نماز مومن کی معراج ہے

’’اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ باغوں میں عزت سے رہیں گے۔‘‘ (سورہ معارج آیت نمبر34-35)


Khalid Danish January 18, 2013
عبادت کا حق یہ ہے کہ ہم ہر کام میں اپنے معبود کی رضا اور ناراضگی کو پیش نظر رکھیں. فوٹو: ایکسپریس

ارشاد رب ذوالجلال ہے '' اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔'' (الذریت: 56)

حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک جتنے بھی انبیاء کرام و رُسل دنیا میں تشریف لائے، انھوں نے اﷲ جل جلالہ کی بندگی (عبادت) کو ضروری قرار دیا۔ عبادت دین کی روح اور جان ہوتی ہے۔ عبادت کے معنیٰ اطاعت و فرماںبرداری کے ہیں، یعنی بندہ اپنے معبودکے احکامات کی پاسداری کرے اور نبی اکرم ﷺ کی خوب صورت و جامع سیرت کے مطابق زندگی گزارے۔

سورہ یوسف میں ارشاد ہوتا ہے کہ '' اس کے سوا کسی کی عبادت و اطاعت نہ کرو۔''
عبادت کا حق یہ ہے کہ ہم ہر کام میں اپنے معبود کی رضا اور ناراضگی کو پیش نظر رکھیں۔ اﷲ جل شانہ کے نزدیک تمام اعمال صالحہ میں نماز سب سے پسندیدہ عبادت ہے۔ نماز اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ دین کی تکمیل ادائیگی نماز کے بغیر ناممکن ہے، جس طرح بغیر ستون کے عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی عین اسی طرح نماز کے بغیر دین اسلام کی عمارت نہیں کھڑی ہوسکتی۔ چناں چہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''نماز دین کا ستون ہے۔'' لہٰذا نماز سے غفلت مت کیجیے۔ نماز پنجگانہ کا اہتمام کیجیے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ باغوں میں عزت سے رہیں گے۔'' (سورہ معارج آیت نمبر34-35)

قرآن مجید میں نماز کے لیے لفظ ''الصلوٰۃ'' استعمال ہوا ہے۔ لغت میں ''صلوۃ'' کے معنیٰ ذکر اور فرماںبرداری کے ہیں اور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد معروف عبادت ''نماز'' ہے۔ نماز کی پانچ وقت ادائیگی ہر مسلمان،عاقل و بالغ پر فرض ہے۔ نماز سے غفلت ایمان کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔

محبوب رب کریم سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''کفر اور اسلام میں حد فاصل (نماز) ہے۔''
لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور اپنے کریم رب کو راضی کرلیں۔ پھر زندگی میں خوشیاں اور سکون نصیب ہوگا، رحمت خداوندی کی برسات ہوگی، روح کو تسکین ملے گی، تفکرات اور آلام کو دور کردیا جائے گا اور اُخروی زندگی میں بھی قرار نصیب ہوگا۔



نماز عملی عبادات میں سرفہرست ہے جو بظاہر ایک عمل ہے مگر حقیقتاً نماز میں ہی پورا دین سمٹا ہوا ہے۔دوسرے لفظوں میں نماز دین کی اصل و اساس ہے۔ نمازقرب الٰہی کا موجب ہے۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کرنے والا اﷲ عزوجل کی ذمہ داری پر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نمازکو قائم کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔

حضور اقدس ﷺ کا فرمان ہے کہ ''اﷲ جل شانہ نے میری امت پر نماز فرض کی ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا ہی سوال ہوگا۔''
رسول عربی ﷺ نے ایک مقام پر فرمایا کہ ''نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔''نماز کے دوران معبود اور عبد کے درمیان سے حائل پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ اﷲ عزوجل کے نزدیک سب سے افضل وقت نماز کا وقت ہے۔ نماز کا درجہ دین اسلام میں ایسا ہے جیسے سر کا درجہ بدن میں ہوتا ہے۔ نماز مسلمانوں کے لیے انمول دولت ہے۔ اس کے برعکس بے نمازی کے لیے سورہ الماعون میں ارشاد ہوا کہ ''ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔''

یعنی ایسی نمازیں جن میں خشوع و خضوع نہ ہو وہ بندے کے لیے انفرادی طور پر محرومی اور اجتماعی طور پر وبال بن جاتی ہیں۔ اسی طرح سورہ الماعون ہی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ''پس ہلاکت و خرابی اور عذاب کی سختی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کی حقیقت اور مفہوم سے بے خبر ہیں۔''

قرآن پاک کے واضح ارشادات کے باوجود ہماری یہ حالت ہے کہ ہم نماز یں قضا کرنے اور جلدی جلدی رکوع و سجود کو غلطی ہی نہیں گردانتے۔ نماز کی قدر و منزلت ہمارے دلوں سے نکلتی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر میدان، ہر مقام پر تنزلی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس دن ہمیں نماز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی اور ہم نماز کو ہر کام پر مقدم رکھنے لگیں گے اور خلوصِ نیت، اخلاص اور خشوع و خضوع سینمازوں کا اہتمام کرنے والے بن جائیں گے تو کامرانیاں ہمارا مقدر بن جائیں گی۔ مشکلات اور تکالیف کو ہمارے راستے سے ہٹادیا جائے گا۔ اﷲ عزوجل کے انوار و تجلیات کی بارش ہم پر برسنے لگے گی۔

حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ '' اﷲ جل جلالہ کی طرف سے نمازی کے لیے تین خصوصی عزتیں ہیں۔۱۔ جب نمازی بارگاہ الٰہی میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے سر سے آسمان تک رحمت الٰہی گھٹا بن جاتی ہے۔ ۲۔نمازی پر انوار و تجلیات کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ ۳۔فرشتے نمازی کو چاروں اطراف سے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ایک فرشتہ ندا لگاتا ہے کہ اے نمازی! اگر تو دیکھ لے کہ تیرے سامنے کون ہے اور تو کس سے مخاطب ہے تو خدا کی قسم تو قیامت تک سلام نہ پھیرے۔''

لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اہتمام نماز کے ساتھ اہتمام خشوع و خضوع پر بھی توجہ دیں اور اﷲ عزوجل کے خوف، خشیت، ہیبت و رعب اور جودوکرم کو مدنظر رکھ کر نماز کے لیے کھڑے ہوں۔ پھر دیکھیے کیسا سروراور کیسی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ'' نمازکے وقت رسول اﷲ ﷺ ہم سے ایسے لاتعلق ہوجاتے کہ جیسے کوئی شناسائی نہ ہو اور آپ نماز میں اس قدر طویل قیام فرماتے کہ پائے مبارک سوجھ جاتے۔''
حضرت عمر فاروقؓ کی کیفیت صلوٰۃ کا یہ عالم تھا کہ آپ قیام صلوٰۃمیں اس قدر روتیکہ آپ کے رونے کی آواز پچھلی صفوںتک جاتی۔ آپ نماز میں کانپتے اور دانت بجنے کی آواز سنائی دیتی اور خوف خداوندی سے چہرہ انور زردی مائل ہوجاتا تھا۔

ادائیگی نماز ہر حال میں لازم ہے، سوائے اس کے کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کرجائے یا آپ مکمل طور پر ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ پابندی نماز کی بدولت نمازی پر رحمت الٰہی اور برکت الٰہی کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ نماز مشکل سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے۔

ارشاد ربانی ہے کہ '' جو لوگ کتاب (قرآن مجید) کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ( ہم ان کو اجردیں گے) ہم نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔'' (سورہ الاعراف)

حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ جو مسلمان اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے، اﷲ عزوجل اس کو پانچ برکتیں عطا فرماتے ہیں۔ اس سے رزق کی تنگی دور کردی جاتی ہے۔ اس کو عذاب قبر نہیں ہوتا۔ قیامت کے روز اس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ پل صراط سے بجلی کی طرح گزرجائے گا۔ نمازی بغیر حساب کے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ تمام مسلمان اﷲ پاک کی رحمتوں، نعمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے والے بن جائیں۔ اہتمام نماز خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والے بن جائیں۔ نماز کے فرائض ، واجبات، سنن اور مستحبات سیکھ کر نماز پڑھنے والے بن جائیں۔ (آمین)

مقبول خبریں