چوہدری اسلم پر حملہ کے نئے انکشافات نے پولیس میں ہلچل مچا دی

کاشف ہاشمی  اتوار 2 اپريل 2017
اہم شخصیات کا سکیورٹی پلان ازسرنومرتب اور سکیورٹی اہلکاروں کی دوبارہ تصدیق کا امکان۔ فوٹو: فائل

اہم شخصیات کا سکیورٹی پلان ازسرنومرتب اور سکیورٹی اہلکاروں کی دوبارہ تصدیق کا امکان۔ فوٹو: فائل

کراچی: ایس ایس پی سی آئی ڈی کراچی چوہدری اسلم کی رہائش گاہ پر خودکش حملے کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات نے جہاں ہلچل مچا دی ہے، وہیں پر اعلیٰ پولیس افسران کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں اور یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ جو بھرتیاں پولیس میں کی گئی تھیں یا جو اہلکار اہم شخصیات کی سکیورٹی پر مامور ہیں ان کی دوبارہ سے مکمل تصدیق کرائی جائے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کا تعلق کسی تنظیم یا گروپ سے تو نہیں ہے؟ اسی حکمت عملی کے تحت اہم شخصیات کی سکیورٹی کے لیے بنائے گئے پلان کو دوبارہ مرتب کیے جانے کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کورنگی مہران ٹاؤن سے گرفتار کالعدم تنظیم کے گرفتار دہشت گردوں کی جانب سے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کے سامنے کیے جانے والے انکشافات کہ شہید ایس ایس پی سی ٹی ڈی چوہدری اسلم کے ڈیفنس میں واقع بنگلے پر خودکش حملہ کرانے میں دہشت گردوں کو معلومات فراہم کرنے والا ان کا اپنا سب سے زیادہ بااعتماد محافظ کامران عرف کامی تھا جو کہ پولیس میں بھرتی سے قبل کالعدم تنظیم کا کارکن تھا، جس نے پولیس میں ملازمت اختیار کر کے اپنا تبادلہ چوہدری اسلم کے سیل میں کرا لیا اور آہستہ آہستہ چوہدری اسلم کے اتنا قریب ہوگیا کہ دیگر افسران و اہلکار بھی اس سے جلنے لگے تھے تاہم وہ اپنی شاطر چالیں کامیابی سے کھیلتے ہوئے شہید چوہدری اسلم کا ناصرف انتہائی بااعتماد بن گیا بلکہ گھر کے بھی تمام معاملات اس نے اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔

دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ سول لائن پولیس نے گزشتہ ماہ 6 مارچ کو کورنگی صنعتی ایریا کے علاقے مہران ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں کالعدم تنظیم کراچی کے سلیپر سیل کے امیر دلدار عرف چاچا کو ہلاک کر کے دیگر 4 دہشت گردوں جاوید عرف قاری، وزیر حسین عرف ریحان ، ظفر علی عرف سائیں اور سید حسان علی عرف شاہ جی کو گرفتار کر کے بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد، اسلحہ، دستی بم ، مارٹر گولے، راکٹ، خودکش جیکٹ اور ڈیٹو نیٹرز سمیت دیگر سامان برآمد کیا تھا۔

گرفتار دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے فوری طور پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے مختلف مراحل میں گرفتار دہشت گردوں سے علیحدہ علیحدہ تفتیش کی اور اس دوران گرفتار دہشت گردوں نے ایک ایسا انکشاف کر دیا جس کے سنتے ہی محکمہ پولیس میں ہلچل مچ گئی اور پولیس کے اعلیٰ افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟

اس حوالے سے انچارج کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ راجہ عمر خطاب نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے حکم پر صحافیوں کے لیے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا اور بتایا کہ گرفتار دہشت گردوں سے جے آئی ٹی مکمل کرلی گئی ہے اور ممبران کے سامنے دہشت گردوں نے انکشاف کیا کہ شہید چوہدری اسلم کا انتہائی بااعتماد محافظ کامران عرف کامی ہمارے ساتھی عمران عرف موٹا سے رابطے میں تھا اور چوہدری اسلم کے ڈیفنس میں واقع بنگلے پر کیے جانے والے بم دھماکے کی ریکی میں مدد فراہم کی تھی۔

گرفتار 4 دہشت گردوں میں شامل جاوید عرف قاری نے جے آئی ٹی میں انکشاف کیا کہ چوہدری اسلم کے بااعتماد محافظ کامران عرف کامی کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا اور وہ عمران بھٹی عرف موٹا کا انتہائی قریبی دوست اور ان کی رہائش گاہ بھی ایک ہی علاقے میں تھیں۔ چوہدری اسلم کے گھر پر حملے کے لیے گھر کی نشاندہی اور اوقات کار کے بارے میں ہمیں عمران بھٹی کے ذریعے کامران عرف کامی نے ہی معلومات فراہم کی تھیں۔

شہید پولیس افسر کی رہائش گاہ ڈیفنس فیز 8 اسٹریٹ 32 خیابان جامی سے 19 ستمبر 2011ء کی صبح تقریباً 7 بج کر 25 منٹ پر باردو سے بھری ہوئی ایک گاڑی ٹکرا دی گئی تھی، تاہم اس حملے میں نہ صرف چوہدری اسلم بلکہ ان کی اہلیہ اور بچے بھی محفوظ رہے جبکہ دھماکے میں 3 پولیس اہلکاروں اور ماں ، بیٹے سمیت 8 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

کامران عرف کامی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ 2002ء میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوا تھا، اس کا آبائی تعلق ہری پور ہزارہ سے بتایا جاتا ہے جبکہ چوہدری اسلم کا بھی آبائی تعلق وہیں سے تھا، چوہدری اسلم کے گھر پر کیے جانے والے خودکش حملے کے بعد کامران عرف کامی ہی موقع پر پہنچنے والا پہلا شخص تھا، دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد اس حوالے سے بھی متضاد اطلاعات گردش کرتی رہیں کہ چوہدری اسلم کے محافظ کامران عرف کامی نے ہی ان کی گاڑی میں دھماکا خیز مواد رکھوایا تھا تاہم انچارج سی ٹی ڈی سول راجہ عمر خطاب نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ 9 جنوری 2014ء کو لیاری ایکسپریس وے پر چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کیا گیا تھا اور اس میں کامران عرف کامی بھی مارا گیا تھا جس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ وہ ذہنی طور پر جہادی تھا اور اس نے اپنی تنظیم سے وفاداری نبھانے کے لیے چوہدری اسلم سے غداری کی جبکہ اس نے کروڑوں روپے کی اپنی بیمہ پالیسی بھی لے رکھی تھی۔

گرفتار دہشت گرد نہ صرف چوہدری اسلم بلکہ ماضی میں پاک بحریہ کی بسوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں اور اسی وجہ سے کسی بھی ملزم سے تفتیش کے لیے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں پاک بحریہ کے افسر کو بھی شامل کیا گیا۔

چوہدری اسلم پولیس کا ایک ایسا افسر تھا جو کئی مقابلوں میں کالعدم تنظیموں کے اہم کارندوں کو نہ صرف مار چکا تھا بلکہ درجنوں کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن ایسے پولیس افسر کا محافظ، جس کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا، کسی کو خبر تک نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ لہذا اس کیس کے تمام پہلوؤں پر باریک بینی سے تحقیقات کو یقینی بناتے ہوئے اس بات کا پتہ چلانا ہوگا کہ پولیس میں بھرتی افسران و اہلکاروں میں سے کون کالعدم تنظیموں کا رکن ہے یا ان کے لیے کام کر رہا ہے؟

دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا ہے، جس دوران جہاں سکیورٹی اداروں کے افسران و جوان شہادت کا رتبہ حاصل کر رہے ہیں وہیں پر بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو بھی نہ صرف منطقی انجام تک پہنچایا جا رہا ہے بلکہ گرفتاریاں اور بھاری تعداد میں گولا بارود اور جدید ہتھیاروں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اس آپریشن میں ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا صفایا کیا جا رہا ہے لہذا اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور انھیں اپنے محلوں اور گلیوں میں مشتبہ افراد پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی، اس سلسلے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب کراچی پولیس چیف کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ شہر بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے خلاف کارروائیوں کو نہ صرف تیز کیا جائے بلکہ سندھ عارضی رہائش ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے مالک مکان اور کرایے داروں کے خلاف بھی بھرپور کارروائیاں کی جائیں۔

اس ہدایت کے بعد کراچی پولیس کی جانب سے شہر بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو پالیسیاں بنا رہی ہے پولیس کے اعلیٰ افسران ان پالیسیوں پر مکمل طور پر عملدرآمد کرائیں اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کو جدید آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تفتیش کے نظام میں سقم کو بھی دور کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔