- حکومت میں شامل لوگوں کا غیر فطری اتحاد ہے، ان کی منزل ہے نہ نظریہ، شاہ محمود قریشی
- ایران نے زیر زمین چھپائے گئے ڈرونز کی تصاویر جاری کردیں
- ہاکی ورلڈ کپ کوالیفائی کیوں نہ کیا؟ وجوہات جاننے کیلیے کمیٹی تشکیل
- اسنیپ چیٹ نے صارفین کے لیے نیا دلچسپ فیچر پیش کردیا
- نومولود بچوں میں رونے کا بلند سلسلہ تین ماہ بعد بھی جاری رہ سکتا ہے
- مانسہرہ؛ کیپٹن صفدر جلسہ گاہ میں ببر شیر لے آئے
- عمران خان تم نے میرا گھر توڑا جلد بشریٰ بی بی تمہیں چھوڑ جائیں گی، عامر لیاقت
- برازیل میں طوفانی بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ میں 35 افراد ہلاک
- لاہور میں کل تیز ہواؤں کے ساتھ ہلکی بارش کا امکان
- بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ حق سے محروم رکھنا ناانصافی ہے، فرخ حبیب
- چار سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کرنے والے کو اہل محلہ نے پکڑلیا
- نیپال میں 22 افراد کو لے جانے والا مسافر بردار طیارہ لاپتہ
- عمران خان کو گرفتار کرنے کا خواب دیکھنے والے اپنی حکومت کی فکر کریں، پرویز الٰہی
- دو ہفتے قبل پاکستانی وفد نے ملاقات کی تھی، اسرائیلی صدر کی تصدیق
- عماد وسیم کو اسکواڈ سے کیوں ڈراپ کیا گیا، چیف سلیکٹر نے وجہ بتادی
- پاکستان دنیا میں امن مشن کیلئے فوج دینے والا دوسرابڑا ملک ہے، آئی ایس پی آر
- عمران نے خود کو اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے این آر او مانگا، وزیراعظم
- بلوچستان کے 32 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات، 1584 امیدوار بلامقابلہ منتخب
- مجرم امپورٹڈ حکومت نے آزادی مارچ کے شرکاء کے خلاف پولیس کی وحشت آزمائی، عمران خان
- بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں مزید 2 کشمیری نوجوان شہید

رئیس فاطمہ
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
کہاں گئیں وہ روایات جب رمضان اور عید پر افطار اور شیر خرما معہ دیگر لوازمات کے پڑوسیوں کے بھیجے جاتے تھے۔
پرنالہ وہیں گرے گا…
چند دن قبل وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا ایک بیان اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ لگا،
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی اور ہم ابھی تک رمضان اور عید کے چاند کے نکلنے یا نہ نکلنے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں غالب شناسی
روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کے قارئین اور بالخصوص مرزا غالب کے کلام، شخصیت اور افکار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے
بگاڑ
میری ایک کولیگ جو نہ صرف میرے ساتھ ایک ہی کالج میں پڑھاتی رہیں بلکہ ہم دونوں کے گھر بھی قریب قریب تھے،
رمضان اورمنافع خوری کی لت
مبارک ہو! رمضان پوری آب و تاب اور توانائی سے ہمیشہ کی طرح پھر شروع ہوگیا ہے۔
غلطی ہائے مضامین مت پوچھ
گزشتہ اتوار کے کالم میں کچھ منفی رویوں کے فروغ اور غلط بات پہ ڈھٹائی سے ڈٹے رہنے کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔
موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری
زیادہ پیچھے نہ جائیے۔ صرف گزشتہ چھ سال کا ریکارڈ دیکھ لیجیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ سب کچھ کیونکر ٹھیک ہوگا۔
سماجی زوال پر بات کون کرے!
جو قانون خرید سکتا ہے وہی بادشاہ ہے۔ دولت، طاقت اور تشدد تینوں آج کامیابی کی کنجی ہیں