رشتے ٹھکرانے کے ’بے معنی اور سطحی‘ سے اعتراضات

ہزار بے معنی اعتراض اٹھا کر لوگ کہتے ہیں کہ رشتے ناپید ہوگئے ہیں۔


کوثر جبیں May 07, 2017
جب رشتہ آتا ہے تو اخلاق و کردار، شرافت، دیانت کو مدنظر رکھنے کے بجائے بے معنی، سطحی سے اعتراضات اٹھا کر اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

آج کل اکثر لوگ اچھے رشتوں کی کمیابی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ عزیز و اقارب میں اپنے بچوں کے رشتوں کے لیے ڈول ڈالے جاتے ہیں، وظیفے کیے جاتے ہیں، منتیں مانی جاتی ہیں، دعائیں کروائی جاتی ہیں، میرج بیورو یا رشتہ کروانے والی خواتین پر دل کھول کر رقم پھونکی جاتی ہے، ضرورتِ رشتہ کے اشتہار دیے جاتے ہیں۔ غرض کہ ہر جتن کیا جاتا ہے لیکن جب رشتہ آتا ہے تو اخلاق و کردار، شرافت، دیانت کو مدِنظر رکھنے کے بجائے بے معنی، سطحی سے اعتراضات اُٹھا کر اُسے مسترد کردیا جاتا ہے۔

اِن اعتراضات میں سے کچھ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے،

  • ہم سید ہیں، غیر سیدوں میں شادی نہیں کریں گے۔

  • ہمیں اپنے گھر کے لیے صرف بریلوی گھرانے کی لڑکی چاہیئے۔

  • ہم عباسی ہیں، برادری سے باہر لڑکی نہیں دیں گے۔

  • ہم صرف اپنی پٹھان قوم میں لڑکی دیتے ہیں۔

  • ہم شیعہ ہیں سنیوں میں شادی نہیں کرتے۔

  • ہمیں صرف اردو اسپیکنگ گھرانے میں رشتہ کرنا ہے۔

  • ہم بہاری ہیں، کسی اور قوم کی لڑکی اپنے گھر نہیں لائیں گے۔

  • ہم اپنی بیٹی کی شادی کسی عاشقِ رسول ﷺ سے ہی کریں گے جو ہماری جماعت پر ایمان رکھے۔

  • ہم کشمیری ہیں، سندھیوں میں رشتہ نہیں کریں گے۔

  • ہمارے آباؤ اجداد حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم اپنے لڑکے کا رشتہ اُس لڑکی سے نہیں کریں گے، جس کے آباء دہلی سے تھے۔

  • ہم صرف یوپی کے پسِ منظر والے گھرانے میں شادی کریں گے۔

  • لیاری؟ نہ بابا، ہمیں جنگ زدہ علاقے میں لڑکی نہیں بیاہنی۔ (حالانکہ اب وہاں حالات معمول پر ہیں)

  • ہم تو راجپوت ہیں، قریشیوں سے ہمارا جوڑ نہیں۔

  • لانڈھی تو مضافاتی علاقہ ہے، ہم اپنے لڑکے کے لیے ناظم آباد میں ہی رشتہ چاہتے ہیں۔

  • لڑکی کا قد چھوٹا ہے۔

  • لڑکے کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔

  • لڑکی کا رنگ بہت کالا (حقیقتاً گندمی) اور ناک پر تل ہے۔

  • لڑکی بہت گوری ہے۔

  • لڑکا گنجا ہے۔

  • ہم شیخ قوم میں کوئی ملاوٹ نہیں کریں گے، شیخوں کی بیٹی ہی لائیں گے۔

  • لڑکی کی عمر تو زیادہ ہے۔ (25 سال)

  • لڑکے کی ماں جھگڑالو لگ رہی ہے (پہلی ہی ملاقات میں)

  • ہمارا بیٹا ڈاکٹر ہے، ڈاکٹر لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔

  • ہماری بیٹی پروفیسر ہے، اِس کے جوڑ کا لڑکا ہونا چاہیئے۔

  • لڑکے کی آمدنی صرف پچاس ہزار روپے؟

  • لڑکی بہت دبلی پتلی ہے۔

  • ہمیں پنجابیوں میں رشتہ نہیں کرنا۔

  • لڑکی بہت موٹی ہے، اِس کے ہاتھ دیکھو کتنے بھاری ہیں۔

  • لڑکے کے گھر میں چار بہنیں ہیں بھئی۔

  • لڑکا داڑھی والا ہونا چاہیئے۔

  • ہمیں سگھڑ اور جاب کرنے والی لڑکی چاہیئے۔

  • ہمیں اپنے بیٹے کی نوکری پیشہ لڑکی سے شادی نہیں کرنی۔

  • ہمارے انجینیئر بھائی کے لیے کم از کم ماسٹرز لڑکی ہونا چاہیئے۔

  • لڑکی کی تعلیم زیادہ ہے، ہمیں انٹر یا میٹرک پاس لڑکی چاہیئے۔

  • ہمیں دہلی والوں میں رشتہ نہیں کرنا۔


(یہ فہرست تو طویل ہی ہوتی جائے گی)

پھر یہی لوگ پوچھتے ہیں، آخر اِس مسئلے کا حل کیا ہے؟ جناب اِس کا حل صرف یہ ہے کہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، بہنوں، بھائیوں جن کے رشتے نہیں ہورہے، اُنہیں لے جاکر بحیرہِ عرب میں دھکا دے دیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ہزار بے معنی اعتراض ہیں آپ کو اور کہتے ہیں، رشتے ناپید ہوگئے ہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

(اقبال)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں