- طاقتور شمسی طوفان کے اثرات آسمان پر نمودار
- گوادر میں حفاظتی باڑ لگانے کی خبروں پر بلوچستان حکومت کا ردعمل
- آزاد کشمیر کی بگڑتی صورت حال پر پی پی اور پی ٹی آئی کا اظہار تشویش
- کراچی میں اینٹی نارکوٹکس کی کارروائی میں منشیات کے دو مرکزی ڈیلر گرفتار
- سعودی عرب کے ساتھ ملکر عالمی معاشی انقلاب لاسکتے ہیں، وزیراعظم
- پنجاب حکومت اور میئر کراچی کا قومی ہاکی ٹیم کیلئے انعامات کا اعلان
- سندھ میں گندم ذخیرہ اور اسمگلنگ میں ملوث 336 افراد کی نشاندہی ہوگئی
- سولر پینلز کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئیں
- آزاد کشمیر میں مہنگی بجلی خلاف پرُتشدد احتجاج، سب انسپکٹر شہید، 16 اہلکار زخمی
- وزیراعلیٰ بلوچستان کا واپڈا اور وفاق سے 8 گھنٹے بجلی کی فراہمی کا مطالبہ
- گورنر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا میں لفظی جنگ، ایک دوسرے کو دھمکیاں
- اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں جاپان نے پاکستان کو شکست دے دی
- ساڑھے تین ہزار نان فائلرز کی سمز بلاک، 5 ہزار کو خبردار کردیا گیا
- مردار جانور کا 10 من گوشت لاہور منتقل کرنے کی کوشش ناکام
- انٹربورڈ کراچی نے سالانہ امتحانات کا شیڈول جاری کردیا
- کراچی میں گرمی کی لہر پیر تک برقرار رہنے کا امکان
- فیض آباد دھرنا کیس؛ سپریم کورٹ نے رپورٹ ٹی او آرز کے برخلاف قرار دے دی
- کھانے میں اضافی نمک چھڑکنے والے ہوجائیں ہوشیار!
- چین کے صحرا میں اونٹوں کیلئے ٹریفک سگنلز نصب
- بلوچستان؛ پوست کی کاشت کے خلاف کارروائی، ملزمان کے حملے میں 6اہلکار زخمی
بھارت سے کشیدگی، چین نے بھاری جنگی سازوسامان سرحد پر پہنچا دیا
بیجنگ: چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چین نے بھارت کی سرحد دوکھلم کے قریب تبت کے علاقے میں بھاری اسلحہ منتقل کر دیا ہے. چین کی فوج کے سرکاری اخبار ڈیلی پی ایل اے نے رپورٹ جاری کی ہے کہ چینی فوج کی مغربی کمانڈ نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران بڑی تعداد میں گولہ بارود، فوجی گاڑیوں اور دیگر جنگی سامان کو سڑک اور بذریعہ ٹرین تبت منتقل کیا ہے، اس سے قبل چین کے سرکاری ٹی وی نے رپورٹ جاری کی تھی کہ ملک کی افواج نے تبت میں انڈین سرحد کے قریب فوجی مشقیں کی ہیں جس میں اصلی گولہ بارود استعمال کیا گیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ چین، انڈیا اور بھوٹان کے سرحدی علاقے ڈوکلام سے جب تک انڈیا اپنی فوجیں واپس نہیں بلاتا اس بارے میں مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ تنازع گزشتہ ماہ سکّم کی سرحد کے نزدیک بھوٹان کے ڈوکلام خطے سے شروع ہوا، انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز نے سفارتی ذرائع سے لکھا ہے کہ چینی حکام نے ملک میں موجود غیر ملکی سفارتکاروں کو بتایا ہے کہ چین کی افواج علاقے میں صبر سے انتظار کرتی رہی ہیں لیکن اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور اس صورت حال کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا، انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ ماہ اس علاقے میں فوجیں اس لیے بھیجی تھیں تاکہ وہ اس علاقے میں نئی سڑک کی تعمیر کو روک سکے۔
جس علاقے پر بھوٹان اور چین دونوں اپنا دعویٰ کرتے ہیں، یہ علاقہ انڈیا کے شمال مشرقی صوبے سکم اور پڑوسی ملک بھوٹان کی سرحد سے ملتا ہے اور اس علاقے پر چین اور بھوٹان کا تنازع جاری ہے جس میں انڈیا بھوٹان کی حمایت کر رہا ہے، انڈیا کو خدشہ ہے کہ اگر یہ سڑک مکمل ہو جاتی ہے تو اس سے چین کو انڈیا پر اسٹرٹیجک برتری حاصل ہو جائے گی، ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے بھارت کی سرحد کے قریب اتنی بڑی تعداد میں سامانِ حرب لے جانا اور وہاں فوجی مشقیں کرنے کا مقصد بھارت کو سخت پیغام پہنچانا ہے۔
اگرچہ اس علاقے میں بھارت کی فوج بھی بڑی تعداد میں موجود ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی افواج کو جدید اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے بھارتی افواج پر برتری حاصل ہے، دریں اثنا چین کی جانب سے بیجنگ میں موجود غیرملکی سفارت کاروں کو واضح پیغام میں آگاہ کیا گیا ہے کہ ڈوکلام میں چینی فوج بھارتی اہلکاروں کے مدمقابل صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے تاہم ایسا زیادہ دیر تک نہیں کیا جائے گا۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے سفارتی برادری کو بتایا گیا ہے کہ اصل تنازع چین اور بھوٹان کے درمیان ہے لیکن بھارتی فوج زبردستی اس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار نے بھارتیاخبار کو بتایا کہ بیجنگ میں موجود ہمارے ساتھیوں نے بریفنگ میں شرکت کی جہاں انھیں یہ بتایا گیا کہ چینی فوج بھارتی اہلکاروں کے سامنے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرے گی۔
بھارتی اخبار نے لکھا کہ چینی وزارت خارجہ نے بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلیے بھارتی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلا لیا جائے، بیجنگ میں ہونے والی بند کمرہ بریفنگ پر چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ بیجنگ میں موجود غیر ملکی وفود سے قریبی رابطے میں ہیں تاہم انھوں نے اجلاس کی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔