دروغ گوئی کی مذمت

لوگ اسلام سے پہلے بھی جھوٹ بولنا اور اس الزام کو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے تھے۔


July 21, 2017
حالات جس قدر سخت ہوں گے اس قدر سچ بولنے اور جھوٹ ترک کر دینے کا اجر زیادہ ہوگا۔ فوٹو :فائل

انسان مختلف اوقات میں مختلف اعمال کا مرتکب ہوتا ہے ان میں اچھے اعمال بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ اچھے اعمال کا اسے اچھا صلہ ملے گا اور بُرے اعمال کا بُرا۔

بُرے اعمال سے لوگ بھی پریشان ہوتے ہیں اور اللہ تعالی بھی ناراض ہوتے ہیں۔ ان اعمال کو شریعت میں گناہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کچھ گناہ کبیرہ ہوتے ہیں اور کچھ گناہ صغیرہ۔ معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ، فساد اور خرابی برپا کرنے والے عمل جھوٹ کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے۔ یہ صرف شریعت اسلامی میں ہی معیوب نہیں بل کہ عہد اسلام سے پہلے بھی زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو برائی میں شمار کیا جا تا تھا۔

لوگ اسلام سے پہلے بھی جھوٹ بولنا اور اس الزام کو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب کہ نبیٔ رحمت ﷺ جو کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانا پسند نہیں کرتے ہیں، انہوں نے جھوٹ کے بارے میں اور اس کے قبیح اثرات و نقصانات کے بارے میں بہت وضاحت سے سب کچھ بیان فرمایا ہے۔

امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : '' ہمیشہ سچ بولنے کا اہتمام کرو کیوں کہ سچ نیکی کی جانب راہ نمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچ گوئی کی خاطر کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے ہاں صدیق ( بہت زیادہ سچ بولنے والا) کے عظیم لقب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جھوٹ سے دور رہو کیوں کہ جھوٹ برائی کی راہ دکھاتا ہے اور برائی جہنم کی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جا تا ہے۔''

اس حدیث میں جیسے سچ کو لازم پکڑنے کا حکم اور اس کے فوائد ہیں اسی طرح جھوٹ بولنے سے روکا گیا ہے او ر اس کا دنیاوی نقصان یہ ہے کہ انسان برائیوں میں پڑ جاتا ہے حتی کہ اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ وہ جھوٹ سے اخروی نقصان یعنی جہنم کا ایندھن بنا دیا جا تا ہے۔ اسی طرح جھوٹ ایک منافقانہ عمل بھی ہے۔ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : '' منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے ہاں امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور یہ دعوی کرے کہ وہ مسلمان ہے۔''

ملا قاری نے اس حدیث کی شرح لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جھوٹ بولنا تینوں نشانیوں میں سے بدترین خصلت ہے اور ساتھ ہی ذکر کیا کہ اگرچہ و ہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔ اسی طر ح امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' کیا میں تمھیں گناہ کبیرہ میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دے دوں ؟

ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ۔ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ اس وقت آپؐ ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپؐ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی، خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ آپ ﷺ اس کو دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ رسول ﷺ خاموش نہ ہوں گے۔''

امام حجر فتح الباری میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا اس قدر اہتمام کیا کہ اس کو بیان کرتے وقت ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہ طرز عمل اس گناہ کی شدید حرمت اور اس برائی کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ حتی کہ صرف لوگوں کو خوش کرنے اور ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں بل کہ حرام اور سخت وعید کو دعوت دینے والا کام ہے۔

امام احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے اپنی کتاب میں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا: '' اس شخص کے لیے ہلاکت ہے، ویل (جہنم کی ایک وادی) ہے جو لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے بات کرتا ہے تو اس میں جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ویل ہے، اس کے لیے ویل ہے۔''

ہاں کوئی شخص جھوٹ کو ترک کردیتا ہے اس کے لیے انعام بھی اسی قدر بڑا ہے امام ابوداؤد نے حضرت امامہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' میں جنت کے درمیان اس شخص کے گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھوٹ بولنا ترک کردے، اگرچہ و ہ مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔''

حالات جس قدر سخت ہوں گے اس قدر سچ بولنے اور جھوٹ ترک کر دینے کا اجر زیادہ ہوگا۔ قرآن و حدیث کے مذکورہ دلائل کو سمجھتے ہوئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جھوٹ انتہائی قبیح عمل ہے، دنیا میں بھی نقصان اور آخرت میں بھی خسارے کا باعث اور معاشی و معاشرتی حوالے سے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ ہمیں اس سے خود بھی بچنا ہوگا اور دوسروں کو بھی بچانا ہوگا۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس کی توفیق فرمائے۔

(حافظ ابُوبکر اکرم)

مقبول خبریں