عید مبارک

فرح ناز  ہفتہ 2 ستمبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

تمام اہل وطن کو عید قرباں کی ڈھیر ساری مبارکباد۔ ان تمام حاجیوں کو مبارک باد جنھوں نے اس سال حکم الٰہی سے حج پرفارم کیا، اللہ ذوالجلال ہم سب مسلمانوں کو حج ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

عید کی تیاریوں میں جہاں خواتین خوب خوب ہار سنگھار کرتی ہیں وہیں اس عید قرباں پر خواتین کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ جانور ذبح کرنے کی تیاری بھی ہوتی ہے۔ مہینہ بھر پہلے سے جانوروں کی منڈیاں لگ جاتی ہیں اور مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے حلال جانوروں کی خریداری کرتے ہیں اور بے شک اﷲ مہنگے جانوروں کو نہیں دیکھتا، وہ دلوں کا حال بہت اچھے سے جانتا ہے، وہی نیتیں قبول کرنے والا ہے۔

بہرحال جب سے منڈیاں لگتی ہیں تو شہریوں کی آمدورفت بھی شروع ہوجاتی ہے، شہر کے اندر بھی چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگتی ہیں اور بچے اور بڑے سب اپنی اپنی پسند کے جانوروں کو لانے میں دلچسپی لیتے ہوئے خوب خوب مزے بھی کرتے ہیں، یوں تو شہر کے باہر بہت بڑی منڈی لگی ہوتی ہے مگر چھوٹی چھوٹی منڈیاں شہر کے اندر بھی ہوتی ہیں اور اللہ بھلا کرے ان لوگوں کا جو جعلی دانت اور ٹوٹے ہوئے سینگ لگا کر ایک اسلامی فرض کو اپنے لالچ کی نذر کرتے ہیں۔

باقاعدگی کے ساتھ یہ بھی ایک بزنس بن گیا ہے، فرض کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور دکھاوا ہی دکھاوا نظر آتا ہے۔ بہرحال ہم سب کو ان تمام مصنوعی دکھاوؤں کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ قربانی کیجیے اور زیادہ سے زیادہ گوشت ان لوگوں میں بانٹنے کی کوشش کریں جن کو ان کی ضرورت ہے۔ یوں تو تمام گوشت آپ خود بھی رکھ سکتے ہیں مگر پھر اس عید قرباں کا فائدہ کیا؟ خوب خوب بانٹیں اور تھوڑا بہت اپنے لیے رکھیے کہ وہ لوگ جو پورے سال مہنگائی کی وجہ سے گوشت نہ کھا سکیں کم ازکم وہ آپ کی اور ہماری وساطت سے کم ازکم کچھ دنوں تک خوشی محسوس کرسکیں۔

حالانکہ ہم سالہا سال ان کی خوشیوں کو بنا سکتے ہیں۔ یقین جانیے بے حساب کھانا روزانہ کچرے کی نذر ہو جاتا ہے، بے حساب لوگ اپنے پیٹ بھر سکتے ہیں، مگر کیونکہ کوئی پروپر ایسا سسٹم نہیں، کوئی پروپر ایسے ذریعے نہیں کہ بے تحاشا ضایع ہونے والے کھانے کو کچرے کا حصہ بننے سے روکا جاسکے۔ اتنے سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو بہت اچھی سوچ کے ساتھ خلوص کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ مل کر غربت سے لڑنا چاہتے ہیں۔ ہر شعبے کو بہترین بناسکتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کی طرف سے ریاست کی طرف سے ان لوگوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کے سچے جذبوں کو سمجھا جائے۔

ہماری نوجوان نسل خدا کا شکر ہے کہ بہت کچھ کرنے پر یقین رکھتی ہے، نوجوان ڈاکٹرز بہت سے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں، نوجوان نرسز، نوجوان صحافی، نوجوان رائٹرز، یقینا مثبت سوچ رکھتا ہے اور وہ اپنی انتھک کوشش بھی کرتا ہے۔ مختلف سیمینارز، مختلف کانفرنس منعقد کی جاتی ہیں ، ہر طبقے سے اس میں لوگ شامل ہوتے ہیں اپنی سوچ کے مطابق کام بھی کرتے ہیں اپنی سوچ کے مطابق اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اسی اظہار اور سوچ سے پتا بھی چلتا ہے کہ معاشرے میں ہماری سوسائٹی میں کتنا کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔

ہر سال یہ عید قرباں یہی پیغام لے کر آتی ہے کہ ہم میں یہ سچے جذبے پیدا ہوں، اگر ہم بھول گئے ہوں تو پھر سے یاد کریں کہ ایک بہترین اللہ کے دوست نے اپنی اولاد نرینہ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کی نیت کی، سبحان اللہ! کیا جذبے اور کیا ایمان، ہم تو اتنے Blessed ہیں کہ اللہ پاک ہم کو اپنی حیثیت کے مطابق خلوص سے ایک جانور ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور اللہ ہم کو معاف کرے ہم آج کل خوب خوب تماشا بھی کر رہے ہیں۔

خواتین منڈیوں میں جاکر جانوروں کے ساتھ ویڈیوز بنا رہی ہیں اور ٹی وی چینلز بھی بار بار دکھا رہے ہیں، جانوروں کی ایسی گندگی پھیلی ہوئی ہے کہ خواتین عموماً یہاں جانے سے Avoid ہی کرتی ہیں اور اب یہ صورتحال ہے کہ موسم ایسا سہانا ہوگیا کہ ناچ گانے ہو رہے ہیں، بڑے بڑے لاکھوں روپے کے جانور نمائش کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں، Selfies بنوائی جا رہی ہیں، پوسٹر بنائے جا رہے ہیں، گویا دکھاوے کا ایک غلط کام ایک بہتر بڑی قربانی کے جذبے کی آڑ میں ہو رہا ہے، بہت شدید ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر اس چیز کو Condemn کیا جائے۔

ریاستی ادارے آگے بڑھیں اور فوری طور پر مثبت اقدامات اٹھائے جائیں، لاکھوں کا جو پرچار 2 مہینے پہلے سے شروع ہوجاتا ہے کہ یہ بہت سارے لوگوں کے لیے باعث تکلیف بھی بنتاہے، بچے ہر گھر میں موجود ہیں اور بچوں کی خواہشات ایک جیسی ہوتی ہیں۔ میڈیا نہ جانے کیوں اپنی ذمے داریاں بھولتا جا رہا ہے، نہ جانے کیسے وہ یہ بھولتا جا رہا ہے کہ وہ جو کچھ دکھاتا ہے وہ جو کچھ بولتا ہے، اسے سب لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو لوگ بے بس ہیں ان چیزوں میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں ان بچوں میں کہیں کوئی منفی صورتحال پیدا نہ ہو۔ بہت بڑی ذمے داری ہے اور اس کو بھی ناچ گانے کی نذر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان موجودہ دور میں چاروں طرف سے مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بے تحاشا باہر ممالک کی فنڈنگ پاکستان میں کی جا رہی ہے، پاکستان اندرونی طور پر بھی سیاسی انتشار میں گھرا ہوا ہے، معاشرتی طور پر بے حد بے روزگاری ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور ضروریات زندگی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مہنگائی کسی منہ زور گھوڑے کی طرح بھاگے جا رہی ہے، اسپتال سے لے کر تعلیمی اداروں تک ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں، نہ صاف پانی، نہ بجلی، کس کس طرح لوگ اپنا گزارا کر رہے ہیں، یہ تو وہی جان سکتے ہیں۔

ایک فلاحی ریاست ہونے کے باوجود حکمران لٹیرے اور ڈاکو بن جائیں، عدل و انصاف نہ ہو، قانون نہ ہو، برابری کا توازن نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک نارمل معاشرہ بنا سکیں، اعلیٰ تعلیم کے باوجود بھی اگر بندہ باعزت روزگار نہ حاصل کرسکے تو یقینا منفی رویہ ہی پیدا ہوگا۔ گوکہ یہ مرتبہ ان کا نہیں مگر حالت زندگی ہی اگر الٹی سمت چل پڑے تو کیا کریں۔

ریاست ایک ماں کی طرح ہے، حکمرانوں کو اپنے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے کام کرنے ہوں گے، اپنے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے خزانے جمع کرنے ہوں گے، ہم سب لوگوں کو اپنی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی جھوٹی Artificial زندگی کو چھوڑیے، دیکھیے کتنے لوگوں کو ہماری ضرورت ہے، کتنے لوگ صرف چھوٹی چھوٹی مدد مانگتے ہیں، کتنے ٹیلنٹڈ لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ صرف ایک پلیٹ فارم ان کو مل جائے گا، کتنے تعلیم حاصل کرنے کے شیدائی اسکالر شپ کے منتظر ہیں، اس قربانی کی عظیم مثال سے بنی یہ عید ہمیں پھر یاد دلا رہی ہے کہ ہماری چھوٹی سی قربانی کسی کی بڑی خوشی بن سکتی ہے۔ آئیے خوشیاں بانٹیں ایک دوسرے کے ساتھ چلیں، ایک ساتھ مسکرائیں، عید مبارک!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔