اُدھر احتجاج کون کرنے دیگا

لیکن کیاکریں کہ حکومتیں بھی احتجاج عادی ہوگئی ہیں، اس کے کان پر جوں اُس وقت تک نہیں رینگتی جب تک احتجاج نہ کرلیا جائے۔


محمد عتیق August 28, 2015
اپنے حقوق کیلئے احتجاج یقیناً ہونا چاہیے، لیکن اس کی قیمت کسی معصوم اور بے گناہ شخص کو نہیں ادا کرنی چاہیے۔ فوٹو :فائل


سوموار کا دن نوکری کرنے والوں کے لئے ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر سوموار کو بھی گھر سے لیٹ نکلا جائے تو یہ بھیانک خواب مزید بھیانک ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا، میں گھر سے مقررہ وقت سے کچھ دیر سے نکلا اور بائیک پر آیت الکرسی پڑھ کر بیٹھا کہ خیر ہی ہو۔ ابھی میں نے 3 کلومیٹر کا سفر بمشکل طے کیا ہی تھا کہ معلوم ہوا سڑک بلاک کرکے احتجاج ہورہا ہے۔ جس وجہ سے آگے نہیں جایا جاسکتا۔ وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ قریبی گاؤں میں موجود فیکٹری کی وجہ سے بدبو، تعفن اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جن کی وجہ سے اہلیانِ علاقہ کا نظام زندگی درہم برہم ہوچکا ہے۔ بائیک سائیڈ پر کھڑی کرکے جب قریب جا کے دیکھا تو کئی چہرے جانے پہچانے سے لگے ان چہروں پر ایک درد تھا، ایک تکلیف تھی۔


خیر کیا کرسکتا تھا، ایک احتجاجی سے پوچھا کہ بھئی عوام کو کیوں پریشان کررہے ہو؟ جن کی فیکٹری ہے ان کے گھر کے سامنے احتجاج کرو تاکہ انہیں بھی پتہ چلے کہ کیا مسائل ہیں۔ تو ان کا جواب تھا، جناب! وہاں احتجاج کرنے کون دے گا؟


اس طرح کے کئی واقعات گاہے بگاہے ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ عام طور پر اگر دیکھا جائے تو احتجاج کرنا عوام کا حق ہے، اور اکثر و بیشتر عوام اپنے مسائل کی شنوائی نہ ہونے کی بناء پر کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات جب اس میں سیاسی رنگ کی آمیزش ہوتی ہے تو پھر یہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ مجھے آج تک احتجاج کی اقسام کی سمجھ نہیں آسکی ہیں۔ اگر احتجاج کی اقسام پر نظر ڈالی جائے تو سڑکوں پر ٹائر جلا کر سڑکیں بند کردینا احتجاج کی سب سے مقبول قسم ہے۔ پھر پتلے نظرِ آتش کرنا، لانگ مارچ کرنا، ٹرین مارچ کرنا، دھرنا دینا، بھوک ہڑتال کرنا، کاروائی کا بائیکاٹ کرنا، بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھنا احتجاج کے موثر ذرائع ہیں۔


سڑ کوں پر آکر ناچنا اور خواجہ سراؤں کی مدد لینا احتجاج کی جدید ترین اقسام ہیں۔ احتجاج کی خطرناک حالتوں میں خود سوزی کرنا سر فہرست ہے۔ احتجاج کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نظرِ آتش کرنا یہ پاکستان کی منفرد صنف ہے جو کہ بالکل ناحق اورغیر مہذب فعل ہے۔ جائز احتجاج کسی بھی جمہوری طرزِ حکومت میں عوام کا بنیادی حق ہے۔ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے کیا جانیوالا احتجاج کسی طور بھی غیر مناسب نہیں۔ لیکن کیا کریں سرکار کہ یہاں قائم ہونے والی حکومتیں بھی اِس کی عادی ہوگئی ہیں۔ اِس کے کان پر بھی جوں اُس وقت تک نہیں رینگتی جب تک موثر احتجاج نہ کرلیا جائے اور جیسے جیسے احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ویسے ویسے حکومتی مشینری حرکت میں آتی رہتی ہے۔


کسی بھی زیادتی کی صورت میں شنوائی نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کرنا کسی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ لیکن مہذب معاشروں کا معاملہ کچھ مختلف ہے کہ وہاں مظاہروں، جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں، لیکن کسی بھی سرکاری و غیرسرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔ اِکا دُکا واقعات کے سوا، لیکن اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں کوئی بھی احتجاج تب تک کامیاب تصور نہیں کیا جاتا جب تک کسی سرکاری یا غیرسرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچادیا جائے۔ اگر ہم سڑکیں بھی بلاک کرتے ہیں تو اس میں بھی عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے، یعنی عوام ہی عوام کا نقصان کرتے ہیں۔ کوئی اپنی نوکری پر جارہا ہوتا ہے، کوئی اسکول و کالج جانے کیلئے سڑک پر ہوتا ہے، تو کوئی مریض کسی گاڑی میں مررہا ہوتا ہے۔ نقصان تو صرف عوام کا ہی ہوتا ہے کیونکہ جس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہم احتجاج کرتے ہیں وہ تو پروٹوکول کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا راستہ بنوا کر نکل بھی جاتے ہیں اور ہم اپنے جیسے عوام کو ہی تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں۔


احتجاج سے یقیناً ہمارے مطالبات حکامِ بالا تک پہنچ جاتے ہیں مگر پُر تشدد اور نفرت پیدا کرنے والے احتجاج سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان کی عوام کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے طویل احتجاجی دھرنے نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی تھی۔ بظاہر اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوا، لیکن دونوں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عوام میں اپنے حق کے لیے لڑنے کیلئے شعور کو بیدار کردیا ہے۔ اب قوم جاگ چکی ہے لیکن اس دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارت پر جس طرح دھاوا بولا گیا یہ کسی بھی مہذب ریاست کے افراد کو زیب نہیں دیتا۔ اس قسم کے احتجاج سے معاشرے میں منفی قوتوں کو تقویت ملتی ہے، اور دنیا میں آپ کے ہی ملک کا تشخص برباد ہوتا ہے۔


پھر ہڑتال کی صورت میں کیے جانے والے احتجاج میں معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ سڑکوں کو بند کردینے سے مریض راستے میں دم توڑجاتے ہیں۔ پرتشدد انداز میں حکام بالا تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے احتجاج کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے یہ سوچنا لازم ہے کہ اگر احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل ہوگیا تو کوئی بد نصیب اس کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ زیرِ بحث موضوع کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ حق کی جنگ نہ لڑنے والے اور ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے ظالم کے ساتھی ہوا کرتے ہیں۔ بقول قتیل،


اس سا منافق دنیا میں نہیں قتیل

جو ظلم تو سہتاہے، مگر بغاوت نہیں کرتا

دنیا میں اضطراب و بے چینی کی وجہ ظالم افراد کے ساتھ، حق پر چلنے والے لوگوں کی خاموشی ہے۔ اپنے حقوق کیلئے احتجاج یقیناً ہونا چاہیے، لیکن اس کی قیمت کسی معصوم اور بے گناہ شخص کو نہیں ادا کرنی چاہیے۔ حالات میں تبدیلی کیلئے احتجاج ضروری ہے اور یقیناً حالات بدل سکتے ہیں اگر احتجاج پُرامن ہو۔ جب ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہوں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اس سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ بھی ہم جیسے ہی مسائل سے دوچار ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

مقبول خبریں