وقت کی قدر و قیمت

راحیل گوہر  جمعـء 29 دسمبر 2017
زندگی غیر یقینی ہے، کسی بھی لمحے زندگی کی شمع بجھ سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

زندگی غیر یقینی ہے، کسی بھی لمحے زندگی کی شمع بجھ سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

انسان کچھ چیزوں کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ ان کو مذہب نے اہم قرار دیا ہے، جب کہ کچھ چیزوں کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہوتی ہیں اور ان کو اہمیت دیے بغیر زندگی کی گاڑی چل نہیں سکتی۔ البتہ انسان کے مذہب اور اس کی نجی زندگی میں اہمیت کے لحاظ سے جو قدر مشترک ہے، وہ ہے وقت۔ وقت کا تصور ہماری زندگی کا ایک اہم تصور ہے، جس کے بغیر زندگی کے وجود کا احساس ممکن نہیں۔

فلسفے، طبیعات، نفسیات اور حیاتیات میں بھی وقت کی اہمیت کا ذکر موجود ہے۔ انسان کے اندرونی احساسات اور کیفیات کا وقت سے بہت گہرا ربط و تعلق ہوتا ہے۔ خوشی اور انبساط کی حالت میں انسان کو وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے، جب کہ تناؤ، افسردگی، مایوسی اور پریشانی میں وقت ٹہرا ہوا لگتا ہے یا وقت کی رفتار میں قدرے کمی محسوس ہوتی ہے۔

وقت کے ضمن میں جو بات سب سے زیادہ اہم ہے اور انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے وہ یہ کہ دنیا کی ہر شے کبھی نہ کبھی لوٹ کر ضرور آتی ہے۔ صحت چلی جائے تو بروقت علاج سے واپس آجاتی ہے، دولت ضایع ہوجائے تو اچھی منصوبہ بندی اور محنت سے پھر حاصل ہوجاتی ہے۔ زلزلے، طوفان بڑی بڑی عمارتوں کو زمیں بوس کردیتے ہیں مگر مادی وسائل، فنی مہارت اور افرادی قوت سے ایک بار پھر بلندبالا عمارتیں پہلے سے بہتر حالت میں بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ لیکن وقت ایک ایسی چیز ہے کہ وہ ایک بار گزر جائے تو کبھی واپس نہیں آتا۔ وقت کو مضبوطی سے نہ تھاما جائے تو وہ مٹھی میں دبی ریت کی مانند ہوجاتا ہے جسے کتنی ہی مضبوطی سے پکڑا جائے آخر کار وہ پھسل ہی جاتی ہے۔

اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو ہر اس کام سے بچنے کی راہ دکھا تا ہے جواس کے دین و دنیا کے نفع و نقصان سے جڑا ہوا ہو۔ اگر انسان غفلت میں پڑ کر دنیا کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر نے میں ناکام رہا تو عزت و خودداری کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ احساس محرومی اسے سر اٹھا کر جینے نہیں دے گا۔ مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

عزت نفس مجروح ہوگی، بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی، اپنے ارد گرد کی رنگا رنگی دیکھ کر کڑھن ہوگی، اپنے سے بہتر زندگی گزارنے والوں سے حسد، کینہ، بغض و عداوت اور نفرت کا رویہ انسان کے فکر و عمل میں پید ا ہوجائے گا اور یہ بات اسلام کے مزاج کے قطعی منافی ہے۔ کیوں کہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ورنہ اسلام کی آمد سے قبل اس دنیا میں یہی کچھ تو ہو رہا تھا۔ جو دولت و طاقت کا ما لک تھا وہ کم زوروں اور مفلس لوگوں کو جابرانہ طریقے سے استعمال کر رہا تھا اور جو آج بھی اسلام کی تعلیمات سے دور ہیں وہ وقت کے ذلت آمیز انجام سے بے پروا ہو کر ماضی کی اسی روش پر قائم ہیں۔

طاقت اور دولت کی یہ فطرت ہے کہ وہ آدمی میں کبر و غرور اور فسادِ آدمیت پیدا کر دیتی ہے۔ اگر ان شرور نفس اور اخلاقی برائیوں سے کوئی شے اسے بچا سکتی ہے تو وہ اﷲ کی ہدایت ہے۔ چناں چہ اﷲ کی رحمت اور محض اس کے فضل و کرم سے جب مومن بندے بہشت میں داخل ہوں گے تو شکرانے کے طور پر اپنی زبان سے یہ اعتراف کریں گے، مفہوم : ’’ اﷲ کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا راستہ دکھایا۔ اور اگر اﷲ ہم کو راستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پاسکتے تھے۔ بے شک ہمارے پروردگار کے رسول، حق بات لے کر آئے تھے۔‘‘ ( الاعراف)

دنیا اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو مہلت عمر انسان کو دی گئی ہے اس میں گزارے ہر ایک لمحے کا حساب قیامت کے دن دینا ہوگا۔ حدیث میں ایسے پانچ سوالوں کا ذکر ہے جن کا جواب دیے بغیر انسان قدم بھی نہیں ہلا سکے گا۔ یعنی اپنی عمر کن کاموں میں صرف کی ؟ جوانی کہاں گزاری ؟ مال کہاں سے کمایا ؟ اسے کن کاموں میں خرچ کیا ؟ جو علم تم نے حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا ؟ ان سوالوں میں پہلا سوال عمر کے متعلق ہے کہ وہ کہاں گزاری؟ کیوں کہ ہر انسان کو دنیا میں ایک قلیل مدت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ سورہ البقرہ میں مذکور ہے۔ مفہوم:

’’ پھر شیطان نے دونوں (آدم و حوا) کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انھیں اس سے حالت نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں زندگی بسر کرنا ہے۔‘‘

بس یہی وہ مہلت عمر ہے جو تمام بنی نوع انسان کو اﷲ کی طرف سے عطا کی گئی ہے۔ جب یہ مہلت ختم ہوگئی تو ایک لمحے کا بھی اس میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس لیے اصل سرمایہ یہ وقت ہی ہے جو دبے پاؤں کھسکتا جا رہا ہے۔ جو لمحہ بیت گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ ہمارا آج، کل ہمارا ماضی بن جائے گا اور وقت جب ماضی بن جائے تو وہ حال کبھی نہیں بنتا۔

وقت کہاں اور کن کاموں میں گزارا ؟ اس کا صحیح جواب وہی شخص دے سکے گا جس نے اپنے روز و شب اﷲ کے بتائے ہوئے منکر و معروف پر عمل کرنے میں اور اطاعت ربّ میں بسر کیے ہوں۔ زندگی کے دیگر معاملات، معیشت، معاشرت، سیاست میں ایمان داری اور خود احتسابی کے عمل کو پیش نظر رکھا ہو۔ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی ایک ایک دھڑکن کواپنے لیے توشۂ آخرت بنایا ہو۔ اپنی زندگی میں بناؤ بگاڑ کا یہی ایک موقع ہے جو لمحہ بہ لمحہ کم ہوتا جارہا ہے۔

حدیث مبارکہ ہے، مفہوم : ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ خیانت کر تے ہیں۔ ایک صحت اور دوسری فراغت۔‘‘ (متفق علیہ)

اپنے وقت کا بہترین استعمال جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کی کام یا بی کا ضامن بن سکتا ہو اس کو اﷲ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں بیان کیا ہے، مفہوم:

’’ قسم ہے زمانے کی، کہ تمام انسان خسارے میں ہیں، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے

اور نیک عمل کر تے رہے اور آپس میں حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘

اس سورہ مبارکہ میں چار اہم اور جامع نکات بیان ہوئے ہیں، یعنی ایمان، عمل صالح، حق و صداقت کی تلقین اور حق کے راستے میں آنے والی تکالیف و مصائب پر صبر و تحمل کا مظاہرہ، یہ ایسے مضبوط اور محکم کام ہیں جن پر یقین کامل اور استقامت کے ساتھ عمل کرنا وقت کا سب سے افضل استعمال ہے اور یہی انسان کی اصل متاعِ حیات ہے۔ حق کے راستے پر چلنا اور دوسروں کو بھی حق کا رستہ دکھانا بہت ہمت اور مجاہدے کا کام ہے کیوں کہ یہ راستہ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس پر وہی چل سکتا ہے جس میں صبر و استقامت کا جوہر موجود ہو۔ وقت تو ان کا بھی گزر ہی جاتا ہے جو اپنی پوری عمر غفلت کی نیند سو کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔

لیکن جو شخص قلبی ایمان کے ساتھ سورۃ العصر میں بیا ن کی ہوئی دیگر تینوں صفات کے ساتھ اپنی حیات دنیاوی کے دن پورے کر کے یہاں سے رخصت ہو، وہی انسان اصل میں کام یاب ہے خواہ دنیا وی اعتبار سے وہ کتنا ہی ناکام اور خسارے میں رہا ہو۔ اصل کام یابی آخرت کی ہے ورنہ اس دنیا کی آسائشیں تو اﷲ ان کو بھی دے دیتا ہے جو احسان فروشی، سرکشی اور اپنی مرضی کی زندگی گزار کر اور اپنے سینوں میں سیکڑوں خود ساختہ معبود سجائے مرکر خاک میں مل جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اسلام نے نقصان اٹھانے والے اور بے وقوف قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم: ’’ جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش ہیں اور اسی پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں

اور ہماری نشانیوں سے غافل ہورہے تھے۔ ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔‘‘ (یونس)

حسن بصری ؒ کا قول ہے: ’’ فجر کی پو پھٹتے ہی روزانہ ایک منادی اعلان کر تا ہے۔ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نئی مخلوق ہوں اور تیرے اعمال پر گواہ ہوں۔ میرے واسطے سے نیک اعمال کا ذخیرہ کرلے، کیوں کہ میں قیامت تک دوبارہ نہیں لوٹ سکتا۔‘‘

یہ وہ پند و نصائح ہیں جو اسلام کی اصل روح ہیں اور انسان کی دنیوی زندگی کو آخرت کی کھیتی بنا تے ہیں۔ زندگی غیر یقینی ہے، کسی بھی لمحے زندگی کی شمع بجھ سکتی ہے۔ دانش مند انسان وہی ہے جو ہر گزرتے لمحے کو اپنی گرفت میں لے کر اسے اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری میں لگادے۔ کیوں کہ یہ زندگی یوں لہو و لعب میں ضایع کر نے کے لیے نہیں، اس زندگی کا تو مقصد ہی رب کائنات کی عبادت اور اس کی رضا جوئی ہے۔ جس کسی کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا، اس نے گویا اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرلی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔