بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات

ڈاکٹر آصف چنٹر  اتوار 11 مارچ 2018
والدین بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بناتے ہوئے انہیں ہر بات شیئر کرنے کا دوستانہ ماحول فراہم کریں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

والدین بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بناتے ہوئے انہیں ہر بات شیئر کرنے کا دوستانہ ماحول فراہم کریں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اس وقت پوری دنیامیں بچوں سے جنسی زیادتی و تشددعالمی مسئلے کے طور پر ابھر رہا ہے، اور دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں خوف، بے حسی اور بے اعتمادی کا باعث بن رہا ہے۔

یہ مسئلہ ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑھ رہا ہے۔ جنسی زیادتی و تشدد میں اکثریت ان کیسوں کی ہے جو کہ سرے سے ہی رپورٹ نہیں کئے جاتے ۔ یہ مسئلہ جہاں بچوں پر جسمانی اور ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے وہیں خاندانوں کی تباہی کا باعث بھی بن رہا ہے ۔

اگر اس مسئلے کو دبے رہنے دیا جائے اور اس جرم کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے، جرم کرنے والے افراد کے خلاف کاروائی نہ کی جائے تو یہ جرم اور مجرم آنے والی نسلوںکو سنگین حالات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ بچوں سے جنسی زیادتی و استحصال دو طرح سے ہو سکتا ہے، جن میں جسم کو چھونے والی سرگرمیاں اور غیر چھونے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل کے جدید دور میں بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر ڈئون لوڈ کرنے کے واقعات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشرے میں بچوں سے جنسی زیادتی و تشدد سے متعلق تناسب کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کیونکہ نہ تو کوئی اس کے بارے میں لب کشائی کرتا ہے اور نہ ہی یہ باقائدہ ریکارڈ میں لائے جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق اس کا تناسب 35 فیصد ہے ،جبکہ اس شعبہ سے وابستہ پروفیشنل لوگوں کے مطابق اس کا تناسب 8 سے20 فیصد تک ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق لڑکیوںمیں ہر4 میں سے ایک اورلڑکوں میںہر 6 میں سے ایک، 18سال کی عمر سے پہلے جنسی زیادتی و تشددکا شکار ہوجاتے ہیں۔

بچوں پر جنسی زیادتی و استحصال کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں اور بعض بچوں میں یہ اثرات اس قدر ہو سکتے ہیں کہ بلوغت اور عملی زندگی کے ہر پہلو میں اس کے مضر اثرات رہتے ہیں۔ بچوں سے جنسی زیادتی و استحصال عمومی طور پر ایک چھپا ہوا جرم ہوتا ہے اور معاشرے میں اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جنسی زیادتی و استحصال کا شکار ہونے والے تین چوتھائی بچے اس کو راز میں رکھتے ہیں اور زندگی بھر کسی کو نہیں بتاتے۔ جنسی زیادتی کا شکار بچے عموماً خود کسی کو کچھ نہیں بتاتے بلکہ ان کی حرکات اور رویوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی یا استحصال ہوا ہے۔

معاشرے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جنسی زیادتی صرف بالغ حضرات کے ساتھ ہوتی ہے حالانکہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہونے کا تناسب بالغ حضرات سے کہیں زیادہ ہے۔ جنسی زیادتی کے کل واقعات میں سے 70 فیصد بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور 18سال سے کم عمر میں جنسی زیادتی کا تناسب بالغ حضرات کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ 2000ء میں کی گئی ریسرچ کے مطابق نو عمر افراد، جن کی عمریں 12 سے17 سال تک کی تھیں، ان کا بالغ حضرات کے مقابلے میں تناسب دو سے تین گنا زیادہ تھا۔

بچوں سے متعلق چند حقائق توجہ طلب ہیں۔ بچے چاہے کسی بھی جنس یا عمر کے ہوں، رنگ و نسل کے ہوں، کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی خاندانی نظام میں رہ رہے ہوں، شدید خطرے میں ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی بھی بچہ جنسی طور پر محفوظ نہیں ہے۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے افراد کی اکثریت ان کی ہوتی ہے جو بچے اور اس کے خاندان کو اچھی طرح جاننے والے ہوتے ہیں اور بچوں کے خاندان کا اعتبار اور اندھا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم اپنے شکار کو تلاش کرنے کیلئے اور اپنے ہدف کے حصول میں کامیابی کیلئے ان بچوں کو ڈھونڈتے ہیں جو کہ خاموش طبع ہوں، بغیر والدین کے یا ایک والد یا والدہ کے ساتھ رہتے ہیں، ٹوٹے ہوئے گھرانے اور دیگر گھریلو الجھنوں، پریشانیوں اور بیماریوں کا شکار ہوں۔ بعض مجرم بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے ساتھ بھی اعتماد کا رشتہ قائم کرتے ہیںاور جب وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا تے ہیں۔

وہ بچے جو حقیقی ماں باپ کے ساتھ رہ رہے ہوں، ان میںجنسی زیادتی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ تاہم یہ خطرات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب وہ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ، وہ بچے جو لے پالک ہوتے ہیں، وہ نسبتاً 10 فیصد زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں ان بچوں کے مقابلے میں جو اپنے والدین کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ زیادتی میں جنس (Gender) کا بھی اہم کردار ہے۔ لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلہ میں 5 فیصد زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس امر میں بچوں کی عمر بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 2010ء میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق زیادتی کا شکار لڑکوں میں 8 فیصد وہ لڑکے تھے جن کی عمریں 12 سے17 سال کے درمیان تھیں۔جبکہ26 فیصد شکار لڑکوں کی عمر 12 سال سے کم تھیں۔

بچوں میں جنسی زیادتی میں بڑا عمل دخل عمر کا بھی ہے۔ اگرچہ تمام عمر کے بچے جنسی زیادتی کا شکار ہو سکتے ہیں مگر 7 سے13 سال کی عمر ایسی عمر ہے جہاں بچوں پر جنسی تشدد وزیادتی زیادہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس معاملے میں اوسط عمر تقریبا ً 9 سال ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق20 فیصد بچے8 سال کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی زیادتی کاشکار ہو جاتے ہیں۔اس وقت افریقین امریکن بچے ،گورے بچوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ خطرے میں ہیں۔

2010ء میں کی گئی ریسرچ کے مطابق وہ بچے جن کے والدین محنت مزدوری کرتے ہیں، ان میں زیادتی کے امکانات تین گنا زیادہ ہوتے ہیں اوراس کے علاوہ وہ بچے، جو غربت کا شکار ہوتے ہیں ان میں بھی اس کا تناسب تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ وہ بچے جو ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہوں، وہ صحت مند بچوں کے مقابلہ میں زیادتی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جو بچے دیہاتوں میں رہتے ہیں وہ شہر میں رہنے والے بچوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔

مجرموں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ بچوںاور ان کے خاندان کو بتدریج اس گھنائونے فعل کیلئے اپنے جال میں پھنساتے ہیں جسے گرومنگ (Grooming) کہتے ہیں۔ مجرم، بچے اور اس کے خاندان کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرتے ہیں تاکہ بچوں تک ان کی پہنچ اور رسائی آسانی سے ہو سکے۔ مجر م، بچوں اور خاندان کی توجہ حاصل کرنے کیلئے بہت سارے طریقے استعمال کرتا ہے۔ جیسے کہ تحفے تحائف دینا، ضرورت سے زیادہ توجہ دینا، ضروریات زندگی کی چیزیں مثلاً کپڑے، جوتے ، کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

35% مجرم، بچوں کو جسمانی و ذہنی تشدد کی دھمکیاںدیتے ہیں تاکہ وہ اس کا اظہار کسی دوسرے شخص پر نہ کریں۔ 81% بچوں سے زیادتی کے واقعات میں ایک مجرم اور ایک بچہ ہوتا ہے اور 6 سے 11سال کے بچے بار بار اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات عموماً ایک ہی رہائشی علاقے یا محلے میںوقو ع پزیر ہوتے ہیں، جہاں پر مجرم اور بچہ رہتے ہیں۔ ایک محتا ط اندازے کے مطابق 84% بچے جن کی عمریں 12 سال سے کم ہوں، وہ اپنے رہائشی علاقے کے اندر ہی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔

بچوں میں جنسی استحصال و زیادتی کیلئے دن کے چند اوقات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ زیادہ تر یہ واقعات دن 9 بجے، 12 بجے اور 3 سے 4 بجے کے دوران ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچوں، جن میں 12 سے 17 سال کے بچے شامل ہیں، میں زیادتی کے اوقات زیادہ تر شام کے ہیں۔ بچوں میں یہ واقعات عموما ً ان دنوں میں ہوتے ہیں جب سکول کھلے ہوں۔ عموماً 3 سے 7 بجے کے اوقات میں ایسے کیسز زیادہ سامنے آتے ہیں۔

بچو ں میں جنسی زیادتی معاشرے اور معیشت پرگہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ اس سے ہونے والے ذہنی و نفسیاتی اثرات پر اٹھنے والے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ نو عمر بچیوں کا حاملہ ہو جانا، معاشی اور معاشرتی مسئلہ بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں زیادتی کے نتیجے میں نوعمرحاملہ بچیوں کے مسائل کی وجہ سے تقریباً 90 لاکھ ڈالرسالانہ اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنسی ودیگر بیماریوں پر 84 لاکھ ڈالر سالانہ اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک خفیہ جرم ہے کیونکہ جب تک بچہ نہ بتائے وہ چھپا رہتا ہے۔ بچے عموماً کسی کو بتانے سے ڈرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سارے کیسزمنظرِعام پر آہی نہیں پاتے۔ لیکن کچھ علامات سے پہچانا جا سکتا ہے کہ کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

علامات:
1۔ زیادہ تر زیادتی کے شکار بچوں میں جسمانی علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیونکہ بچوں میں چوٹ یا زخم بھرنے کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ البتہ بچوں کے جنسی اعضا میں درد، خارش یا پیشاب پخانے میں تبدیلی آئے تو فوراً تحقیقات کرنی چاہیے۔

2 ۔ روز مرہ زندگی کے رویوں میں تبدیلی مثلاً بھوک کا نہ لگنا، ڈپریشن، غصہ ، عام معاملات سے کنارہ کشی کرنا، اپنے آپ کو زخم لگانا، لوگوں سے خوف محسوس کرنا، رات کے وقت پیشاب کا نکل جانا، خود کشی کرنے کی کوشش کرنا، سگریٹ نوشی و نشہ وغیرہ کرنا۔

3 ۔ چلنے یا بیٹھنے میں دشواری، جو کہ عام طور پر جنسی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کسی مخصوص شخص سے دور بھاگنا یا لا تعلقی کا اظہار کرنا اور بلاوجہ ایسے شخص سے دور بھاگناجو ماضی میں بہت قریب رہا ہو۔ دوسروں کے سامنے لباس تبدیل کرنے میں شرم محسوس کرنا اور زندگی کی دیگر مصروفیات سے دور ہونا۔

4 ۔ جنسی اعضا میں انفیکشن ہونا، گھروں سے بچوں کا بھاگ جانا، بچیوں کا حاملہ ہو جانا، جنسی ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور عمر سے زیادہ جنسی معلومات ہونا۔

مجرم کی نشانیاں
اکثر وہ لوگ مجرم ہوتے ہیں جن پر بچے کے گھر والے اندھا اعتمادکرتے ہیں۔ 90% مجرم وہ ہوتے ہیں جن کو بچے اچھی طرح جانتے ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔اگرچہ ایک بچہ جو جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے اس میں اپنی آنے والی اگلی زندگی میں دوسروں کے ساتھ یہی فعل کرنے کا رسک بڑ ھ جاتا ہے ۔

کچھ مجرم ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بچہ ہی سمجھتے ہیں۔ اکثر وہ ایک ذہنی بیماری، جسے Pedophilia کہتے ہیں، کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو Pedophile کہتے ہیں۔ مجرم عموماً مرد حضرات ہوتے ہیں جو ان بچوں کے ساتھ ایسا فعل کرتے ہیں جنہیں و ہ جانتے ہیں اور یہ صورت حال بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہے کہ بچے ان کو جانتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔

بچوں کی خصوصیات:
جنسی زیادتی کا شکار بچے عموماً وہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں الگ تھلگ رہتے ہیں یاجن میں جسمانی یا ذہنی بیماری ہوتی ہے۔ زیادہ تر جنسی زیادتی کے شکار بچے اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے کیونکہ ان کے مطابق یہ ان کا ذاتی مسئلہ اور ایک اہم معاملہ ہوتا ہے جو اگر والدین کو بتایا جائے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں ۔ وہ اس بارے میں اپنے دوستوں کو بھی نہیں بتاتے کیونکہ ان کو اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ مجر م ان کو نقصان پہنچائے گا، جان سے مار دے گا اور کوئی بھی شخص شائد ان کی کہانی کو سچ نا سمجھے۔ غریب، محرومیوں کے شکار اور ضرورت مند بچے عموماً زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ایسے افراد جہاں ان بچوںکو مالی امداد دیتے ہیںوہاں پر اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔

سماجی علامات:
پڑھائی میں دلچسپی کا نہ ہونا ، امتحان میں فیل ہو جانا، کلاس کی ایکٹیوٹیز میں شامل نہ ہونا، خوف زدہ ہونا، سگریٹ نوشی اور نشہ جیسی عادات اس میں شامل ہیں ۔ہمیں اس بات کے بارے میں جاننا چاہیے کہ جنسی گرومنگ “Grooming” کیا ہوتی ہے جس سے بچوں کی زندگیوں کا استحصال ہوتا ہے۔

جنسی استحصال سے مراد یہ ہے کہ مجرم جان بوجھ کر نوعمر بچوں کو اور نوجوانوں کو ایک مخصوص دورانیہ کے دوران جنسی تعلقات کیلئے تیار کرتا ہے اور موقع ملنے پر ا ن سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ اس عمل میں تقریباً 3 ہفتے سے 8 ماہ کاعرصہ لگتاہے۔ اس کا انحصار مجرم کے مقاصد اور بچے کے رسپانس کے دورانیے پر منحصر ہوتا ہے۔ اکثر اوقات مجرم کسی اور ملک سے بھی ہوسکتا ہے اور بچے کو تیار کرنے پر کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہے کہ بچوں کے آن لائن رابطوں سے لڑکیوں کا لڑکوں کے مقابلے میں جنسی گرومنگ کا رسک زیادہ ہوتاہے۔

گرومنگ کے چھ مراحل ہیں
1 ) مجرم کا ٹارگٹ کو تلاش کرنا
اس مرحلے میں مجرم مناسب بچوں کی تلاش کرتا ہے جن میں وہ بچے شامل ہوتے ہیں جو غربت یا تنہائی کا شکار ہوتے ہیں یا وہ بچے جن کی دیگر ضروریات ہوتی ہیں۔

2 ) بچے کا اعتماد حاصل کرنا
مجرم بڑی ہوشیاری سے بچے کی ضروریات کو دیکھتا ہے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ مخلص ہے اور اس کا کتنا ہمدرد ہے۔ اس طرح مجرم، بچوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

3 ) بچوںکی ضروریات کو پورا کرنا
اس مرحلے میں مجرم، بچوں کو تحائف دیتا ہے اور بچوں کی دیگر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس طرح وہ بچے کی زندگی میں ایک اہم شخص بن جاتا ہے۔

4) تنہائی
اس مرحلے میں مجرم بچے کو اس کے ساتھ خاص تعلقات رکھتے ہوئے تنہائی میں لے جاتا ہے۔ یہ تنہائی اس کا دفتر ، گھر یا کوئی پارک ہو سکتا ہے یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں تنہائی میسر آسکے۔ اس طرح مجرم، بچے کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ وہ بچے کا کتنا خیال رکھنے والا شخص ہے۔ اس موقع پر والدین بھی کچھ غلط نہیں سوچتے کہ یہ شخص اس کے بچے کے ساتھ کتنی محبت اور ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ مجرم، بچے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کا بھی اندھا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ والدین آنے والے خطرات کو نہیں دیکھ سکتے۔

5) بچے سے زیادتی
اس مرحلے پر مجرم، بچے کے بارے میں ہر طرح کی معلومات رکھتا ہے۔ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ بچے کی کمزوری کیا ہے اور وہ بچے کو آسانی سے کسی بھی جگہ پر لے جا سکتا ہے جہا ں وہ بچے سے جسمانی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔

6) کنٹرول
یہ بڑا حساس مرحلہ ہے۔ اس میں مجرم بچے سے زیادتی کے بعد دھمکاتا ہے اور خاموش رہنے کیلئے ڈراتا ہے۔

اس طرح بچہ بار بار زیادتی کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مجرم، بچے کو مزید تحائف وغیرہ بھی دیتا ہے تاکہ تعلقات جاری رہ سکیں۔ اکثر جنسی زیادتی کا شکار بچے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سخت اذیت اور تکلیف میں ہیں لیکن وہ بہت زیا دہ ڈر ،خوف اور دبائو کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے ۔ اس مرحلے میں بچے مجرم کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں جن سے بچوںکو جنسی درندگی سے بچایا جا سکے۔ نوجوان بچوں کو اپنے والدین کو اپنے معمولات کی خبر ضرور دینی چاہیے اور بچوں کو اعتماد ہو نا چاہیے کہ ان کے والدین ان کی مدد کیلئے تیار ہیں اور ان کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچا سکتے ہیں۔ والدین کو بھی بچوں کو آگاہی دینی چاہیے کہ کوئی بھی شخص چاہے رشتے دار ہی کیوں نہ ہو، اگر انہیں تحائف دیتا ہے یا امداد کرتا ہے تو فوراً بتائیں۔ اس طرح والدین کو صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص تحائف کیوں دے رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں ؟ بچوں کو کبھی بھی اکیلی جگہ پر نہیں جانا چاہیے۔ ہمیشہ اپنے دوستوں کے سا تھ ایسی جگہ پر جائیں اور نہ ہی اپنی عمر سے بڑے بچوں کو یہ کہنے دیں کہ آپ کے جسم کے مخصوص حصے بڑے خوبصورت ہیں یا کسی بھی قسم کی جنسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بچوں سے ایسی گفتگو کرے۔ ایسی صورت میں بچے وہ جگہ فوراً چھوڑ دیں اور اپنے والدین کو اس بارے میں بتائیں۔ جب بھی آپ کسی پارٹی یا فنکشن میں جائیں تو بڑے افراد کے ساتھ جائیں کیونکہ مجرم اس طرح کے مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

ہدایات برائے والدین اور اساتذہ
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو روکنا کوئی آسان کام نہیںہے کیونکہ یہ اس طرح کا جرم ہے جس میں مجرم ان کے ارد گرد اور قریبی لوگ ہوتے ہیں۔ البتہ ا س قسم کی آگاہی سے لوگوں کے اندر اس پیچیدگی کے بارے میں معلومات ضرور ملے گی اور واقعات کو کم سے کم کیا جا سکے گا۔ والدین کو اپنے ملازمین پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ جو بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو یہ بتائیں کہ وہ کسی بھی بات کو مت چھپائیں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کروائیں کہ گڈ ٹچ (Good Touch) اور بیڈٹچ (Bad Touch) کیا ہوتا ہے۔

بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ بہادر بنیں اور اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسے فوراً لوگوں کو بتائیں۔ بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور اس معاملے میں بہت احتیاط رکھیں۔اگر آپ کے بچوں میں ذہنی یا جسمانی معذوری ہے جس کی وجہ سے بچہ اپنے طور پر کوئی بروقت فیصلہ نہیں کر سکتا تو ایسے بچوں کو کبھی بھی تنہا مت چھوڑیں اور تنہا جگہوں پر مت بھیجیں۔

اگر کوئی بچہ آپ کے پاس آتا ہے اور اس قسم کی زیادتی کے بارے میں کوئی بات بتاتا ہے تو ا سے کبھی بھی غیر سنجیدہ مت لیں۔ اس سلسلے میں چند چیزوں کو لازمی طور پر کرنے کی ضرورت ہے مثلاً ہربات کا یقین کریں جو بچہ کہہ رہا ہے۔ اس کی بات توجہ سے سنیں۔اس کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھیں اور بچے کو فوراً میڈیکل چیک اپ کیلئے ڈاکٹر سے چیک کروائیں۔پولیس کو بھی بتائیں یا چائلڈ پروٹیکشن جیسے اداروں کو بھی ملوث کریں۔ اس ضمن میںفوراً بچے کا معائنہ کسی اچھے ڈاکٹر سے کروانا ضروری ہے۔ میڈیکو لیگل ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں جو جسمانی زیادتی کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ یہ طبی معائنہ جتنی جلدی ہو سکے کروا لینا چاہیے۔جتنی جلدی علاج ہوگا اتنی جلدی بہتری ہوگی۔ اس کے علاوہ جنسی بیماریاں آتش زدہ، ایڈز اور حمل وغیرہ شامل ہیں۔ ان ٹیسٹوں سے علاج معالج میں مدد ملے گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ بچے کے لباس یا کپڑوں کو تبدیل نہ کیا جائے اور کپڑے پر لگے کسی بھی داغ دھبے کو بھی صاف نہ کیا جائے۔ اس طرح Evidance ضائع ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے جو کہ مجرم تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے :

بچو ں میں جنسی زیادتی اور استحصال کی کئی اقسا م ہیں
Intersibling Abuse (1: یہ وہ قسم ہے جس میںخاندان کا ایک بچہ دوسرے بچے سے زیادتی کرتا ہے ۔ عموماًبڑی عمرکا بچہ چھوٹی عمر کے بچے سے بدفعلی کرتا ہے۔

Incest ( 2: یہ زیا دتی کی وہ قسم ہے جس میں خاندا ن کے قریبی افراد اور رشتہ دار بچو ں کو زیادتی کا نشا نہ بنا تے ہیں۔ یہ با ت بھی انتہا ئی توجہ طلب ہے کہ معا شر ے کے وہ سر کردہ افراد جو معاشرے میں اثر و رسو خ رکھتے ہیں، اس مکروہ فعل کا ارتکاب کر سکتے ہیں اوراپنے نام عزت اور اثرو رسوخ کی وجہ سے اس پر پردہ ڈالنے میں کا میا ب رہتے ہیں۔

بچو ں کے ساتھ جنسی زیادتی کو Child Molestation بھی کہتے ہیں۔ بچو ں کے سا تھ جنسی زیا دتی مختلف جگہوں پر ہو سکتی ہے۔ مثلا ً:۔ گھر ، سکو ل یا کا م کی جگہ جہاں بچے کام کرتے ہیں ۔ بچو ںمیں جنسی زیا دتی کے نفسیاتی و ذہنی اثرات کے علاوہ جسما نی اور جنسی اعضا ء کا زخمی یا مجر وح ہونا بھی شامل ہے۔ خاص کر وہ بچے جو خاندان کے قر یبی عزیزو ں کا شکار ہو تے ہیں اُن پر نفسیا تی اثرا ت خطر ناک حد تک زیادہ ہو تے ہیں۔

بچو ں کے سا تھ جنسی استحصال اور زیا دتی کا تنا سب لڑکیوں میں 19.7% اور لڑکوں میں 7.9% ہے۔

جیسے کے پہلے بتا یا گیا ہے کہ زیا دہ تر بچے مجر م کو جانتے ہیں اور ان میں تقریبا ً 30% بچو ں کے قریبی رشتہ دار ہو تے ہیں ۔ جن میں با پ ، چچا ، کزن اور ما مو ں وغیر ہ شامل ہیں۔ اور تقریبا ً 60% دیگر جاننے والے افراد ہوتے ہیں جن میں دوست ، خاندا نی دوست ، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ملازم ، ہمسائے وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ بچو ں کے ساتھ زیا دتی کر نے والے اجنبی افراد صر ف 10% ہوتے ہیں ۔ بچو ں کے ساتھ زیا دتی کرنے والے اکثر افراد مرد ہوتے ہیں ۔ خوا تین پر ایک تحقیق کے مطا بق مجرم خوا تین کا تناسب 14سے 40 فیصد ہے ۔ خوا تین 14 سے 40 فیصد لڑکو ں اور 6فیصد لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیا دتی و استحصال کر تی ہیں ۔ بچو ں کے ساتھ زیا دتی کرنے والے شخص کوPedophile کہا جا تا ہے ۔ لیکن ہر مجرم جو بچو ں کے سا تھ زیا دتی کر تا ہے وہ Pedophile نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر Pedophile بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے ۔ بچو ں میں جنسی زیا دتی کے مختصر دورانیے اور طویل دورانیے کے اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ کھانے میں بے قاعدگی، Personality Disorder، سونے اُٹھنے میں خلل ، اس کے علا وہ بچے ڈر او ر خو ف کا اظہار ، انگو ٹھا چو سنا اور بستر پر پیشاب کرنا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا، سکو ل سے بھاگنا ، روزمرہ کی Activities سے الگ ہو جانا ، یادداشت میں کمی ہونا ، جا نوروں کو مارنا جیسے اثرا ت پیدا ہو سکتے ہیں۔

تحقیق نے ثا بت کیا ہے کہ 51 سے 79 فیصد زیادتی کے شکار بچو ں میں نفسیا تی علا ما ت پیدا ہو جا تی ہیں ۔ موجودہ انفارمیشن جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے استعمال نے بچوں کے جنسی استحصال میں کئی گنا اضافہ کیا ہے لیکنParental Control جیسے سافٹ ویئرز بھی بازار میں دستیاب ہیں، جن کو موبائل فون، ٹیبلٹ فون، لیپ ٹاپ پر انسٹال کر کے بچوں کوOnline جنسی بات چیت اور جنسی روابط ومیل جول سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ اور غیر اخلاقی مواد کو فلٹر کیا جا سکتا ہے۔

لوگ بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار کیوں بناتے ہیں ؟ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس کی کئی Theories بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ وجوہات میں سے ایک نفسیاتی عارضہ جس کا پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے، کو Pedophie کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ان افراد کے ساتھ جنسی وابستگی رکھتے ہیں جو ابھی بلوغت کی عمر میں پہنچ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہرPedophile مجرم ہو۔ یہ مجرم اس طرح کے افراد ہوتے ہیں جن کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ ان کے خاندان، والدین اور دیگر لوگوں کے ساتھ اچھی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔ عموماً جو لوگ اپنے گھر اور ماحول میں گھریلو تشدد دیکھتے ہیں۔ ان کی دماغی کیفیت درست نہیں ہوتی۔ ان وجوہات کی بناہ پر وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں سکتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس طرح کے افراد بچوں پر قابو پانے اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔

ایسے مجرم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں پر حاوی ہو اور ان پر اپنا کنٹرول رکھے ۔ ایک تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ ذیادتی کا شکار ہوتے ہیں وہ آگے جا کر دیگر بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ۔جس کا تناسب 33 سے 75 فیصد ہو سکتا ہے ۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ بچوں کی طرف جنسی کشش زیادہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو Pedophile کہا جاتا ہے۔ اس کی آگے دو مزید قسمیں ہیں:
1 ۔ Hebephile : یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو ان بچوں کی طرف زیادہ کشش رکھتے ہیں جنہوں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوتا ہے۔

2۔ Ephebophile : یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو ان بچوں کی طرف کشش رکھتے ہیں جو جوان ہو چکے ہوتے ہیں۔
معاشرے میںبچوں کے ساتھ زیادتی و استحصال والے مجرم معاشرے میں کہاں اور کتنے پائے جاتے ہیں اس بات کا تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے آپ لوگوں کے ہجوم میں سے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم تلاش نہیں کر سکتے ۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و استحصال اکیسوئیں صدی کا ایک المیہ بن چکا ہے جدت اور انسانی ترقی نے جہاں فاصلوں کو کم کرتے ہوئے رابطوں اور سفر کو آسان بنا دیا ہے، وہا ں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔

یہ بات قارئین بڑی غور و توجہ سے پڑیں کہ بچوں کو کبھی تنہا مت چھوڑیں ، انکی ضروریات کا خاص خیال رکھیں، ان کی بات ضرور سنیںاور بچوں کو میل جول رکھنے اور دوستوں کے انتخاب میں رہنمائی کریں۔ ان کی جائز خواہشات کو پورا کریں، ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک ہوں اور ان کو اپنا دوست ہونے کا احساس دلائیں۔

بچے محبت و توجہ کے متلاشی ہوتے ہیںاور ہر اس شخص کی طرف آسانی سے راغب ہو جاتے ہیں جو ان کو محبت اور توجہ دیتا ہے۔ مال و زر ہی بچوں کے مستقبل کا ضامن نہیں ہوتا۔ والدین کی اچھی تربیت ہی ان کیلئے سرمایہ حیات ہوتی ہے۔ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے مال و زر کی دوڑ میں اتنا آگے نا نکل جائیں کہ آپ کے اور بچوں کے درمیان دوریوں کی خلیجیں حائل ہو جائیں اور بچے آپ کے وقت توجہ اور محبت کیلئے ترسیں۔ اس کے علاوہ Community Watch کے ذریعے معاشرے کے سرکردہ افراد اگر اپنا بھرپور کردار ادا کریں تو ہم اپنے بچوں اور معاشرے کو اس مکروہ فعل سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔