ہمیں اپنے جھنڈ میں واپس آنا ہی ہوگا

حسیب اصغر  بدھ 24 جنوری 2018
زینب جیسے واقعات کی روک تھام کےلیے ہمارا اپنی اقدار سے جڑنا ضروری ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

زینب جیسے واقعات کی روک تھام کےلیے ہمارا اپنی اقدار سے جڑنا ضروری ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

معصوم زینب کے دل خراش واقعے پر دل بہت اداس تھا۔ دل میں لکھنے کو بہت کچھ آیا مگر لکھنے سے کیا ہوتا؟ ہم تو بس لکھ ہی رہے ہیں؛ اور لکھ بھی کیا رہے ہیں، واقعے کو مرچ مصالحہ لگا کر مزید چٹپٹا بنارہے ہیں۔ حالانکہ معصوم کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب ہمارے لیے واقعے کو بیان کرنے اور معاشرتی خرابیوں کا رونا رونے کے بجائے ایسے واقعات کے سدباب کی جانب آنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

زینب کے واقعے نے ہم سب کو ہلاکر رکھ دیا، لیکن کیا یہ ہمارے معاشرے میں پیش آنے والا پہلا واقعہ تھا؟ کیا ہمارے معاشرے میں اس سے قبل ایسے کریہہ اور قبیح فعل نہیں ہوئے؟ کیا اس ملک میں انسانیت کی ایسی تذلیل پہلی بار ہوئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! زینب سے پہلے ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ان معصوم زندگیوں کے اعداد و شمار اور ’’کیا ہوا، کیوں ہوا‘‘ کی تفصیلات میں پڑنے سے زیادہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس قبیح فعل کو روکا کیسے جاسکتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ ایسے دل خراش واقعات کا سدباب جوئے شیر لانے جیسا بہت مشکل کام نہیں، جسے کارِ دارِد قرار دے کر ہم کچھ بھی نہ کریں۔ البتہ، اس کےلیے ہمیں اپنے ذہن و نگاہ کو وسیع کرنا ہوگا اور برداشت پیدا کرنا ہوگی۔

دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر آنے والے ملک پاکستان میں جہاں بہت سی جسمانی موذی بیماریاں ہیں، وہیں ذہنی بیماریاں بھی ہیں لیکن یہ لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ جسمانی بیماری کے علاج کےلیے بیرون ملک تک جانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے لیکن اگر انہیں ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کا بتا بھی دیا جائے تو یوں ناراض ہوجاتے ہیں جیسے کہ کوئی گالی دے دی ہو، حالانکہ جسمانی بیماریوں کے مقابلے میں ذہنی بیماریوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم انہیں سمجھنا اور ان کا علاج کرنا خاصا پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ’’ذہنی بیماری‘‘ کا فوری مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کوئی شخص پاگل ہوگیا ہے اور اب اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے پاگل خانے بھجوا دیا جائے؛ ورنہ وہ ہر آتے جاتے کو، ملنے جلنے والے کو پتھر مارنا اور بے وجہ ہذیان بکنے لگے گا۔

یقین کیجیے کہ ایسا کچھ بھی نہیں، بلکہ نفسیاتی (ذہنی) امراض کی بڑی تعداد ایسی ہے جس میں مبتلا افراد عام زندگی میں بالکل نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن کچھ خاص مواقع پر، کچھ مخصوص حالات کے تحت ایک ایسے طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ’’نارمل‘‘ (صحت مند) کی تعریف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ، ایسے ذہنی مریض کسی قبیح عادت یا بُرائی میں اس شدت سے مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول ہی نہیں کر پاتے بلکہ ان کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں میں ایسے ہی ذہنی مریضوں کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے؛ اور اگر وہ صاحبِ اقتدار و اختیار بھی ہوں تو پھر خرابے کی کیفیت اور کمیت، دونوں ہی ’’ریاست‘‘ کے بس سے باہر ہوجاتی ہیں۔

پاکستان ایک ترقی پذیرملک ہے۔ کرپشن، جھوٹ، فریب، دھوکا، دغابازی اور جعل سازی ہمارا قومی مزاج بن چکے ہیں۔

کسی بھی ملک کے ادارے اس کے افراد سے بنتے ہیں۔ جب ہمارا مشترکہ اور اکثریتی مزاج ہی ’’بدعنوانی‘‘ ہے تو پھر ہماری عدالتیں، پولیس، اسکول اور دیگر تمام اداروں کا حال ابتر ہونا بھی کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ ذہنی عوارض کا ہونا معمولی بات ہے۔ اگرچہ ڈپریشن کو، جو ایک ذہنی بیماری ہے، لوگوں نے فیشن کے زمرے میں لیتے ہوئے قبول کرلیا ہے اور اس کا علاج عام سمجھا جانے لگا ہے، لیکن اب بھی کئی دوسرے ذہنی امراض ایسے بھی ہیں جن کا ہمیں علم ہی نہیں؛ تو پھر ان کا علاج کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟

ایسی ہی ایک ذہنی بیماری کا نام ’’فائیڈوفیلیا‘‘ (phidophlia) ہے۔ یہ ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے جس کا حامل شخص بچوں کی طرف جنسی رغبت رکھتا ہے۔ معاشرے میں ہزاروں اقسام کی ذہنی بیماریاں ہیں لیکن یہاں خصوصی طورپر اِس ایک بیماری کا ذکر کرنا چاہوں گا کیونکہ، میری عاجزانہ رائے میں، یہی وہ مرض ہے جس میں مبتلا افراد نے معصوم پھولوں کو کچل دیا۔

یہ بات طے ہے کہ ایسے قبیح فعل کرنے والے لوگ بلاشبہ ذہنی مریض ہی ہیں۔ تو کیا یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم ایسے مریضوں کی نشاندہی کریں اورعلاج کی جانب جائیں؟ میں اس بات کی بھرپورحمایت کرتا ہوں کہ ایسے ذہنی مریضوں کو ان کے جرم کی کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے لیکن صرف سزا مسئلے کا حل نہیں؛ اس کےلیے ہمیں سدباب کی جانب آنا ہی پڑے گا۔

سدباب سے متعلق بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک ایسا واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا جس سے آپ کو ہمارے حالیہ تکلیف دہ حالات کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔

کچھ عرصہ قبل نیشنل جیوگرافک چینل پر ایک ڈاکیومینٹری دیکھ جس میں افریقہ کے ہاتھیوں کی اچانک موت پر تشویش ظاہر کی جارہی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جنگل میں ہر ماہ کچھ گینڈوں (Rhinos) کی لاشیں ملنا شروع ہوگئیں، اور لاشیں بھی ایسی کہ اتنے بڑے حجم اور وزن کے جانور کی کمر کی ہڈی ٹوٹی ہوتی تھی جبکہ یہ تمام لاشیں صرف مادہ گینڈوں کی تھیں۔ یہ عمل محکمہ جنگلات اور عالمی تحفظ حیوانات کے ماہرین کےلیے بہت پریشان کن تھا۔ اس پراسرار معاملے کی تہہ تک پہنچنے کےلیے بڑے پیمانے پراقدامات کیے گئے: خفیہ کیمروں کی بڑی تعداد میں جگہ جگہ تنصیب کے علاوہ جنگلات میں تعینات پولیس کی نفری اور گشت میں غیمعمولی اضافہ کیا گیا۔ یعنی ہر وہ کام کیا گیا جس سے ان پراسرار ہلاکتوں کی وجہ کا پتا لگایا جاسکے۔ تھوڑی ہی عرصے کی محنت کے بعد محکمہ جنگلات کو گینڈوں کی موت کی جو وجہ ملی، وہ ان گینڈوں کی موت سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔

ہوا کچھ یوں کہ خفیہ کمیروں نے جو مناظر فلم بند کیے تھے، ان میں جنگلی جانوروں کا غیر فطری عمل نظر آرہا تھا، جس پر وہ بے حد حیران ہوئے۔ دیکھا گیا کہ کچھ نوجوان ہاتھی اپنی جنسی ضروریات پوری کےلیے اپنی ماداؤں (ہتھنیوں) کے بجائے مادہ گینڈوں کے ساتھ فطری عمل، غیر فطری طریقے سے کرتے دیکھے گئے؛ اور اسی دوران ہاتھیوں کے بھاری وزن سے مادہ گینڈوں کی کمر کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں، جو اُن کی موت کا باعث بنتیں۔

یقیناً آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ یہاں بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا ہاتھیوں اور گینڈوں کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے؟ تو عرض ہے کہ ہاتھی دانت کے حصول کی خاطر ہاتھیوں کے غیرقانونی اور بے تحاشا شکار (poaching) کی وجہ سے ہاتھیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی۔ یاد رہے کہ ہاتھی دانت صرف نر اور بھرپور جوان ہاتھی ہی کا قیمتی ہوتا ہے۔ یوں ہاتھی دانت (ivory) کےلیے ہونے والے، ہاتھیوں کے بے تحاشا شکار نے جھنڈ میں رہنے والے نوجوان ہاتھیوں کو اس طرح متاثر کیا کہ وہ ہاتھیوں کی فطری اقدار سیکھنے سے محروم ہونے لگے؛ کیونکہ ان کے ’’بزرگوں‘‘ کو بڑی تعداد میں ہلاک کیا جارہا تھا، جو اُن میں فطری اقدار منتقل کرنے کا اہم ذریعہ تھے۔ جھنڈ سے بچھڑے ہوئے یہ نوجوان ہاتھی، اپنی فطری اقدار سے ناواقف تھے۔ یہی وہ بات تھی جس کے نتیجے میں نوجوان اور اقدار سے لاعلم ہاتھیوں نے مادہ گینڈوں کو شکار بنانا شروع کردیا اور وہ ایک غیر فطری عمل میں ملوث ہوئے۔

بالکل یہی ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ہم اپنے جھنڈ کے بڑے ہاتھیوں سے بچھڑ گئے ہیں، ہم نے انہیں نظرانداز کیا ہوا ہے اور ان سے الگ ہونے کو ’’ترقی‘‘ میں شمار کر رہے ہیں؛ حالانکہ ہماری ترقی اور کامیابی تو وہی ہے جو 1400 سال قبل پیغمبر اسلام، نبئ آخرالزماںﷺ کے ذریعے ہمارے رب نے ہمیں بتا دی تھی۔

یہ خطرناک اور موذی ذہنی و جسمانی بیماریاں کہاں سے آئیں؟ فطرت کے خلاف زندگی گزارنے سے ہمیں نت نئی اقسام کی بیماریوں نے آن گھیرا ہے۔ ہمارا دین ہمیں فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کے تمام طریقے بتا چکا ہے: کب اٹھنا ہے؟ کب سونا ہے؟ کب کھانا ہے؟ کب نہیں کھانا؟ حتی کہ ہماری جنسی ضروریات تک کے بارے میں بھی ہمارے دین میں کھول کھول کر آگاہ کردیا گیا ہے۔

آج ہمارے معاشروں میں جدیدیت اور ترقی کے نام پر بڑے بزرگوں کو یہ کہہ کرنظراندازکیا جارہا ہے کہ آپ ’’جدید دور کی ٹیکنالوجیز سے آگاہ نہیں۔‘‘ آج موبائل اور انٹرنیٹ تقریباً ہر خاص و عام کی دسترس میں ہیں۔ اب یہاں اگر یہ کہا جائے کہ جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگی اور ترقی کےلیے انٹرنیٹ ضروری ہے تو غلط نہیں ہوگا، لیکن کیا کبھی یہ سوچا گیا ہے کہ جس شخص کی بھی دسترس انٹرنیٹ تک ہے، کیا وہ اس سے تعمیری مواد ہی حاصل کرے گا یا اخلاق کو تباہ کرنے والی ویب سائٹس تک جائے گا؟ المیہ یہ ہے کہ بچوں اور دیگر افراد کی وہ تربیت ہی نہیں ہوتی جو انہیں یہ بتا سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

یعنی اگر یہ کہا جائے کہ آج ہم جس زینب کو رو رہے ہیں اس کے ساتھ زیادتی کے جرم میں مجموعی طور پر ہم سب قصور وار ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

جی بالکل! آج معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح، میں اور آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ ہم نے بزرگوں کی باتوں اور نصیحتوں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ آپ کو جدید دنیا کا کیا پتا؟ آپ کو نہیں معلوم کہ اینڈروئیڈ کیا ہے؟ ڈارک ویب، ڈیپ ویب کیا ہے؟ اور ناسا نے ابھی تک کتنی کہکشائیں دریافت کرلی ہیں؟ اب تو انسان ماریانا ٹرینچ تک پہنچ گیا ہے اور آپ ابھی تک پتھروں کے دور کی بات کرتے ہیں۔ ایسے سوچتے اور کہتے ہوئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اپنے مرکز سے دور نکلنے والے ایسے تباہ ہوجاتے ہیں کہ تاریخ کے اوراق پر ان کے نقوش، ڈھونڈے نہیں ملتے۔

اگر زینب جیسے واقعات نے آپ کے دل کو واقعی میں تکلیف پہنچائی ہے تو ہمیں بھی افریقہ کے ہاتھیوں جیسی تباہی سے بچنے کےلیے اپنے جھنڈ میں واپس آنا ہی پڑے گا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ابھی ہمارے جھنڈ کے سب ہاتھی ختم نہیں ہوئے ہیں، ابھی کچھ باقی ہیں۔ اگر ہم اپنے جھنڈ کے ہاتھیوں میں واپس نہیں آتے تو پھر آج سے ہیش ٹیگ #زینب اور #جسٹس فار زینب کے بعد دوسرے نئے سلوگنز اور ہیش ٹیگز کی تیاری ابھی سے شروع کردیجیے۔

خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔
حسیب اصغر

حسیب اصغر

بلاگر میڈیا ریسرچر، رائٹر اور ڈاکیومنٹری میکر ہیں جبکہ عالمی تعلقات اور سیاست میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔