاست دان، کچھ جاگیردار و سرمایہ دار، کچھ اینکرز، کچھ کالم نویس، یہ سب ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آمریت کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ آمریت اور غیر جمہوری قوتوں سے ان کو اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنی زندگی سے ہے کیونکہ آمریت ہی میں ان سب کی بقا ہے، ان کی خوشحالی، عہدے، رتبے سب آمریت سے ہی مشروط ہیں۔ یہ سب جمہوریت سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنا انسان شیطان سے کرتا ہے، ان کا اگر بس چلے تو یہ تمام حضرات جمہوریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہیں دفن کردیں ۔

کیونکہ انھیں دراصل عوام سے نفر ت ہے، عوام کی ترقی، خوشحالی اور ان کے حق حکمرانی سے نفرت ہے، یہ جمہوریت کے دشمن بھیس بدل بدل کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششوں میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ ان کی جانب سے عوام کے مقبول سیاست دانوں پر الزامات در الزامات کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ لیکن عوام ہیں کہ ان کی باتوں کو سچ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کے عوام انتہائی باشعور ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل صرف جمہوریت ہی ہے، ان کی طاقت اور خوشحالی صرف جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آج ملک میں جو جمہوریت ہے، وہ عوام کی قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے اور پاکستان کے عوام جمہوریت کی حفاظت کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔

مقبول خبریں