بھتہ خوروں اور اغوا کاروں نے اسٹریٹ کرائمز بھی شروع کر دیے

کاشف ہاشمی  بدھ 29 نومبر 2017
کراچی کے تاجروں کو صورتحال پر سخت تشویش،شہر کی ہر مارکیٹ میں مانیٹرنگ کا نظام قائم نہیں ہوا،لوٹ مارکی وارداتیں جاری۔ فوٹو: فائل

کراچی کے تاجروں کو صورتحال پر سخت تشویش،شہر کی ہر مارکیٹ میں مانیٹرنگ کا نظام قائم نہیں ہوا،لوٹ مارکی وارداتیں جاری۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی میں سیاسی و مذہبی تنظیموں کے سائے تلے کارروائیاں کرنے والے بھتہ خوروں اور اغواکاروں کیخلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کے بعد تنظیموں سے بے دخل اور الگ ہونے والے جرائم پیشہ افراد نے الگ گروپوں اورذاتی حیثیت  میں اسٹریٹ کرائمز شروع کردیے۔

بھتہ خوری کرنے والے جرائم پیشہ اب بھتے کا انتظار کرنے کے بجائے براہ راست اسٹریٹ کرمنل کی طرح اسلحے کے زور پر لوٹ مارکرنے لگے ، اسٹریٹ کرائم کے بے قابو جن پر صوبائی حکومت اور تاجروں کی جانب سے خدشات کے باوجود اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے کوئی موثر حمکت عملی تیار نہیں کی جاسکی۔شہر کے کاروباری مراکز سمیت اندورن علاقوں میں مانٹیرنگ نظام نہ ہونے کے باعث کرمنل پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں کے باوجود سرگرم ہیں۔

اس سلسلے میں سی آئی اے کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر وفاقی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ کراچی کے تاجر اور صنعتکاروں نے اسٹریٹ کرائم کی تشویش کا اظہار نہ صرف سندھ پولیس اور صوبائی حکومت سے کیا ہے بلکہ اپنے خدشات سے ڈی جی رینجرز اوروفاقی حکومت کو مختلف مواقع پر آگاہ کیا ہے۔

حالیہ صوبائی اپیکس کمیٹی کی اجلاس میںبھی اسٹریٹ کرائمز کی مسئلے کو خاصی اہمیت دی گئی اور اسکے خاتمے کے لیے رینجرز ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہ صرف تجاویز لی گئی جبکہ خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن شہر کے اندرونی علاقوں میں آج تک مانیٹرنگ کا ایسا کوئی موثر بندوبست نہ ہوسکا کہ شہر میں ہر کاروباری مراکز ، مارکیٹوں اور شاہراہوں کی مانیٹرنگ کی جاسکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کاروباری مراکز اور جن وقتوں میں لوٹ مار کی وارداتیں زیادہ ہوتیں ہیں ان مقامات اور وقتوں کا تعین کرتے ہوئے سادہ لباس اہلکاروں کو تعینات کیاجاتا ہے اورتاجروں سے اپیل کی گئی ہے وہ اپنے طور مارکیٹوں اور کاروباری مراکز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں تاکہ ان سے بھی مدد لی جاسکے لیکن یہ مسئلے کا مکمل و مستقل حل نہیں ہے۔

کراچی آپریشن کے بعد بھتہ خوروں نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اسٹریٹ کرائمز اور لوٹ مار کی وارداتیںکررہے ہیں۔ یہ باتیں کراچی میں قائم صدر موبائل و الیکٹرانکس مارکیٹ ، ایمپریس مارکیٹ ، جامع کلاتھ ، جوبلی ، بولٹن مارکیٹ ، حیدری ، لیاقت آباد، گلشن اقبال،کلفٹن، بہادرآباد اور دیگر علاقوں میں قائم تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے دکانداروں نے نام ظاہر نہ کرنے پر ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کیں۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے مارکیٹیوں کے باہر اور اندرلوٹ مار کرنے والے بہت سے ملزمان کو دیکھا ہے جو پہلے سیاسی و مذہبی ، کالعدم تنظیموں اور لیاری گینگ وار کی جانب سے مارکیٹوں سے بھتہ وصول کیا کرتے تھے اور وہ مارکیٹوں کے بڑے اور چھوٹے دکانداروں کو بخوبی جانتے بھی ہیں جبکہ مارکیٹوں میں کام کرنے والے اسٹاف کے لوگ بھی ان کے ساتھ ملوث ہوتے ہیں جو مارکیٹ کے دکانداروں کی مخبریاں کرتے ہے۔

میٹھادر کے علاقے میں قائم سنار مارکیٹ کے دکاندار نے بتایا کہ انکی مارکیٹ سمیت اولڈ سٹی ایریا میں اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ملزمان لیاری گینگ وار ، ایک سیاسی اور ایک مذہبی تنظیموں کے کارندے ہے جو کھلے عام اسلحے کے زور پر لوٹ مارکی وارداتیں کررہے ہیں ، علاقہ پولیس بھی ان ملزمان کو دیکھ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتی ہے۔

بولٹن مارکیٹ میں قائم پرائز بانڈ مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ مہینے کی شروع کی تاریخوں میں اچانک مسلح ملزمان دکان میں گھس جاتے ہیں اور اسلحے کے زور پر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دکاندار نے بتایا کہ یہ وہ ہی ملزمان ہے جو پہلے لیاری گینگ وار ، سیاسی و مذہبی تنظیموں کے لیے بھتہ جمع کیا کرتے تھے۔

خواجہ اجمیر نگری کے علاقے میں قائم مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء سیل کرنے والے سیلز مین نے بتایاکہ چند روز قبل مارکیٹ میں کمپنی کا سامان سیل کررہا تھا اس دوران موٹر سائیکل پر دو مسلح ملزمان آگئے تو دکاندار نے فوری طور پر مجھے کہا کہ کمپنی کی جو بھی رقم ہے وہ دیدینا جو تمھاری رقم ہو تو وہ انھیں بتادینا تو واپس کردینگے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔