خطرہ

کامران عزیز  جمعـء 16 مارچ 2018

قابل اجمیری کا معروف شعر ہے:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان کوئی آن کی آن میں نہیں بن گیا، اس کے لیے کئی نسلوں نے قربانیاں دیں، برسوں سختیاں جھیلی گئیں،کیا بچہ کیا بوڑھا ،کیا مرد کیا عورت ، سب نے آگے بڑھ کر تن من دھن سب قربان کردیا۔ یہ بہت پرانی بات نہیں بس 70برس پہلے کی بات ہے، جب لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ تج کر یہاں آئے۔ بہت سے چلے مگر پہنچ نہ سکے، ہزاروں گھرانے برباد ہوگئے۔

کسی کا باپ کسی کا بیٹا کسی کی بیوی کسی کی بہن اورکسی کی ماں قربان ہوئی، یہ اتنی پرانی بات نہیں کہ اس قدر جلدی بھلا دی جائے، یہ قربانیاں جن کے نقوش اب بھی لوگوں کے دلوں پرکندہ ہیں کیا اتنی جلدی بھلائی جا سکتی ہیں، یہ قربانیاں کس لیے تھیں کیا ان سیاستدانوں کے لیے جن کے مفاد پر کوئی گزند لگتی ہے تو انھیں ملک فوراً خطرے میں نظرآنے لگتا ہے، کسی کی کرسی جاتی ہے تو اسے ملک خطرے میں نظرآتا ہے،کسی کوکرسی نہیں ملتی تو اسے ملک خطرے میں نظرآتا ہے، حتیٰ کہ کسی کو جوتا پڑ جاتا ہے تو بھی ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے اورکچھ قلم فروشوں کو ملک میں خانہ جنگی نظرآنے لگتی ہے، کیا یہ ملک ان ضمیرفروشوں کی جاگیر ہے؟

یہ سیاستدان جو ہر روز پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور صرف کرسی کے لیے اس کھیل تماشے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے لیے ملکی سلامتی کے خلاف باتیں کرنے پرکس طرح چوک سکتے ہیں، اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتے تو شاید ان ایوانوں میں پھٹک بھی نہیں سکتے تھے جسے آج یہ گھر بنائے بیٹھے ہیں، ان کا تو دین ایمان ہی نہیں ہے، اگر ہوتا توآج جو بے حرمتی انھوں نے اپنے مینڈیٹ کی، کی ہے وہ کرنے سے پہلے کم ازکم مستعفی ہی ہو جاتے۔ آج سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں غیرنمایندہ ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میںبھی لوٹا کریسی ہوئی۔

یہ جن کے ٹکٹ اور نام پر پارلیمنٹ میں آئے ان سے غداری کی تو مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا مگر دیکھا جائے تو اب ان اسمبلیوں کی کیا قانونی حیثیت ہے بلکہ بعض پارٹیوں کی بھی کوئی قانونی حیثیت باقی نہیں رہی۔

ایم کیوایم اس کی مثال ہے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی پی ایس پی کی اخلاقیات بھی دیکھیے پہلے تھالی میں چھیدکیا اور پھر غیرنمایندہ ہونے کے باوجود سینیٹ الیکشن میں حصہ بھی لے لیا، یہ ایمان ہے ان کا، آئینہ دیکھتے ہوں گے تو کیا نظر آتا ہوگا اور اگر الگ ہوہی گئے تھے تو وہاں سے جوکچھ ملا سب کچھ واپس کردیا ہوتا، مگر ایسا نہ کرنا ہی ضمیرفروشی کہلاتا ہے، پی آئی بی اور بہادر آباد بھی اخلاقی پستیوں میں ہیں، بلوچستان اسمبلی میں راتوں رات جو ہوا اسے کیا کہیے گا، خیبر پختونخوامیں بھی رات دن یہی کھیل ہو رہا ہے، ایک وزیراعظم بھی نااہل ہوگیا، اس کے بھی کئی ساتھی ساتھ چھوڑ گئے۔

2013 میں جب انتخابات کے بعد اسمبلیاں آئی تھیں وہ وہ نہیں جو آج ہیں، جن کے نام پر ووٹ لیے گئے تھے ان میں سے ایک بڑا سیاسی کردار ختم، دوسری بڑی پارٹی کا لیڈر قانونی طور پر نااہل ہوا،چند ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی، نئی پارٹیاں بننے کے ساتھ ایک صوبے میں تو حکومت بھی بدل گئی بلکہ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت نا اہلی کے بعد جس طرح جلسے کر رہے ہیں اس سے لگتا ہی نہیں کہ وہ حکومت میں ہیں اور جب انھیں بھی لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، حکمرانی ان کی جماعت کی نہیں کسی اور کی ہے، زورکسی اور کا چل رہا ہے، فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں، حکومت کوئی اور چلا رہا ہے تو پھر وہ نام کو بھی اقتدار سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔

کیا چیز انھیں تازہ مینڈیٹ لینے سے روکے ہوئے ہے، حقیقت میں اس وقت جو ایکویشن ہے وہ واضح کرتی ہے کہ عوام نے 2013 میں جس طرح جن پارٹیوں کو جیسے بھی مینڈیٹ دیاتھا وہ اب ویسا نہیں رہا بلکہ سیاستدانوں کے پارٹیاں بدلنے سے عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی ہے، پھر یہ فوری طور پر اسمبلیاں توڑ کر عوام سے رجوع کیوں نہیں کرتے، یہ عجیب بات ہے کہ اقتدار میں نہ ہونے کا راگ آلاپ رہے ہیں اور اپنے سے ظلم وزیادتی کا ہرجگہ واویلا کر رہے ہیں مگر جسے یہ عوامی عدالت کہتے ہیں اس عدالت سے انصاف لینے کے لیے جاتے بھی نہیں، انھیں کس چیز کا انتظار ہے کیا یہ ٹکٹ پر لگے پیسے پورے کرنے چاہتے ہیں۔

کیوں نہیں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرتے، کیوں نہیں فریش مینڈیٹ لیا جاتا، جمہوریت کا راستہ تو یہی ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ باقی نہ رہے اور اس میں کوئی حائل ہو جائے تو ایک بار پھر عوام سے رجوع کیا جائے، یہ عین قانونی اور جمہوری راستہ ہے، موجودہ اسمبلیوں میں تو اس قدر خریدوفروخت ہوئی کہ اس کی سیاسی ساخت ہی بدل گئی ہے، اس کے بعد تو انتخابات نہایت ضروری ہو گئے ہیں مگر چونکہ یہ حقیقت میں غیرنمایندہ ہیں اور ڈلیور کرنے کے اہل نہیں اس لیے انھیں عوام سے رجوع کرنے سے خوف آتا ہے کیونکہ آج اسمبلیوں میں موجود بہت سے نام نہاد ’منتخب‘ لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹ گیا ہے۔

وہ کھل کر سب کے سامنے آ گئے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب وہ پھر سے یہاں نہیں آ سکتے، اسی لیے وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے جمہوری راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ انھیں خود کو بچانے کے لیے ملک خطرے میں نظرآنے لگتا ہے، یہ اخلاقی بدحالی اور مردہ ضمیری کی واضح مثال ہے لیکن ان کی تمام چالیں ہی ناکام ہو گئی ہیں وہ خود کو بچانے کے لیے جس قدر آگے بڑھ رہے ہیں اور جو چال بھی چلتے ہیں وہ الٹی پڑتی ہے اور وہ اور زیادہ عریاں ہو جاتے ہیں، صد شکر ہے کہ ان کی تمام چالیں عوام کو شعور دے رہی ہیں اور اسی شعور سے آج وطن عزیز مزید محفوظ اور توانا ہوتا جا رہا ہے، عاقبت نااندیش سیاستدانوں کی مفاد پرستی کے ساتھ بیرونی دشمن بھی بے نقاب ہو رہا ہے لیکن نااہل حکمرانوں نے ملکی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی، بھارت کو لگام دینے کے لیے سفارتی محاذ پر کوئی سرگرمی نظرنہیں آتی۔

بنگلہ دیش اور افغانستان کی حرکتوں کے خلاف بھی کوئی کام سامنے نہیں آیا، امریکی دھمکیوں کو بھی خاموشی سے برداشت کرلیاگیا، دہشت گردی کی مالی معاونت کی فہرست میں شمولیت کی تلوار لٹکنے تک کوئی حکمت عملی بھی سامنے نہیں آئی اور آج بھی بغلیں جانکیں جا رہی ہیں، لگتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس بیرونی محاذ پر لڑنے کی کوئی پالیسی ہے نہ سمت، انھیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔

حال ہی میں کشمیر کے محاذ کو کشمیریوں نے گرم کیا، پوری وادی میں کشمیری اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوگئے مگر ہم نے اخلاقی وسفارتی محاذ پرکیا کیا، پرامن کشمیریوں کو اس وقت صرف سفارتی محاذ پر سپورٹ کرنے سے بہت زیادہ کامیابی ملنے کی امید ہے مگر حکومت کی پالیسی 5 فروری کی چھٹی کے سوا کیا رہی بلکہ اقوام متحدہ میں تصویر لہرانے کے اسکینڈل کے ذریعے اس اہم کاز کا نقصان پہنچایا گیا، جن حکمرانوں کے منہ سے دنیا دکھاؤے کو بھی دشمن کا نام نہیں نکلتا یہ اسے آنکھیں کیا دکھائیں گے۔

آج وطن کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ نااہل حکمران اور سیاستدان ہیں جن کے پاس کوئی سوجھ بوجھ ہی نہیں، جو ذاتی مفاد کے لیے اقتدار و اختیار کی جنگ لڑ رہے ہیں پارٹی بدلنا تو ایک طرف یہ تو اس کے لیے کچھ بھی کرگزرتے، بہت زیادہ صاف ستھرے سمجھے جانے والے سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے، اسلام آباد سے منتخب ہونے والا ایک سینیٹر اس کی واضح مثال ہے، پھر کس پر تکیہ کریں اور کس کے لیے قسم کھائیں، یہاں تو حمام میں سب ہی ننگے ہیں، بہتر یہی ہے کہ ملکی مفاد سے بے خبر ان بلائے جان نماسیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جس کا واحد حل انتخابات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔