وفاقی حکومت نے بھارت کو بلا امتیاز مارکیٹ رسائی دینے کا فیصلہ کر لیا

زرعی وصنعتی شعبے کے تحفظات نظرانداز،رائے عامہ کی مخالفت پر’ایم ایف این‘ کو ’این ڈی ایم اے‘ سے بدل کر15 فروری۔۔۔، ذرائع


Business Reporter February 08, 2014
نان ٹیرف رکاوٹوں، سبسڈی، خراب معیار پر تحفظات دور کیے بغیر اقدام مضر ثابت ہوگا، اتنے بڑے فیصلے کیلیے عجلت ٹھیک نہیں، زرعی، فارما، سیمنٹ و آٹو سیکٹر کو تشویش لاحق۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے صنعتی شعبے کے تحفظات بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، رائے عامہ کی مخالفت کے سبب ایم ایف این (موسٹ فیورٹ نیشن) کی اصطلاح کو تبدیل کرکے نان ڈسکریمنٹری مارکیٹ ایکسس (این ڈی ایم اے یا بلاامتیاز مارکیٹ رسائی) کی اصطلاح وضع کرلی گئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ لاہور میں بھارتی سنگل کنٹری نمائش میں شرکت کیلیے آنے والے بھارتی وفد کا استقبال بھارت کو این ڈی ایم اے کا درجہ دیے جانے کے اعلان سے کیا جائے گا، حکومتی فیصلے سے ملکی صنعتوں بالخصوصی فارما سیوٹیکلز، آٹو سیکٹر اور زرعی شعبے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے لیے بلاامتیاز مارکیٹ رسائی کے درجے کا اعلان 15 فروری کو متوقع ہے۔ صنعتی حلقوں نے کاروبار دوست سمجھی جانے والی (ن) لیگ کی حکومت کی جانب سے عجلت میں مسائل کو سمجھے بغیر کیے گئے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے، صنعتی حلقوں کے مطابق وفاقی وزیر تجارت نے پاکستان کی بڑی صنعتوں کے تحفظات دور کرنا تو درکنار مقامی صنعتوں کو اعتماد میںبھی نہیں لیا۔ ملکی دوا ساز صنعت نے این ڈی ایم اے یا ایم ایف این کا درجہ بھارت کو دینے پر سخت مخالفت کی ہے اور اسے ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔

چیئرمین پی پی ایم اے زونل کمیٹی بلوچستان آصف آکھائی نے کہا کہ اس سے نہ صرف بھارت کی غیرمعیاری اور سستی اشیا پاکستانی مارکیٹ میں چھا جائیں گی بلکہ پاکستانی 18 کروڑ عوام بھارت سیاستدان اور صنعت کاروں کے ہاتھوں یرغمال ہوجائیں گے، فارما انڈسٹری کی گزشتہ 60 برسوں میں کی گئی محنت، ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی، صنعتوں کے قیام اور فارما انڈسٹری سے وابستہ 40 لاکھ افراد کا روزگار ختم ہوجائے گا، حال ہی میں امریکا کے ایف ڈی اے نے کئی بھارتی دواؤں کو غیر معیاری قرار دیا ہے، سب سے بڑا مسئلہ بھارت کی غیر معیاری دوائیں ہیں جس سے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، صحت عامہ کیلیے بھارت پر انحصار ایک فاش غلطی ثابت ہوگی۔

زرعی شعبے نے بھی این ڈی ایم اے درجہ بھارت کو دیے جانے کی پیشرفت پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستانی کاشتکار بھارتی زرعی اشیا کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، بھارت کی جانب سے کاشتکاروں کو سبسڈی اور دیگر چھوٹ دی جاتی ہیں، اس وجہ سے ان کی زرعی مصنوعات پاکستان سے سستی ہیں اور وہ پاکستانی مارکیٹ پر قابض ہوجائیں گی، بھارت اپنی قومی ملکی پیداوار کا 15.3 فیصد یعنی 50 ارب ڈالر بھارتی کاشتکاروں کو سبسڈی کی مد میں دیتا ہے، اس کے علاوہ یوریا، بجلی اور ڈیزل وغیرہ بھی ان کو رعایتی قیمت پر دیا جاتا ہے جس سے ان کی پیداواری لاگت پاکستانی کاشتکاروں کے مقابلے میں کم ہے۔

مزید برآں، پاکستانی سیمنٹ انڈسٹری نے بھی بھارتی نان ٹیرف بندشیں دور کیے بغیر بھارت کو پاکستانی مارکیٹ تک رسائی کے فیصلے پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے، رواں مالی سال 2014 کے ابتدائی 6 ماہ میں نان ٹیرف بندشوں کی وجہ سے پاکستانی سیمنٹ کی بھارت کو برآمد مسلسل کمی کا شکار ہے۔



اے پی سی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کو سیمنٹ کی ایکسپورٹ ریکارڈ کم ترین سطح پرہے۔اعداد و شمار کے مطابق سال 2007-08 میں بھارت کو سیمنٹ کی برآمدات 7 لاکھ 86 ہزار 672 ٹن تھیں جو 2012-13 میں کم ہو کر 4 لاکھ 82 ہزار 215 ٹن رہ گئیں۔ چیئرمین پاپام عثمان ملک نے آٹو انڈسٹری کے حوالے سے کہا کہ بھارت اور پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی مارکیٹ مختلف ہے، بھارت تقریباً 20 لاکھ گاڑیاں سالانہ تیار کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں تیار کرتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کی مخدوش امن و امان کی صورتحال، توانائی کا بحران اور دیگر عوامل وہ عناصر ہیں جو دونوں ملکوں کی آٹو انڈسٹری میں بڑا واضح فرق ہیں، پاکستانی انڈسٹری منفی فہرست سے اشیا کے اخراج کے لیے بھی تیار نہیں کیونکہ مقامی صنعت نے انتظامی اور کمپنیوں کی سطح پر اس مقابلے کی تیاری نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلے سے پہلے انتہائی گہرے استغراق کی ضرورت ہے اور اتنے بڑے فیصلے کیلیے یہ درست موقع نہیں ہے، بھارتی نان ٹیرف بندشیں غیرموزوں اور غیر منصفانہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے کئی عرصہ قبل ایم ایف این کا درجہ دیے جانے کے باوجود پاکستان کی بھارت کو برآمدات انتہائی محدود سطح پر ہیں۔

واضح رہے کہ پی پی پی کی سابقہ حکومت نے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود عوام کی مخالفت کی وجہ سے بھارت کو ایم ایف این کا درجہ نہیں دیا اور اس امر میں لیت و لعل سے کام لیا تاہم موجودہ پی ایل ایم این کی حکومت اس کے برخلاف عوام کی مخالفت کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت کو یہ درجہ کسی بھی صورت میں دینے پر مصر ہے اور صنعتی حلقوں کی تشویش اور ملکی مفاد کو مقدم نہیں رکھا جا رہا۔

ذرائع کے مطابق کاروباری برادری سے حالیہ ملاقات میں تجارت کے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے نجی طور پر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ بھارت سے کوئی مطالبہ منوائے بغیر اسے این ڈی ایم اے کا درجہ دے دیا جائیگا اور اس بات کا اعلان آئندہ ہفتے اعلیٰ سطح کے بھارتی وفد کے دورہ لاہور کے موقع پر کیا جائیگا جس میں بھارتی سفارت کار، سیاستدان اور کاروباری برادری کے نمائندے شامل ہوں گے۔

مقبول خبریں