کراچی اور اُس کی ٹریفک

مبین مرزا  اتوار 18 فروری 2018
کراچی میں ٹریفک کی یہ صورتِ حال ہمیشہ سے نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی میں ٹریفک کی یہ صورتِ حال ہمیشہ سے نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی مخلوط آبادی کا ایک بڑا شہر ہے۔ ملکی منظرنامے میں اس کی ایک بڑی اہمیت تو یہ ہے کہ یہاں بندرگاہ ہے، یعنی ملک کی درآمدات و برآمدات میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور امور بھی ہیں جو اس شہر کی حیثیت و اہمیت کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس شہر کا سیاسی کردار ملک میں سیاست کو رخ دینے میں ایک عامل کی طرح کام کرتا ہے۔

ملک بھر کا نصف سے زیادہ ریونیو یہ شہر فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں ملک کی شہری آبادی کے رویوں اور رجحانات کی تشکیل میں بھی اس کا رنگ و آہنگ نمایاں رہتا ہے۔ تمدن اور سیاست کی زبان میں ایسے شہروں کے لیے کاسمو پولیٹن سٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ملک کی معاشرت، معیشت اور سیاست میں ایسے شہروں کے کردار کی اہمیت اپنی جگہ اور ان میں بسنے والے لوگوں کی زندگی کا تجربہ اور ان کے مسائل اپنی جگہ۔

مثال کے طور پر دیکھیے کہ کاسمو پولیٹن شہروں میں رہنے والے لوگوں کی یہ مشترک تقدیر ہے کہ وہ دو بنیادی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک رہائش اور دوسرے ٹرانسپورٹ۔ آپ ٹوکیو، شنگھائی، بیجنگ، جینوا، پیرس، واشنگٹن، لندن، دہلی، ممبئی جیسے شہروں میں اگر جائیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ان دو مسائل کا احساس آپ کو بہت جلد ہوجاتا ہے۔

ایسے شہروں میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب شہروں میں نہیں رہتی، بلکہ ان کے مضافات میں آباد ہوتی ہے۔ وہ علاقے جو کچھ عرصے پہلے تک شہر سے باہر سمجھے جاتے تھے، بلکہ واقعتا باہر ہی تھے اور نواحی بستیاں کہلاتے تھے، اب شہر کا حصہ بن چکے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔ ایسے شہروں میں رہنے والے لوگ کارِ معاش اور روزمرہ ضروریات کے لیے دس سے لے کر پینتیس چالیس کلو میٹر کا یک طرفہ سفر روز کرتے ہیں۔

ان شہروں میں عام آدمی کو آنے جانے کے مخصوص اوقات میں تیس چالیس منٹ سے لے کر ڈیڑھ دو گھنٹے تک کا وقت صرف ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال پر اعدادوشمار کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح ساٹھ برس کی اوسط عمر کا ایک آدمی اپنی زندگی کے لگ بھگ چھے سات سے لے کر بیس بائیس برس تک سفر میں گزار سکتا ہے۔ یہ ہے بڑے شہروں میں رہنے کی ایک قیمت۔ اس کے علاوہ بھی کچھ قیمتیں بڑے شہر کے مکینوں کو چکانی پڑتی ہیں۔ اب اگر بڑے شہروں میں رہنا اس قدر آزمائش طلب اور پریشان کن ہے تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر خلقت ایسے شہروں پر کیوں ٹوٹی پڑ رہی ہے؟ اس کا پہلا اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ بے شک بڑے شہروں کی آسائشیں بھی بڑی ہیں، آرام بھی بڑے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں معاش کے مواقع بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

خیر، ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز کاسمو پولیٹن شہر کی زندگی کے دو بنیادی مسائل کے ذکر سے کیا تھا، یعنی رہائش اور ٹرانسپورٹ۔ رہائش ایک الگ اور تفصیلی موضوع ہے، اُسے فی الحال ہم چھوڑتے ہیں اور آج بات کرتے ہیں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے۔ ہماری یہ گفتگو کراچی کے تناظر میں ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس وقت کراچی کی زندگی کا تجربہ اَن گنت مسائل سے عبارت ہے۔ ان میں سیاسی، سماجی، معاشی، لسانی، گروہی اور اخلاقی سے لے کر آبادی، رہائش اور دیگر بنیادی ضرورتوں تک ہر طرح کے مسائل شامل ہیں۔ یہ مسائل یک بہ یک پیدا نہیں ہوئے، بلکہ رفتہ رفتہ سامنے آتے رہے، لیکن شہری اور صوبائی دونوں حکومتوں نے ان پر وہ توجہ نہیں دی جو کہ دی جانی چاہیے تھی۔ اگر کسی دور میں ان مسائل کے حل کے لیے کام کیا بھی گیا ہے تو حکومتوں کے بدلنے پر کاموں کا تسلسل برقرار نہیں رہا۔ چناںچہ اُن سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔

ہمارے یہاں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سماجی بہتری اور ملکی ترقی کے اہداف بھی سیاسی مقاصد کی تکمیل، حکومت کے حصول یا استحکام کی غرض سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ اُن پر کام کرتے ہوئے عوامی مفاد کے بجائے سیاسی مفاد کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ وسیع اجتماعی دائرے کے بجائے چھوٹے گروہی تناظر میں اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اب کراچی میں ٹریفک کے مسئلے ہی کو لیجیے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں یہ مسئلہ بڑھتے بڑھتے اس حد تک آپہنچا ہے کہ آج اس میں کسی ایک یا دو پہلو کی نہیں، بلکہ ہمہ جہت اصلاح کی ضرورت ہے، اور جب تک ہر سطح پر بہ یک وقت کام نہیں ہوگا، مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ گویا اب اس شہر کے لیے ٹریفک کے نئے نظام کی ضرورت ہے، جس میں ٹریفک کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی منصوبہ بندی، نئے راستوں کی تعمیر، پرانے راستوں کی درستی، ماس ٹرانزٹ کا انتظام، عوامی ٹرانسپورٹ کی فراہمی، سگنل کا مؤثر نظام، ٹریفک پولیس کی اصلاح اور قانون کی عمل داری جیسے سارے پہلو بہ یک وقت اور یکساں توجہ کے مستحق ہیں۔

آج کراچی میں ٹریفک کی صورتِ حال یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے ہی قدم قدم پر ایسی الجھن اور انتشار کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آپ ذرا سی دیر میں ہڑبونگ کا شکار اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک کا کوئی قاعدہ کہیں بھولے سے بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ سڑک پر آتے ہی آپ محسوس کرتے ہیں کہ ہر سواری کا ڈرائیور خواہ وہ موٹر سائیکل چلا رہا ہے یا رکشا، کار چلا رہا ہے یا بس، کسی چھوٹی مال بردار گاڑی پر ہے یا بڑے لوڈر پر سب کے سب ایک بے چینی میں مبتلا اور بہت جلدی میں ہیں۔ روڈ پر ہر ڈرائیور اضطراری انداز سے آگے بڑھنے اور دائیں بائیں کہیں سے بھی راستہ لینے کی کوشش میں نظر آتا ہے، یعنی اگر ذرا سی دیر ہوگئی تو خدا جانے وہ کس عذاب سے دوچار ہوجائے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر ڈرائیور یہ سمجھ رہا ہے کہ صرف وہی کسی کام یا ضرورت کے ساتھ نکلا ہے، باقی سب لوگ تفریح یا وقت گزاری کے لیے سڑک پر ہیں۔ اس لیے اُسے ہر ممکن طریقے سے اپنے لیے راستہ بنانا ہے، چاہے اس کے لیے اسے قانون توڑنا پڑے، ڈرائیونگ کے بنیادی اور حفاظتی اصولوں کو نظرانداز کرنا پڑے، حتیٰ کہ اپنی یا دوسروں کی زندگی کو داؤ پر ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔

ڈیفنس، کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کے علاقوں میں افراتفری اس حد تک نظر نہیں آتی۔ باقی شہر میں یہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ ٹریفک پولیس بھی یوں تو اب پوری طرح ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں بہت کامیاب نظر نہیں آتی اور اس کے ہوتے ہوئے بھی قانون شکنی کے مشاہدات روز آپ کو سڑک پر ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ وہ چوراہے یا سگنل پر ہو۔ اگر نہ ہو تو چاروں سمتوں سے آنے والے ٹریفک میں کوئی بھی رک کر کسی کو راستہ دینے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ لوگ آڑے ترچھے ہوکر اِدھر اُدھر سے نکلنے کی کوشش میں ایک دوسرے کا راستہ کاٹتے ہیں یا پھر آمنے سامنے آکر پھنس جاتے ہیں۔

کراچی میں ٹریفک کی یہ صورتِ حال ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ابھی کچھ برس پہلے تک معاملہ قدرے بہتر تھا۔ بڑے بڑے سگنلز پر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو پولیس والے کھڑے ہوکر چار سمتوں کی ٹریفک کو سنبھال لیا کرتے تھے۔ موٹر سائیکل والوں سمیت بیشتر لوگ سگنل پر اُس وقت تک رک کر انتظار کرتے تھے جب تک اُن کی طرف کی بتی ہری نہیں ہوتی تھی۔ اِکا دُکا قانون توڑنے والوں میں صرف کوئی موٹر سائیکل والا ہی کبھی نظر آتا تھا۔ آج صورتِ حال اس درجہ بدل چکی ہے کہ کیا موٹرسائیکل اور کیا رکشا یا کار جسے دیکھیے سگنل توڑ کر نکلنے اور رونگ سائیڈ سے جانے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ پہلے قانون شکنی جلد باز نوجوانوں سے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ آج پختہ عمر کے لوگ بھی یہی کچھ کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ موٹرسائیکل تو خدا معاف کرے، ایسا شیطانی چرخا بن چکا ہے کہ پندرہ سولہ برس کا نوجوان ہو یا پچپن چھپن برس کا عمر رسیدہ شخص، جو بھی اس سواری پر بیٹھتا ہے، وہی سب حرکتیں کرنے لگتا ہے۔

ابھی دس برس پہلے تک کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ (وین، بس، کوچ وغیرہ) پاکستان کے سب شہروں سے بہتر سمجھی جاتی تھی۔ شہر کے دوردراز علاقوں تک اس کی رسائی اور نہایت معقول کرایہ دونوں ہی عام آدمی کے لیے بڑی سہولت کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سہولت شہر کی ستر اسّی فی صد سے زائد آبادی کے لیے کارآمد تھی۔ ملک کے دوسرے کئی شہروں میں اس سہولت کا ذکر مثال کے طور پر کیا جاتا تھا۔ آج یہ سہولت اس شہر کی بیس بائیس فی صد آبادی کو حاصل نہیں رہی ہے۔ اصل میں اس شعبے میں بہت تیز رفتار زوال کا آغاز مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ وفاق اور صوبہ سندھ دونوں پر پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اور آصف علی زرداری وفاق کی علامت صدرِ مملکت کے عہدے پر متمکن تھے۔ لوٹ مار، ڈاکازنی، اسٹریٹ کرائمز اور دہشت گردی تو کراچی میں اس سے پہلے ہی پروان چڑھ چکی تھی، لیکن اس دور میں ان سب کے ساتھ مزید دو چیزیں بہ طورِ خاص نظر آنے لگیں۔ ایک تو یہ ہوا کہ لوگوں کو گھر یا کاروباری مرکز پر بیٹھے ہوئے بھتے کی پرچیاں ملنے لگیں۔ دوسرے یہ کہ پبلک ٹرانسپورٹ یعنی پوری پوری بس یا کوچ کو کسی جگہ چند لمحے کے لیے روک کر یا چلتے ہوئے بھی دو تین افراد نے لوٹا اور چلتے بنے۔

آئے دن کی اس اجتماعی واردات نے رفتہ رفتہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف سے لوگوں کا دل کھٹا کردیا۔ لوگ ان ذرائع سے کم سفر کرنے لگے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو بھی بھتے کی پرچیوں نے مزید پریشان کردیا۔ چناںچہ عوام کے لیے ان ذرائع سے سفر کرنا اور مالکان کے لیے کاروبار کو جاری رکھنا دوبھر ہوگیا۔ ماس ٹرانزٹ کی یہ سواریاں دیکھتے ہی دیکھتے روڈ سے کم ہونے لگیں۔ اب اگرچہ حالات وہ نہیں ہیں۔ رینجرز کے آپریشن کے شروع ہونے کے بعد سے خاصی بہتری شہر میں آئی ہے، لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ جب بگڑا تو پھر ٹھیک نہیں ہو پایا۔ موٹر سائیکل پر پہلے بھی اس شہر کی آبادی کا ایک معقول حصہ سفر کرتا تھا، لیکن اب یہ ہوا کہ رکشا، چنگ چی اور موٹر سائیکل پر سفر کرنے والوں میں بہت تیزی سے اور غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا۔ خاص طور پر اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لگ بھگ شہر کی نصف آبادی موٹر سائیکل پر سفر کررہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج کراچی موٹر سائیکل اسٹیٹ نظر آتا ہے۔

کسی بھی ملک، قوم یا آبادی میں اجتماعیت کے حوالے مذہبی بنیاد پر ہوں یا ثقافتی دائرے میں، سماجی سرگرمی کی نسبت سے ہوں یا فلاحی کاموں کی توسط سے، ہمیشہ افراد کے مابین رشتوں کو جوڑنے اور مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اِس کے برعکس خود مکتفی یا خود مرکزیت کا احساس افراد کو ایک دوسرے سے بیگانہ کرنے اور لاتعلقی کو فروغ دینے کا جواز بنتا ہے۔ چیزیں، باتیں یا مسائل چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات ان کے اثرات بہت گہرے اور دیرپا ہوسکتے ہیں۔ ایسے شہروں میں جہاں مختلف ثقافتی، لسانی، علاقائی اور گروہی رنگ آبادی میں یک جا ہوں، ان میں اجتماعیت کا احساس سب سے قیمتی شے ہوتی ہے۔ اس کی بقا اور فروغ کا اہتمام سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو اندازہ ہوتا کہ کراچی کے مزاج میں بڑھتی ہوئی مغائرت، انتشار، خوف اور خود مرکزیت کے پس منظر میں جو عوامل کام کررہے ہیں، اُن میں اجتماعیت سے بے نیازی یا بے اعتنائی بھی ایک اہم عامل ہے۔ اس بے اعتنائی کے فروغ میں اجتماعیت کے احساس کو اجاگر کرنے والے ذرائع کے کم زور اور کم یاب ہونے کا بھی بڑا دخل ہے۔

ہماری اجتماعی سائیکی کی ٹوٹ پھوٹ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی شامل رہا ہے۔ زندگی کی مجبوری ہے کہ وہ کہیں ٹھہر نہیں سکتی۔ ضرورتیں اپنا حل ڈھونڈنے کی ترغیب میں اس کا رخ اور رویے بدلتی رہتی ہیں۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے آدمی کی وقتی اور انفرادی آسانی اُسے دیرپا اجتماعی مفاد سے غیرمحسوس انداز میں دور کرتی چلی جاتی ہے۔ اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب مسائل گمبھیر اور خاصی حد تک ناقابلِ حل ہوجاتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کراچی جو بجائے خود پاکستانیت کے اجتماعی رنگوں کی ایک بہت عمدہ اور نہایت بامعنی تمثیل ہے، وہ زیاں کے ایسے تجربات سے کیسے واپس ہو۔

آخری بات، عملی حوالے سے دیکھنے کی ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کیوں کر حل ہوسکتا ہے؟ اس میں دو چیزیں بنیادی اور فوری توجہ کی طالب ہیں۔ ایک ماس ٹرانزٹ کا ایسا انتظام جس میں کم سے کم آئندہ پندرہ بیس برسوں میں اس شہر کی آبادی میں ہونے والے اضافے کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ ظاہر ہے، یہ حکومتی اہداف کا حصہ ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ فلائی اوورز اور انڈر پاسز کے ذریعے متبادل اور کشادہ راستوں کا انتظام۔ یہ بھی حکومت ہی کا کام ہے۔ اس حوالے سے ایک بار جنرل مشرف کے دور میں کراچی کو ایک بڑا اور خصوصی پیکیج دیا گیا تھا۔ پہلے نعمت اللہ خان اور بعد میں مصطفی کمال اس شہر کے میئر کی حیثیت سے اس سلسلے میں کام بھی کرگئے۔ اس وقت موجودہ وفاقی حکومت ایک ماس ٹرانزٹ پر کام کررہی ہے، لیکن اس کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کسی خوش امیدی کا اظہار ممکن نہیں۔ گزشتہ دس برس سے سندھ کی صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ افسوس کہ اس سلسلے میں نئے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور کام تو دور کی بات ہے، اس پارٹی نے تو جاری کاموں کے لیے بھی سخت ناقص کارکردگی دکھائی ہے۔

موجودہ حالات میں ٹریفک پولیس کا انتظام بھی حد درجہ اصلاح طلب ہے۔ جس سماج میں عام آدمی قانون شکنی کے باعث یا کسی بھی وجہ سے پولیس کی گرفت سے پچاس روپے سے دو اڑھائی سو روپے تک دے کر نکل سکتا ہو، وہاں ٹریفک کے نظام کی اصلاح بھلا کیسے ممکن ہے۔ آج ہمارے یہاں ٹریفک قانون کا احترام ہے اور نہ ہی ٹریفک پولیس کا۔ دنیا میں جہاں بھی آپ کو قانون کی عمل داری دکھائی دیتی ہے، جائزہ لیجیے تو اس کا سبب صرف ایک ہے، قانون کی قوتِ نافذہ جو ایمان دار افراد کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ پولیس کے محکمے میں آج ہمارے یہاں سب لوگ راشی نہیں ہیں۔ رشوت کے اس کاروبار میں اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جنھوں نے زندگی کی ضرورتوں کے آگے ہتھیار ڈال کر یہ راستہ اختیار کرلیا ہے۔ اب اگر انھیں اتنی جائز آمدنی میسر آجائے کہ وہ بنیادی ضرورتوں کو آسانی سے پورا کرسکیں تو وہ رشوت کی طرف پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے۔ اس کا اندازہ آپ موٹر وے پولیس کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔