عوامی راج کابھوت

جمہوریت کی برائیوں پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوریت کو مزید پھلنے پھولنے دیا جائے۔


Aftab Ahmed Khanzada January 21, 2013

لنکن کی لاش کو لے کر جنازے کی گاڑی بے پناہ ماتمی ہجوم میں سے گزرتی ہوئی الی نائز کی طرف روانہ ہوئی تمام گاڑی کریب سے لپٹی ہوئی تھی اور انجن جنازے کے گھوڑے کی طرح بہت بڑے سیاہ کمبل سے ڈھانپا ہوا تھا جس پر سفید ستارے بہت بھلے معلوم ہورہے تھے ، جب گاڑی شمال کی طرف بڑھی راستے پر لوگ نمودار ہونے شروع ہو گئے ان کی تعداد میں جلد ہی اضافہ ہو گیا۔

فلاڈلفیا اسٹیشن ابھی بہت دور تھا لیکن دونوں طرف انسانوں کی دیوار نظر آتی تھی جب گاڑی شہرکے اندر پہنچی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں بازاروں میں جمع تھے اور چلنے پھرنے کے لیے قطعا کوئی گنجائش نہیں تھی سوگواروں کی قطار آزادی کے ہال سے تین میل تک پھیلی ہوئی تھی، لوگ دس گھنٹے سے قدم قدم فاصلہ طے کر رہے تھے تاکہ لنکن کے چہرے پر آخری نظر ڈال سکیں۔ ہفتے کو آدھی رات کے وقت ہال کے دروازے بند کر دیے گئے لیکن مشتاقین نے منتشر ہو نے سے انکار کردیا۔

رات بھر اپنی جگہ پر کھڑے رہے اتوار کی صبح تین بجے ہجوم پہلے سے کہیں زیادہ تھا اور لڑکے اپنی جگہ دوسرے لوگوں کو دس ڈالر میں بیچ رہے تھے پیادہ اور گھڑ سوار فوج گلیوں میں آمدورفت جاری کر نے کی پوری کوشش کر رہی تھی اس وقت سیکڑوں عورتیں بے ہوش ہوگئیں اور تجربہ کار سپاہی جنہوں نے کیٹس برگ کے معرکے میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے تھے انتظام کرنے میں ناکام ہو گئے۔ جنازے کی رسومات ادا کر نے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی اسپیشل گاڑیوں کی آمدورفت شروع ہوگئی اورہجوم اتنا زیادہ ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔

ہوٹل مکان پارک اور دخانی کشتیاں لوگوں سے اٹی پڑی تھیں ،اگلے روز سولہ سفید گھوڑے جن پر حبشی سوار تھے جنازے کی گاڑی کو براڈ وے تک لے گئے اس وقت عورتیں غم سے پاگل ہوئی جاتی تھیں اورگاڑی پر پھول نچھاورکر رہی تھیں اس کے پیچھے ایک لاکھ ساٹھ ہزارکا ماتمی جلوس قدم قدم چلتا ہوا آرہا تھا ان کے ہاتھوں میں سیاہ جھنڈیاں تھیں جن پر یہ الفاظ تحریر تھے ''خاموش ہو جائو اور سمجھ لو کہ میں خدا ہوں'' پچاس ہزار تماشائی جلوس کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو کچل رہے تھے، براڈ وے کے مکانوں کی بالائی منزلوں کی کھڑکیاں کرایے پر اٹھ چکی تھیں ایک کھڑکی کا کرایہ 40 ڈالر وصول کیا جا رہا تھا کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ باہر جھانک سکیں گانے والے طائف سفید لباس پہنے بازاروں کے کونوں پر دعائیں ترنم کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور بینڈ غم ناک دھنیں بجا رہے تھے۔

ہر منٹ کے بعد ایک سو توپیں داغی جاتی تھیں، شہر کے ہال میں جنازے کے پاس بہت بڑا ہجوم تھا کچھ لوگ لنکن کے چہرے کو چھونے کی کوشش میں تھے ایک عورت نے محافظ سے نظر بچا کر جھکتے ہوئے لاش کو بوسہ دیا جب نیو یارک میں تابوت بند کردیا گیا ہزاروں لوگ جو اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے تیزی سے مغربی علاقوں کی طرف چل دیے جہاں پروگرام کے مطابق جنازے کی گاڑی کو رکنا تھا۔ جب تک گاڑی اسپرنگ فیلڈ نہ پہنچ گئی ماتمی گھنٹیاں بجتی رہیں اور توپوں کے دہانے کھلے رہے دن کے وقت گاڑی سر سبز محرابوں اور پلوں کے نیچے سے یا پہاڑی علاقوں سے گزرتی تھی جہاں بچے جھنڈیاں لہرا لہرا کر اپنے جذبات کا اظہارکرتے تھے۔ رات کے وقت یہ مشعلوں کے پاس سے گزرتی تھی جو تمام علاقوں میں روشن تھیں تمام ملک جوش میں پاگل ہوا جا رہا تھا تاریخ نے ایسا نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔

زیادہ جذباتی لوگ تو گاڑی کے نیچے آکر خود کشی کر لیتے تھے۔ نیو یارک میں ایک نوجوان نے استرے سے اپنا گلا کاٹ لیا اور چیخ رہا تھا کہ میں بھی لنکن کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں۔ لنکن کی موت پر والٹ وہیٹ مین نے یہ نظم لکھی میرے کپتان !ہماری خوفناک مہم اختتام پذیر ہوئی اس جہاز نے تھپیڑوں کا جانفشانی سے سامنا کیا اور مقصد کو حاصل کیا بندرگاہ قریب ہے گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی ہے اور لوگ خوش حال ہیں جہاز مضبوطی سے اپنی جگہ قائم ہے ہیبت ناک اور شجاعت سے لبریز مگر اے میرے دل تو خون کے آنسو رو رہا ہے جب کہ تختہ جہاز پر تیرا کپتان مردہ اور بے جان پڑا ہے '' صدر لنکن نے اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر میں کہا تھا ہمارے بزرگوں نے اس براعظم پر ایک نئی قوم کی بنیاد آزادی پر استوار کی اور ان کے پیش نظر ایک ہی مقصد تھا کہ تمام لوگ پیدائشی طور پر برابر ہیں اور یہ قوم خدائے برتر کے زیر سایہ آزادی کی فضا میں ایک نیا جنم لے گی اور عوام کی حکومت ان ہی کے تحت اور ان کے فائدے کا تصور کر ہ ارض سے معدوم نہیں ہو گا ۔

لنکن نے سیاسی مذہب کے طور پر جن الفاظ کو اپنایا وہ یہ ہیں آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں۔ آج کل پاکستان کے سیاسی حالات بظاہر بہت گمبھیر نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ بالکل سیدھے سادھے ہیں اس میں کوئی الجھائو نہیں ہے اصل مسائل سب کے سامنے ہیں اور یہ تمام مسائل عوام کے مسائل ہیں۔ حکومت نے قومی مفاہمت کا نعرہ اور قومی مفاہمت کا پروگرام اسی مقصد کے لیے شروع کیا کہ وہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے تمام قوتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے تاکہ ملک میں ایک قومی یکجہتی کی فضا پروان چڑھے اور انتشار کی صورت ختم ہو کیونکہ جو معاشرے دنیا بھر میں تر قی کر رہے ہیں ان معاشروں میں اتفاق کو بڑھایا گیا ہے اور انتشار کو ختم کیا گیا ۔

کیونکہ اتحاد اور اتفاق ہی کامیابی اور ترقی کا راز ہیں اتحاد اور اتفاق کے ذریعے ہی سماج میں کافی عرصہ تک آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہو تی رہتی ہیں لیکن سماج کی ساخت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی پھر یکایک یہ تسلسل ٹوٹتا ہے اور انقلاب آتا ہے اور پرانے قسم کے سماج کی جگہ نئی قسم کا سماج آتا ہے ایک نئے سماج کی تشکیل کی راہ پر ہمیشہ اولین قدم آسان نہیں ہو تے، جمود پسند اور رجعت پسند ہمیشہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ ہی کچھ ہمیں آج پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے کیونکہ رجعت پسند اور جمود پسند قوتوں کو عوامی راج ایک بھوت کی شکل میں نظر آتا ہے یہ لوگ دراصل ہر وقت عوام سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر عوام بااختیار ہو گئے تو انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا لیکن اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں اپنے فرسودہ نظام کو بر قرار رکھ سکیں۔ وہ اپنی ساری جاگیریں اور دولت بھی اس مقصد کے لیے خرچ کر دیں تو نتیجہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ان کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ وہ عوامی حاکمیت کے فلسفے پر یقین کر لیں او ر عوام کے راستے سے ہٹ جائیں پاکستان کے عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت طویل جدو جہد کی ہے اور موجودہ سیاسی ڈھانچہ اسی جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی قربانیوں کو ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ نپولین نے کہا ہے کہ لکڑیاں علیحدہ علیحدہ جلائو تو دھواں دیتی ہے اکٹھی جلائو تو روشنی فراہم کر تی ہیں۔

آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا جمہوریت پر مکمل اتفاق ہے کیونکہ صرف جمہوریت ہی انسانی سماج میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور سب سے زیادہ قابل تعریف طرز حکومت ہے۔ الفرڈ اسمتھ نے کہا ہے کہ جمہوریت کی برائیوں پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوریت کو مزید پھلنے پھولنے دیا جائے۔ کیونکہ تمام اختیار اور تمام عہدے عوام کے ہیں ۔ ایک بات بہت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا مقابلہ جمہوریت اور عوام دشمنوں کے ساتھ ہے اور فتح کی واحد ضمانت ہمارے مکمل اتحاد میں ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ شکاری نے جال لگایا کبوتر پھنس گئے کبوتروں نے باہم صلاح مشورے سے وحدت کا رنگ اختیار کیا اور جال سمیت اڑ گئے ۔ ہم سب کو لنکن کی طرح ان الفاظ کو اپنانا ہو گا کہ آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں۔ کیونکہ لنکن کی کامیابی کا یہی راز تھا۔

مقبول خبریں