… تھوڑی سی جو پی لی ہے
دستی صاحب کی اس جرات کے بعد پوری قوم ہاتھوں میں پتھر لے کر شرابی ارکان کی سنگساری پر بے چین ہے
ہمارے قومی نمایندے ان دنوں اپنے ایک بھائی کے ہاتھوں جس لعن طعن سے گزر رہے ہیں، ایسے ہی کسی نازک موقع پر حضرت اکبرؔ اللہ آبادی نے یہ کہہ کر ان کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی کہ
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
صورت حال اب بھی یہی ہے کہ جن لوگوں نے وہ جو کوئی بھی تھے نہ تو چوری کی ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکا ڈالا ہے، بس مبینہ طور پر تھوڑی سی پی ہے اس پر بلاوجہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور یہ تھوڑی سی بھی یعنی ایک آدھ پیگ بھی جو پی لیا ہے تو کسی چوک میں نہیں کمرے کے اندر بیٹھ کر پیا ہے اور اپنے خرچ پر اور کیا، آپ کو معلوم ہے کہ گھر کی چار دیواری کے اندر بلا اجازت گھسنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ نہ آج کے قانون میں اور نہ اس قانون میں جس کے تحت یہ شے حرام قرار دی گئی ہے۔ ابھی کل پرسوں ہماری عدالت عالیہ نے پولیس وغیرہ کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ چھاپے کے انداز میں کسی بند جگہ داخل ہو کر شہریوں کو تنگ نہ کیا کرے اور یوں ان کی پرائیویٹ زندگی حرام نہ کرے۔ وہ اگر امن عامہ میں خلل اندازی نہیں کر رہے اور کسی کو پریشان نہیں کر رہے تو پولیس کو کیا اختیار ہے کہ ان کی نجی زندگی میں مداخلت کرے۔ اگر قومی اسمبلی کے اراکین اپنے گھر یعنی ہوسٹل کے کسی کمرے کے اندر بیٹھ کر دل بہلا لیتے ہیں تو پولیس کا کیا جاتا ہے۔
جناب دستی صاحب کی اس جرات کے بعد پوری قوم ہاتھوں میں پتھر لے کر شرابی ارکان کی سنگساری پر بے چین ہے لیکن سوال وہی پرانا ہے کہ پہلا پتھر کون مارے لیکن سب سے پہلے تو مروجہ طریقے سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان لوگوں سے یہ گناہ واقعی سرزد ہوا ہے، اس وقت تو کچھ یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک حقیقت ہے اور سب لوگ گردن زدنی ہیں۔ اگر ملک میں اسلامی قانون رائج ہے تو بلاشبہ یہ سب گردن زدنی ہیں لیکن ثبوت کے بعد۔ یوں تو بھٹو صاحب نے کسی بند کمرے میں نہیں بھرے جلسے میں اعلان کیا تھا کہ تھوڑی سی پی لیتا ہوں تو کیا ہوا کسی کا خون تو نہیں پیتا۔ اس پر اسی قوم کے جم غفیر نے داد و تحسین سے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، تالیاں پیٹی تھیں اور نعرے لگائے تھے جو آج یہی قوم ہاتھوں میں پتھر لیے پھرتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہے آج کمروں کے اندر خاموشی کے ساتھ سیاستدان پی لیتے ہیں تو اس پر ہنگامہ برپا ہوتا ہے کل جلسہ عام میں ایک سیاستدان علانیہ شراب نوشی کا اقرار کرتا ہے تو اس کے لیے تحسین کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ آج کی طرح اس وقت بھی بڑے نیک اور پرہیز گار لوگ موجود تھے مگر ان دانشمند لوگوں کی نظر اس بدی کی ماں پر تھی اور وہ ملک میں قانون کو بدلنا چاہتے تھے وہی بات ہے کہ وقت وقت میں فرق ہے۔ اسی ملک اور اسی قوم کے آج اور کل میں کتنا فرق ہے۔
کل کی طرح یاد ہے کہ مرحوم سعادت حسن منٹو کی عادتیں مہنگی مگر جیب خالی ہوتی تھی لیکن سرشام ان کا بدن ٹوٹنے لگتا تھا جس کے لیے ان دنوں کوئی پانچ روپے کے قریب رقم چاہیے ہوتی تھی تا کہ ایک کوارٹر وہسکی خریدی جا سکے جو منٹو صاحب کا معمول کا کوٹہ تھا چنانچہ وہ ٹی ہائوس اور کافی ہائوس کا چکر لگاتے اور سب کو معلوم ہوتا کہ منٹو صاحب کو کیا تکلیف ہے کہ جو بولائے پھرتے ہیں۔ کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنے والی کیفیت ہے تا آنکہ کوئی نہ کوئی چپکے سے پانچ روپے کا نوٹ منٹو صاحب کی بند مٹھی میں چھپا دیتا اور منٹو صاحب یہ دیکھے بغیر کہ کس نے ان کی اس آڑے وقت میں مدد کی ہے سامنے کمرشل بلڈنگ کی نکر پر واقع شراب کی دکان میں گھس جاتے اور وہاں سے اپنا کوٹہ لے کر قریب ہی اپنے ایک دوست کی دکان کے پچھلے حصے میں بیٹھ جاتے جہاں دکان کے ملازم موسم کے مطابق پانی رکھ دیتے۔ ان کا دوست بھی گاہکوں سے فارغ ہو کر ان کے پاس آ جاتا وہ پیتا نہیں تھا مگر منٹو کا احترام کرتا تھا۔ موڈ کی بات تھی کبھی کبھار منٹو صاحب یہاں بیٹھے بیٹھے جام سامنے رکھ کر کچھ لکھ بھی لیتے کوئی افسانہ مکمل ہو جاتا تو کسی پبلشر کو فون کرتے اور وہ معاوضہ لے کر منٹو صاحب کے پاس آ جاتا اور افسانہ وصول کر لیتا لیکن منٹو صاحب کا دکاندار دوست یہ معاوضہ اپنے پاس رکھ لیتا ورنہ بعید نہیں تھا کہ منٹو صاحب قریب ہی واقع شراب کی دکان میں پھر چلے جاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ ان کے دوست کو منٹو صاحب گھر پہچانے پڑتے کیونکہ اس کے بعد خود اپنے پائوں پر چل کر وہ گھر تک نہیں جا سکتے تھے۔
منٹو صاحب کی ایک اور یاد۔ وہ ایک نئے اخبار غالباً وفاق نام کے اخبار میں کالم نویسی کرنے لگے۔ یہ اخبار ایک صنعت کار کا اخبار تھا۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ منٹو صاحب کو ایک کالم کا کیا معاوضہ ملتا تھا کیونکہ وہ ماہانہ معاوضے کے قائل نہیں تھے۔ ادھر وہ کالم لکھتے اور ادھر وہ اسے لے کر ایڈیٹر کے پاس چلے جاتے۔ کالم ایڈیٹر کے حوالے اور اس کا معاوضہ منٹو صاحب کے حوالے۔ اردو کے اس سب سے بڑے افسانہ نگار کے یہ دن اس طرح مشقت کی پیتے پیتے گزر گئے۔ میں نے ایک دن ان کے پبلشر چوہدری رشید صاحب مکتبہ جدید والے سے کہا کہ مجھے منٹو صاحب سے ملا دیں۔ میں ان کے لیے عربی زبان سے ترجمہ کرتا تھا اور وہ میرے بھی پبلشر تھے۔ دوسرے تیسرے دن انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے منٹو صاحب سے بات کی تھی۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ داڑھی والا نوجوان جو سامنے فلیٹ میں رہتا ہے۔ اس کی بات کر رہے ہو۔ میں اس سے نہیں ملنا چاہتا بوجہ اس کی داڑھی کے۔