نسل پرستی اور فرقہ واریت کا رحجان

جبار قریشی  جمعـء 20 اکتوبر 2017
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

شہنشاہ اکبر کے زمانے میں بشریات Anthropology کا ایک انوکھا تجربہ کیا گیا کچھ شیرخوار بچوں کو ان کے والدین اور انسانی ماحول سے علیحدہ کر کے اس طرح پرورش کی گئی کہ کوئی انسانی بولی یا زبان نہ سن سکے ۔ اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ انسان کی فطری زبان یا بولی کو معلوم کیا جاسکے۔ اس تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان شیر خوار بچوں نے اپنے بڑے ہونے کے بعد بھی کوئی زبان یا بولی نہ بول سکے۔ اس تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ انسان کی کوئی فطری زبان نہیں۔

ماہرین بشریات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انسان ایک ہی نوع انسانی کی شاخیں ہیں جو لاکھوں برسوں کے ارتقا کے دوران زمین کے مختلف خطوں میں پھیل گئے جہاں علاقائی حالات اور آب و ہوا کے فرق کے نتیجے میں ان میں مقامی فرق پیدا ہوا۔ بحیثیت مجموعی جسمانی اعتبار سے تمام نسل انسانی یکساں ہیں مثلاً نبض کی رفتار، سانس لینے کا عمل، جسمانی درجہ حرارت کے اعتبار سے تمام نسلوں کے اوسط کم و بیش ایک ہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک مفکرکا قول ہے کہ اگر ہمارے جسم سے کھال ہٹا دی جائے تو ہم سب اندر سے ایک ہی ہیں۔

یہ ایک سائنسی نقطہ نظر ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس کے باوجود معلوم نہیں لوگ کیوں زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، بلکہ نسلی تصادم کی صورت میں ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں نسلی امتیازات اور نسلی تعصبات انسانی ضمیر کا ایک جز بن گئے ہیں۔

میرے نزدیک ایک انسان کا اپنے ہم زبان سے محبت ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن زبان کی بنیاد پر دوسرے زبان والے سے نفرت کا اظہار کرنا ایک غلط رویہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگ زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سماجی گروہ میں ایک مفاد پرست گروہ موجود ہوتا ہے جو اپنے مفادات کے تحت نسلی تعصبات رحجانات اور تنگ نظری کو نہ صرف برقرار رکھتا ہے بلکہ اسے ہوا دے کر اس کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرتا ہے ۔ ایسا ہی کچھ فرقہ واریت کے حوالے سے دیکھنے میں آتا ہے ایک انسان جس گھرانے میں آنکھ کھولتا ہے، اس گھرانے سے متعلق مذہب اور مسلک اختیار کرلیتا ہے وہ اسے ہی درست سمجھتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے اور ساری زندگی ان نظریات سے منسلک رہتا ہے۔

یہ سب اس کی فطرت کے تحت ہوتا ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی کردار یا کمال نہیں ہوتا۔ اس نقطہ نظر سے ایک مسلک کا دوسرے مسلک، ایک فرقے کا دوسرے فرقے سے نفرت کا اظہار کرنا بالکل بے معنی بات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ایک ایسے معاشرے میں جہاں غریب مریض خون کی ایک بوتل کی عدم دستیابی کے باعث موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں وہاں فرقہ اور مسلک کے تحفظ کے نام پر لوگ خون کے دریا اور نہریں بہانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ بعض عناصر کے نزدیک فرقہ پرستی دراصل عطیات اور فنڈ کے حصول کی لڑائی ہے۔

مفاد پرست عناصر سادہ لوح عوام کو مسلک اور فرقے کے نام پر جذباتی کرکے ان سے عطیات، صدقات اور فنڈ وصول کرتے ہیں۔ سادہ لوح عوام عطیات کے حصول کی اس لڑائی کو نظریات کی لڑائی تصور کرتے ہوئے انھیں فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ علما کی عقیدے کے درستگی کے حوالے سے عوام الناس کی اصلاح کرنا ان کا دینی اور مذہبی فریضہ ہے۔ اگر علما یہ کام نہیں کریں گے تو لوگ طرح طرح کے عقائد اور نظریات گھڑیں گے، من مانی تعبیریں ہوں گی، ہر عقیدے کو اسلامی عقیدہ کہنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ جس سے آخر دین کا حلیہ بگڑ جائے گا۔

اس لیے عقیدے کی اصلاح کے حوالے سے علما کی کوششوں کو عطیات کی لڑائی قرار دینا درست نہیں۔ دراصل فرقہ پرستی کے فروغ میں سب سے زیادہ کردار نام نہاد علما کا ہے جو مسلک کے تحفظ کے نام پر تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر پہلے تو اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے مسلک کی تحریروں بالخصوص اختلافی امور پر لکھی گئی تحریروں کو جمع کرتے ہیں پھر ان تحریروں سے ایسے غلط مفہوم اور نتائج نکالتے ہیں جس کا صاحب تحریر کے ذہن میں تصور تک نہیں ہوتا۔ ایسی کالی بھیڑیں ہر مکتب فکر میں موجود ہیں پھر ان کالی بھیڑوں میں لفظی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ لفظی جنگ میں فتح اور شکست کسی بھی فریق کی ہو، شہادت صرف سچائی کی ہوتی ہے یعنی بے چاری سچائی ماری جاتی ہے۔ نتیجے میں فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے میرے ایک دوست کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ قوم پرستی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں انھیں حکومتی سطح پر ایک جزیرے پر بھیج دیا جائے جہاں وہ اپنی خواہش کی تکمیل کرسکیں۔ اور عوام الناس پر امن اور پرمسرت زندگی گزار سکیں۔

میرے نزدیک یہ سوچ بھی انتہا پسندی کی عکاسی کرتی ہے ہمیں اس سوچ سے گریز کرنا چاہیے اس کے حل کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانی ہوں گی ہمارا تعلیمی نظام کئی سمتوں میں تقسیم ہے۔ جو مختلف طبقات کو جنم دے رہا ہے بالخصوص دینی مدارس مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہیں جب ہم اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعے اپنے معاشرے میں متصادم ذہن کے افراد تیار کرکے میدان عمل میں اتاریں گے تو ظاہر ہے کہ ہم ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں گے جس سے ہمارا معاشرہ دوچار نظر آتا ہے۔

مجھے بہت کم لوگ ہی انسان دوستی کے حوالے سے بات کرتے نظر آتے ہیں اس سے نجات کا صرف ایک راستہ ہے کہ ہم اپنے تعلیم کے نظام کے حوالے سے یکسو ہوجائیں اور قوم کی تربیت کا ایک نقطہ نظر اپنالیں تو مجھے یقین ہے کہ ملک سے نسل پرستی اور فرقہ پرستی دونوں ناسور کا خاتمہ ہوجائے گا۔

انسان دوستی کے حوالے سے دنیا کے تمام نظریات چاہے وہ مذہبی ہوں یا سیکولر یا لبرل ان میں ظالم اور مظلوم کا فرق رکھتے ہوئے انسان دوستی کو اولیت دی گئی ہے لہٰذا جو لوگ بھی نسل پرستی اور فرقہ واریت کے رحجانات کا شکار ہیں انھیں اقبال کے اس شعر کی روشنی میں اپنے رویے پر غور ضرور کرنا چاہیے:

تعصب چھوڑ نادان دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔